عوامی حمایت سے محروم حکومت
وزیر اعظم شہباز شریف نے 26 نومبر کو ڈی گراؤنڈ کے ذمہ داروں کی نشاندہی و موثر کارروائی کرنے کے لیے وزیر داخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیر اعظم نے پرتشدد مظاہروں پر قابو پانے کے لیے خصوصی فورس بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ فورس جدید ہتھیاروں و آلات سے مسلح ہوگی اور اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کیا جائے گا۔
آج اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس میں خاص طور سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔ وزیر اعظم نے تحریک انصاف کو ملک میں انتشار کا سبب قرار دیتے ہوئے سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ تین روز پہلے ڈی گراؤنڈ میں حاصل ہونے والی کامیابی کے بعد حکومت نے نرم رویہ اختیار کرنے اور مصلحت سے کام لینے کی بجائے، سختی کرنے اور مستقبل میں اسلام آباد کی طرف کوئی احتجاجی جلوس لانے کا راستہ بند کرنے کے لیے اقدامات کا تہیہ کیا ہے۔ شہباز شریف نے اس دوران متعدد مواقع پر تحریک انصاف کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے اور وفاقی کابینہ نے خیبر پختون خوا میں گورنر راج لگانے کے معاملہ پر بھی غور کیا ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور خیبر پختون خوا میں گورنر راج لگانے کی قرار داد منظور کی گئی۔
اس دوران وزیراعظم کے مشیر برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ گورنر راج لگانا مناسب اقدام ہو گا۔ ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف خیبر پختونخوا میں گورنر راج پر کلیئر ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اراکین کی اکثریت گورنر راج کی حامی ہے۔ کچھ عرصے کے لیے گورنر راج لگانے پر غور کر رہے ہیں۔ پہلی کوشش ہے کہ صوبائی اسمبلی میں قرارداد لائی جائے۔ اسمبلی میں قرارداد نہیں آتی تو دوسرا راستہ بھی ہے۔ وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر گورنر راج لگا سکتے ہیں اور یہ معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لایا جاسکتا ہے۔
کسی صوبائی حکومت سے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر عوام کی منتخب حکومت ختم کرنے کا اقدام ملک میں سیاسی تصادم کو گہرا کرے گا اور عوام کی بے چینی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ البتہ حکومت کی طرف سے موصول ہونے والے اشاروں میں کسی نرمی، معاملہ کے سیاسی حل اور مواصلت کے ذریعے افہام و تفہیم تک پہنچنے کا کوئی اشارہ موجود نہیں۔ یہ رویہ ملک میں موجود سراسیمگی کے ماحول کو سنگین بنانے کا باعث بن رہا ہے۔ وزیر اعظم نے آج منعقد ہونے والے اجلاس میں تحریک انصاف کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ ’تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں، یہ ایک فتنہ اور تخریب کار جتھا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ تحریک انصاف نہیں، تخریب انصاف ہے۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، ایف آئی آر کاٹی جائیں، کیفر کردار تک پہنچایا جائے، یقینی بنائیں آئندہ کبھی بھی ایسا نہ ہو‘ ۔ اس سے پہلے شہباز شریف اپنے بیانات میں تحریک انصاف کے حالیہ احتجاج کو اسلام آباد پر لشکر کشی قرار دے چکے ہیں۔
اسلام آباد میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہونے والے اجلاس میں وزیر داخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں جو ٹاسک فورس بنائی گئی ہے اس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، معاشی امور کے وزیر احد چیمہ، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ اور سکیورٹی فورسز کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ ٹاسک فورس 26 نومبر کو ہونے والے تصادم میں ملوث اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی نشاندہی کر کے، ان کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کرے گی۔ اس حوالے سے شواہد کی تصدیق کی صلاحیت بہتر بنانے، نئی فورنزک لیب کے قیام اور وفاقی حکومت کے استغاثہ کی استعداد بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کو بھی اب جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔
