فیض احمد فیض


20 نومبر 1984 ء کو شہر لاہور میں اُردو ادب کے عظیم شاعر فیض احمد فیض اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے تھے آج ان کی چالیسویں برسی ہے۔

” مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“ اس نامور نظم کے خالق فیض احمد فیض کا تعلق بھی اسی سر زمین سے ہے جہاں سے اقبال جیسی ہستی نے جنم لیا بس فرق اتنا ہے کہ فیض نارووال (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے اور اقبال شہر سیالکوٹ میں۔ فیض احمد فیض نے ان ہی اداروں سے تعلیم حاصل کی جہاں سے اقبال نے تعلیم حاصل کی تھی۔ مرے کالج سیالکوٹ، گورنمنٹ کالج لاہور اور اورئینٹل کالج۔

فیض احمد فیض کی یہ مشہور نظم جو ان کے پہلے شعری مجموعے نقش فریادی میں موجود ہے ”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“ کو اگر ان کی شہرت کی وجہ کہا جائے تو کچھ غلط نا ہو گا یہ نظم ایک غیر معمولی نظم ہے۔ نظم کے شروع کا بند تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صرف محبت و عشق اور محبوب کی بات کی جا رہی ہے مگر اچانک سے نظم اپنا رخ تبدیل کر لیتی ہے۔

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

اس بند کو پڑھ کر اچانک قاری معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں ظلم جبر کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور پھر سے فیض صاحب اسے واپس پہلی والی کیفیت میں لے جاتے ہیں۔ فیض صاحب کی شاعری کے پہلے مجموعے کا پہلا حصہ رومانوی نظموں پر مشتمل ہیں۔

فیض صاحب کی شاعری اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری کی رومانی شاعری سے متاثر نظر آتی ہے۔ مگر یہ اثرات مکمل غالب نہیں ہیں۔ فیض احمد فیض کیوں کہ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اس تحریک کے اثرات زیادہ غالب ہیں۔ ان کے صرف پہلے مجموعے ”نقش فریادی“ کی بات کی جائے تو اس میں چند نظمیں جیسے ”رقیب سے، تنہائی، بول، موضوع سخن اور چند روز اور میری جان وغیرہ میں ترقی پسند روش نظر آتی ہے۔

فیض احمد فیض کی شخصیت میں داخلیت پسندی اور دور بینی موجود تھی۔ جو کہ ایک غزل گو شاعر کا بنیادی وصف ہے اور ان کے کلام میں یہ خصوصیت غزلوں میں زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

جو دل سے کہا ہے جو دل سے سنا ہے
سب ان کو سنانے کے دن آ رہے ہیں
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے

فیض صاحب نہ صرف ایک داخلیت پسند اور دور بین شاعر تھے بلکہ وہ ایک جمال پسند شاعر بھی معلوم ہوتے ہیں۔ ”حسینہ خیال سے، رقیب سے، سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام“ وغیرہ نظموں میں ان کی جمال پسندی نظر آتی ہے۔ ولی دکنی کو اس سے پہلے جمال پرست شاعر کہتے تھے۔ جمال پرست کے لحاظ سے فیض احمد فیض کے اشعار

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

فیض صاحب نے اپنی شاعری میں کلاسیکی رنگ کو قائم رکھا اور اپنے دلفریب انداز کے ساتھ اس رنگ کے پیکر کو اس طرح تراشا ہے کہ قاری اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ فیض احمد فیض قاری کو رومان سے حقیقت کی طرف لے کر آتے ہیں وہ اچانک سے قاری کے دماغ میں حقیقی دنیا میں موجود جبر کو بے نقاب نہیں کرتے بلکہ آہستہ آہستہ حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال ان کی نظم ”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments