آنا گھر میں (مزید) کتب کا


سی۔ ایس۔ لوئیس نے کہا تھا کہ دوستی کی پیدائش کا لمحہ وہ ہے جب ایک انسان دوسرے سے کہے: کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے؟ میں سمجھا کہ میں اکیلا ہی ایسا سوچتا ہوں، تو پھر ہاتھ ملاﺅ دوست!

جب ہم اپنی کسی منفرد رائے یا عجیب عادت کے بارے میں یہ جانیں کہ ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب، تو ڈھارس بندھتی ہے۔ کچھ سکون ملتا ہے کہ اس سنک میں ہم تنہا مبتلا نہیں۔ کچھ ایسی ہی راحت ہمیں گُوگل گردی (اسے آوارہ گردی کی قسم سمجھ لیں، جو ہم سے تن آسان کمپیوٹر کرسی پربیٹھے ہوئے Google کی مدد سے کر لیں) کے دوران ایک جاپانی زبان کی اصطلاح جان کر ملی : Tsundoku ۔ اس مسیحا صفت لفظ کے معنی ہیں، کتب کی مسلسل خریداری، جب کہ آپ کے پاس ان سب کو پڑھنے کے لیے وقت نہ ہو۔ حسابی زبان میں، جب کتب خریداری کا حجم، پڑھنے کی رفتار سے بڑھ جائے۔ سنا ہے گوگل کے دفتر میں عملہ کی تواضع کے لیے ہر مخصوص قدم پہ کچھ اشیائے خور و نوش رکھی ہوتی ہیں۔ اس جاپانی اصطلاح کے مطابق آپ کو گھر جا بجا یہ آلاتِ آگاہی و خود فراموشی ملتے ہیں۔ ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے۔ تکیہ کے نیچے رکھے بے خوابی کے معالج اشفاق احمد کے افسانے، نشریات کے کسی بھی پروگرام سے زیادہ دلچسپ ووڈ ہاﺅس یا شفیق الرحمن کے ٹی۔ وی پر دھرے مضامین، صوفہ کی گّدیوں کے درمیان انتظار کرتا اگاتھا کرسٹی کا ناول (ہمارا ماننا ہے کہ صوفہ ایجاد ہی ناول پڑھنے کے لیے ہوا)۔ ایسا نہیں کہ ان کے لیے الماری موجود نہیں۔ ایک مکمل کمرہ ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ ایک تکنیک ہے۔ جیسے ابھی گُوگل کی مثال تھی، کہ خوراک آسان دسترس میں رہے۔ جناب نعیم بخاری نے ایک انٹرویو کے دوران بیوقوفی کی تعریف بتائی تھی کہ اگر آپ کو نیند نہیں آرہی اور آپ کچھ پڑھ نہیں رہے یا آپ دورانِ سفر فارغ بیٹھے ہیں اور کچھ پڑھ نہیں رہے تومبارک ہو، آپ۔ سو ایک تہمت سے فرار بھی سمجھ لیں، گو مفر نہیں۔

ہم شاید موضوع سے انحراف کر گئے۔ بات ہو رہی تھی ان کتابوں کی جو جمع ہوتی جا ر ہی ہیں، باوجود اس احساس کے کہ فرصت کے رات دن ڈھونڈے نہیں ملتے۔ ایک جاپانی اصطلاح نے عنوان تو بخشا ہے، لیکن نہ محرکات بتائے نہ ہی اصلاح کا رستہ سجھایا۔ اساتذہ نے اس مشکل کا اعتراف کسی اور پیرائے میں کیا ہے۔ پطرس بخاری کی میبل احساسِ برتری کو چڑاتی ہے۔ فرانک زیپا کتب کے انبار سے پکارتا ہے کہ زیست ناکافی ہے۔ سام جارڈیسن تسّلی دیتا ہے کہ یہ اٹھتا ہوا مینار محض ان نیک ارادوں کا ہے جو مکمل نہ ہو سکے۔ افتخار عارف زیست کے سفر میں کتاب کو ایک لازمی جزو مانتے ہیں۔ گراﺅچو مارکس قاری کو گدگداتے ہوئے ٹی۔ وی کے تعلیمی فوائد کا اعتراف ہے کہ نشریات اس بات پر مجبور کرتی ہیں کہ کسی اور کمرے میں جا کر کوئی کتاب کھول لے۔ ایک بار پھر، وہ خیال جو ہم سا گونگا الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر تھا، ان کی مسیحائی چاچا سمپورن سنگھ گلزار نے کی اور الماریوں میں قید، فراموش کتابوں کا نوحہ لکھا۔ بھائی مبشر علی زیدی وقتاً فوقتاً ملنے والے تبرکات کا ذکر کرتے ہیں۔ یاسر پیر زادہ بھی ان آئیڈیل ٹائپ افراد کے معجزات کا اعتراف کرتے ہیں جو روزانہ یوگا کرنے، متوازن غذا کھانے اور دیگر محال کاموں کے ساتھ ساتھ روزانہ نصف درجن کے قریب کتب بھی پڑھ لیتے ہیں۔ سو ہم کس شمار میں ہیں کہ اس پٹاری میں ہاتھ ڈالیں۔

لیکن آپ ہی بتایئے، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ لاہور میں رہتے ہوں، کتب سے عشق ہو اور اتوار کی صبح انارکلی کے باہر لگنے والے کتب میلے میں حاضری نہ دیں۔ یہ کیونکر ہو گا کہ آپ کو کتاب کا عنوان اچھا لگے لیکن یہ سوچ کر چھوڑ دیں کہ پہلے خریدی گئی کتب بھی تو ابھی تک نہیں پڑھ سکے۔ یہاں تک کہ ایک ایسی کتاب جس کی ایک جلد بے شک آپ کے پاس موجود ہے لیکن یہاں پڑے ایڈیشن پر مصنف کے دستخط ہیں! ایک پرانی بچوں کی کتاب، جس سے اپنے بچپن کی مہک آتی ہو، اس سے کیسے نظر چرائی جائے۔ یوسفی گر نہیں ممکن تو زلیخائی کر۔ تو صاحب، یہ ہے گزارشِ احوال واقعی۔ ممکن ہے آپ اس عذر کو کافی نہ جانیں۔ ان حضرات سے ہمارے حق میں دعا کی اپیل ہے۔ ہماری اہلیہ بھی ایک دہائی سے اس کارِ خیر میں مصروف ہیں۔

لیکن اگر آپ جانتے، مسکراتے ہوے سر ہلا رہے ہیں تو۔۔۔ لاﺅ، ہاتھ ملاﺅ دوست!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).