ایک سیاسی پارٹی کے احتجاج کے بعد تواتر سے ہونے والے کابینہ و اعلیٰ حکام کے اجلاس، سخت لب و لہجہ اور سب قصور واروں کو سزائیں دینے کے اعلانات درحقیقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے حامیوں کے حوصلے پست کرنے کی حکمت عملی بھی ہوسکتے ہیں۔ حکومت 26 نومبر کو تمام تر پابندیوں کے باوجود ڈی گراؤنڈ تک پہنچ جانے والے مظاہرین کو بھگانے اور قیادت کے غائب ہو جانے کے وقوعہ کے بعد اب یہ امید لگائے ہوئے ہے کہ اس نے تحریک انصاف کی کمر توڑ دی ہے اور اب وہ ایک طویل عرصہ تک نیا احتجاج کرنے کے قابل نہیں ہو سکے گی۔ وزیر اعظم نے ٹاسک فورس بنانے کے علاوہ مظاہروں کے خلاف خصوصی و جدید فورس بنانے کا جو حکم صادر کیا ہے، اس کا ایک مقصد درحقیقت ملک میں سیاسی مخالفین کو خوفزدہ و ہراساں کرنا ہے۔ حالانکہ حکومت کو مخالف فریق سے متوازن رویے کی امید کرتے ہوئے خود بھی متوازن اور معتدل رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس وقت دفعہ 144 کے باوجود ڈی گراؤنڈ کی طرف مارچ کرنے اور کارکنوں کو سکیورٹی فورسز سے بھڑ جانے پر آمادہ کرنے کے فیصلے اور پھر حکومت کی طرف سے رات کی تاریکی میں اس ہجوم کے خلاف پرتشدد ایکشن کے بارے میں ملک بھر میں مباحث ہو رہے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کے طریقے کو مسترد کیا جا رہا ہے تو حکومتی رد عمل کو بھی بلا جواز اور غیرمعمولی طور سے سخت سمجھا جا رہا ہے۔ اس ماحول میں اگر تحریک انصاف کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تو حکومت کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسا سیاسی ماحول پیدا کرنا چاہیے جس میں پی ٹی آئی کی قیادت اپنی سیاسی شکایات سامنے لا سکے اور ایک جمہوری عمل کا آغاز ہو سکے۔
وزیر اعظم کی شدت بیانی کے تناظر میں یہ کہنا بھی بے حد اہم ہے کہ کوئی بھی حکومت جب کسی ہجوم کے خلاف آپریشن کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے عواقب پر بھی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ ایسی کارروائی کے دوران یہ ذمہ داری قبول کی جاتی ہے کہ طاقت کا غیر ضروری استعمال نہ ہو اور مظاہرین کے بنیادی انسانی و قانونی حقوق کا احترام کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایسا آپریشن کرنے والی کوئی بھی مسلح فورس ایکشن مکمل ہونے کے بعد پریس کانفرنس یا پریس ریلیز میں اہم نکات پر سرکاری پوزیشن واضح کرتی ہے۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ یہ دعوے تو کر رہے ہیں کہ اس ایکشن میں کتنے لوگ پکڑے گئے اور کتنا اسلحہ برآمد ہوا یا ان لوگوں میں افغان باشندوں کی تعداد کیا تھی لیکن وہ اس ایکشن میں ہونے والے نقصانات کی تفصیل بتانے سے مسلسل گریز کر رہے ہیں۔ ان نقصانات میں سب سے پہلے جانی نقصان شامل ہوتا ہے۔ پولیس یا جو اتھارٹی بھی ایک ہجوم کے خلاف طاقت کے زور پر کارروائی کی ذمہ دار ہوتی ہے، اسے سب سے پہلے یہ بتانا چاہیے کہ اس ایکشن میں کتنے لوگ جان بحق یا زخمی ہوئے۔
وزیروں کے ایسے بیانات تواتر سے میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں کہ پولیس غیر مسلح تھی اور اور کسی فورس کی طرف سے فائرنگ نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود ہسپتالوں میں گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے افراد پہنچے اور میڈیا نے ان کا سراغ بھی لگایا۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس کارروائی میں متعدد شہری جاں بحق ہوئے لیکن ان کی اصل تعداد کے بارے میں میڈیا قیاس آرائیاں یا تحریک انصاف کے الزامات ہی سامنے آئے ہیں۔ حکومت یا اسلام آباد میں مظاہرین کو منتشر کرنے والی پولیس فورس نے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس کی بجائے یہ میڈیا رپورٹس مشاہدہ کی جا سکتی ہیں کہ پولیس نے ہسپتالوں کے عملے کو پوسٹ مارٹم سے روکنے یا ہلاک و زخمیوں کی تعداد بتانے سے منع کیا۔ اسی رویہ کی وجہ سے افواہیں عام ہوئیں اور یہ شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ 26 نومبر کے آپریشن میں خوں ریزی ہوئی ہے۔
