ڈاکٹر محمد حمید اللہ: ایک عبقری شخصیت


مردِ قانع، زاویہ نشین، جلوہ نمائی سے گریزاں، پندرہ سے زیادہ زبانوں میں سو سے زیادہ کتب، نو سو اکیس علمی مقالات کے مصنف، قرآن کریم، امام محمد ابن حسن الشیبانی کی کتاب السیر الکبیر اور شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کے فرانسیسی زبان کے مترجم ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے بارے میں شاہ بلیغ الدین رقم طراز ہیں کہ ان کی پیدائش فیل خانے کے اپنے آبائی مکان، جس کا نام آپ کے والد خلیل اللہ نے خانہ خلیل رکھا تھا، میں ہوئی۔ اپنی مرتب کتاب۔ ’تذکرہ قانون‘ میں ڈاکٹر صاحب اپنی پیدائش انیس فروری 1908 لکھتے ہیں۔

اپنے پردادا قاضی بدر الدولہ سے عربیت ورثے میں لینے والے محمد حمید اللہ بقول شاہ صاحب کے ’دارالعلوم سے انیس سو تئیس میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسی سال جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات میں داخل ہوئے۔ انیس سو انتیس میں بزم قانون کے معتمد اور اگلے سال نائب صدر رہے۔ ‘ اسلامی قانون بین الممالک ’مقالہ کا مواد جمع کرنے کے لئے مشرق وسطیٰ اور یورپ جانے کا موقع ملا اور جامعہ عثمانیہ کی اکیڈیمک کونسل کی اجازت سے یہ مقالہ بون یونیورسٹی جرمنی میں داخل کیا۔ جہاں 1932 میں ڈی فل کی ڈگری ملی۔ پیرس یونیورسٹی سے بعد ازاں 1935 میں ڈی لٹ کی سند حاصل کرنے کے بعد اسی سال حیدرآباد لوٹ آئے۔ ‘ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مطابق محمد حمید اللہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت قانون کے میدان میں ہوئی اور قانون ہی کے استاد و مصنف ٹھہرے۔ انہوں نے پانچ چھ عشرے سیرت پر کام کیا۔

شاہ بلیغ الدین آنجناب کی رحلت کے عنوان سے فلوریڈا میں مقیم اپنے بھائی کی پوتی محترمہ سدیدہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نیند کی حالت میں دادا کی روح بروز منگل 17 دسمبر 2002 کو خالق حقیقی سے جا ملی، ظہر کی نماز کے بعد آرلنگٹن کی مسجد کے پیش امام او ر معروف ترک خاتون سیاستدان ماروے صفا کواکچ کے والد اور استنبول میں ڈاکٹر صاحب کے شاگرد پروفیسر ڈاکٹر یوسف ضیا کواکچ نے جیکسن ول کی اسلامی مرکزی مسجد میں اگلے دن بروز بدھ نماز جنازہ پڑھائی۔

خورشید احمد صاحب رقم طراز ہیں، مجھے بتایا ’کہ دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر پیرس آیا تھا پھر میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں۔ ساری عمر فرانسیسی شہریت حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے پناہ گزینی کی حیثیت پر ساری عمر قانع رہنے والے ڈاکٹر صاحب پیرس کے مشہور تحقیقی مرکز سے وابستہ رہے اور سلطنت آصفیہ کے سقوط 1948 کے بعد پیرس ہی میں مقیم رہے۔

ان کی شہرہ آفاق کتاب الوثائق السیاسہ فی العہد النبوی و الخلافۃ الراشدہ 1941 کا ’سیاسی وثیقہ جات عہد نبوی تا بہ خلافت راشدہ‘ 1980 کے نام سے مولانا ابو یحیی امام خان نوشہروی، سید مصطفیٰ محقق داماد اور محمود مھدوی دامغانی نے بالترتیب اردو اور فارسی ترجمے کیے ہیں۔ عربی میں دارا لنفائس بیروت 1985 کی پانچ اشاعتوں میں اس عاشق سیرۃ رسول اللہ کے الگ الگ علمی و فنی مقدمے دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہاولپور اسلامی یونیورسٹی کی دعوت پر۔ ’خطبات بہاولپور‘ 1980 فی البدیہہ بارہ خطبات دینے تشریف لائے۔ ان میں آپ کے خاص من پسند موضوعات کی بازگشت اور علمی تکرار ہے۔ جن کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا ہے۔ کتاب ’رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی‘ کے پہلے دو ایڈیشن کے بعد تیسرا ایڈیشن 1961 میں شائع ہوا۔ صحیفہ ہمام بن منبہ، البلاذری کی انساب الاشراف، ابو حنیفہ الدینوری کی کتاب الطوال اور النبات، واقدی کی کتاب الردہ، ابن قتیبہ الدینوری کی کتاب الانواء فی مواسم العرب، ابوالحسین بصری کی کتاب المعتمد فی اصول الفقہ، غسانی احمد بن اسماعیل قزوینی کی کتاب السرد و الفرد کتب کی تصحیح، تدوین اور تسوید کی۔