کسی سیاسی احتجاج کے خلاف کارروائی میں اگر ایک کارکن بھی ہلاک ہوا ہے تو وہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ لیکن اگر یہ تعداد مبہم رکھی جائے اور حکام اصل اعداد و شمار بتانے کی بجائے، انہیں چھپانے کی کوشش کرنے لگیں تو اس سے خود حکومت کا موقف کمزور ہوتا ہے۔ یہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ جب چند ہزار کا مجمع بدحواسی کے عالم میں بھگدڑ میں تبدیل ہو اور ہر طرف سے آنسو گیس یا پتھراؤ کیا جا رہا ہوتو کچھ نہ کچھ لوگ تو ضرور اس تشدد کا نشانہ بنیں گے۔ لیکن بھگدڑ میں کچلے جانے، کسی جگہ سے گرنے یا پتھر وغیرہ لگنے سے زخمی ہونے اور نتیجتاً ہلاک ہونے اور فائرنگ سے مظاہرین کو مارنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حکومت کو تحریک انصاف کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے پہلے اپنے طریقہ کار کے بارے میں درست اور مصدقہ معلومات مناسب طریقے سے سامنے لانی چاہئیں تھیں۔
حکومت کی پراسرار خاموشی اور حقائق چھپانے کی مجرمانہ کوششوں ہی کا نتیجہ ہے کہ تحریک انصاف کے مختلف حلقوں کو مبالغہ آمیز دعوے کرنے کا موقع ملا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے علاوہ صحافی بھی شہریوں کی ہلاکتوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ اب تک کی نیم مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومتی کارروائی میں کم از کم 8 افراد جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات وقاص اکرم نے آج پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک 12 پارٹی کارکنوں کے جاں بحق ہونے کی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دیگر ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات کی روشنی میں یہ دعویٰ قرین قیاس ہو سکتا ہے۔ البتہ درجن بھر انسانی جانوں کی ہلاکت پر، اس کا سبب بننے والی حکومت کی پراسرار خاموشی تشویش و پریشانی میں اضافہ کرتی ہے۔ جب حکومت اصل حقائق بتانے کی بجائے چھپائے گی تو یہ تاثر قوی ہو گا کہ حکومت نے ضرور کوئی غیر قانونی اور ناجائز کارروائی کی تھی۔ اس شبہ کی موجودگی میں وزیر اعظم کی طرف سے تحریک انصاف پر شدید زبانی حملے بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ یہ احساس دوچند ہوتا ہے کہ حکومت سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ظلم و استبداد کا کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کر سکتی ہے۔ کوئی بھی حکومت اگر سخت انتظامی اقدامات کرنا چاہتی ہے یا قانون شکن عناصر کو سزا دلوانا چاہتی ہے تو اس کے پاس مناسب شواہد کے علاوہ اپنی نیک نیتی کا کوئی واضح ثبوت بھی موجود ہونا چاہیے۔ 26 نومبر کے ایکشن کے تناظر میں یہ صورت حال موجود نہیں ہے۔ اس پر اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں سخت اقدامات کی دھمکیاں حکومت کی رہی سہی ساکھ کو خاک میں ملا رہی ہیں۔
بہتر ہو گا کہ آرمی چیف کی انگلی پکڑ کر اپنے ہی لوگوں کو دشمن سمجھنے کی بجائے، وزیر اعظم سیاسی ہوشمندی کا ثبوت دیں اور عوام کے ساتھ رابطہ اور تعلق بحال کرنے کی کوشش کریں۔ حکومت اگر فروری میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوئی بھی تھی، تو موجودہ حالات میں یقیناً وہ پاکستان کی واضح اکثریت کی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔ ایک پارٹی کے خلاف کارروائی کرنے یا ایک صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے سے ملک کی ہی نہیں موجودہ حکومت کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے گی۔
- للکارنے کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے! - 04/12/2024
- تحریک انصاف کا مصالحانہ رویہ: حکومت جارحیت سے باز رہے - 03/12/2024
- تشدد سے سیاسی استحکام نہیں آ سکتا! - 01/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).