فیصل ایوارڈ کے لئے نام منتخب ہوا، معذرت کر لی۔ پاکستان نے ہجرہ ایوارڈ دیا پھر معذرت کر لی۔ اصرار پر قبول کیا۔ رقم ادارہ تحقیقات اسلامی کو عطا کرنے کا کہا۔

تاریخ قرآن مجید، حدیث، قانون بین الممالک اور فقہ پر تفصیل سے لکھنے والے یہ درویش خدا مست بین الاقوامی قانون کے حوالے سے پہلی مختصر کتاب زید بن علی کی کتاب المجموع اور بعد میں امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام شیبانی کی دو کتابوں کتاب السیر الصغیر اور السیر الکبیر کا ذکر کرتے ہیں۔ تمام جدید استنباطات کے لئے سنت اور سیرت نبوی کی طرف کلی میلان رکھنے والے یہ مرد دانا نظام ہائے ریاست سے متعلق مدلل بحثیں کرتے نظر آتے ہیں۔

سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہمام بن منبہ ( 40 ہ۔ 132 / 131 ہ) کا صحیفہ جو صاحب کشف الظنون کے مطابق الصحیفۃ الصحیحہ کے نام سے موسوم ہے، کے مقدمہ میں ڈاکٹر صاحب ایک بحر ذخار کی طرح چن چن کے صحیفہ یا اس کے مصنف سے متعلق علم کے نایاب موتی پھرولتے نظر آتے ہیں۔ اس کو مطبوعات المجمع العلمی العربی دمشق نے 1953 میں شائع کیا ہے۔ ان کا انداز و اسلوب جامع و مانع، تشریحی و توضیحی، موجز و مدلل، عالمانہ اور عربیت حیران کن ہے۔

ریختہ پر آپ کی کتابوں کی فہرست میں۔ ’عہد نبوی کا نظام ِ تعلیم ( 1976 ) ، عہد نبوی میں نظام حکمرانی ( 1944 ) ، عہد نبوی کے میدان جنگ ( 1945 ) ، عربی حبشی تعلقات اور نو دستیاب شدہ مکتوب نبوی بنام نجاشی ( 1942 ) ، عیدین اور ان کے منانے کے اسلامی اور جاہلی طریقے، امام ابو حنیفہ کی تدوین قانون اسلامی ( 1957 ) ، عہد نبوی کی سیاست کاری کے اصول ( 1943 ) ، خطبات بہاولپور ( 1988 ) ، جاہلیت عرب کے معاشی نظام کا اثر پہلی مملکت اسلامیہ کے قیام پر ( 1943 ) ، سیرۃ ابن اسحاق، اخبار الطوال، قانون بین الممالک کے اصول اور نظیریں ( 1937 ) ، رسول اکرم کی سیاسی زندگی ( 1961 ) ، شامل ہیں۔ آپ کی کتاب تعارف اسلام کا بائیس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ شنید ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر محمد اقبال کے خطبات اور جاوید نامہ کے بعض حصوں کا بھی فرانسیسی میں ترجمہ کیا ہوا تھا۔

آپ کا قرآن پاک کا پہلی دفعہ فرانسیسی زبان میں کیا گیا ترجمہ و تفسیر لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئی جو یورپ کی سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں میں سے ہے آپ کی تحقیق کی بدولت ہزاروں یورپی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ معہد الدراسات و الابحاث للتعریب کی طرف محمد ابن اسحاق بن یاسر کی شہرہ آفاق سیرۃ ابن اسحاق کی تحقیق و تعلیق کی اور اس پر آپ کی علمی تقدیم موضوع پر علم کا احاطہ کرتا ہے۔

آپ کی گیارہ سے زیادہ انگریزی، پندرہ سے زیادہ عربی، ایک درجن سے زیادہ اردو، فارسی، ترکی، فرانسیسی اور دیگر یورپی زبانوں میں کتابیں، ان کے تراجم او ر سینکڑوں علمی مقالوں میں زیادہ تر اسلام اور جدید موضوعات پر ہیں اور آپ استشراق کی ایک نئی تعبیر کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

ایک بصری دستاویز الالوان السبعہ میں پروفیسر ڈاکٹر احسان ثریا صرما استنبول، انقرہ اور ازمیر میں تحقیق، تدریس اور تحصیل کے ضمن میں آپ کی اقامت کا ذکر کرتے ہوئے انقرہ میں ان سے اپنی ملاقات اور امام سرخسی کی کتاب مبسوط پر ان کی جاری تحقیقات کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں، میں نے آج تک تعریف و توصیف اور اجر سے آپ جیسا بے نیاز آدمی نہیں دیکھا۔

ان کی حیات و افکار پر ہندوستان او ر پاکستان میں تحقیقات کی گئیں اور کتابیں شائع ہوئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments