مدارس کا خوراک مینیو اور ٹی بی و سنگرہنی


پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں اقامتی مدارس ہیں، ان مدارس میں طلبا کو مدارس زکوٰۃ و عشر کے مال سے کھانا فراہم کرتے ہیں۔ خوراک کی کمی، ناقص خوراک اور ایک ہی قسم کی غذا کے بکثرت استعمال سے مدارس کے طلبا عموماً معدہ، سنگرہنی اور تپ دق وغیرہ امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

پانچ دہائیاں قبل کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو مدارس کے پاس فنڈز کی کمی ہوتی تھی، تقسیم سے پہلے اکثر مدارس کے پاس خوراک کے وسائل کمیاب تھے، ایسے میں مدارس کے طلبا اپنے علاقہ سے روٹیاں اکٹھی کر کے بھوک مٹاتے تھے، اس دور کا بہترین پہلو یہ تھا کہ جو غذا طلبا کو دستیاب ہوتی وہی غذا مدرسہ کا مہتمم اور اساتذہ استعمال کرتے۔

لیکن اب مدارس کے وسائل بیش ہونے کے بعد بھی طلبا کو مناسب خوراک دستیاب نہیں، مہتممین مدارس نے اپنا طرز زندگی بدل لیا اور معیار زندگی بلند کر لیا ہے مگر طلبا ہنوز انہیں مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

1۔ خوراک کی کمی

مدارس میں طلبا کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے، چند مدارس میں الا ماشا اللہ تین وقت کا کھانا دیا جاتا ہے۔ جو طالب علم نماز فجر سے قبل اٹھ کر پڑھنا شروع کرے، تین چار وقفوں میں اسباق پڑھے جاتے ہوں، عشا کے بعد تک تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے سوچیے کیا اُس کے لیے دو وقت کا کھانا موزوں ہے؟ نوجوان جسموں کو پڑھائی کی مشقت کے بعد صرف دو وقت کا کھانا فراہم کرنا خوراک کی کمی سمجھا جائے گا۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے اکثر طلبا تپ دق اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عموماً دوسرا کھانا عصر کے بعد دیا جاتا ہے۔ اگر سردیوں میں چار بجے سہ پہر کھانا دیا جائے اور طلبا رات دس بجے تک تعلیم و تدریس میں جُتے رہیں تو رات دس بجے رات یعنی چھ گھنٹہ بعد نوجوان خون کو بھوک لگ چکی ہوتی ہے مگر اس وقت مدارس میں کوئی خوراک فراہم نہیں کی جاتی۔

2۔ ناقص خوراک، ایک ہی قسم کی خوراک

دو یا تین وقت جو خوراک دی جاتی ہے وہ ناکافی ہونے کے ساتھ ساتھ ناقص بھی ہوتی ہے، پنجاب بھر میں مدارس میں ناشتہ میں چنے یا دال کا ناشتہ دیا جاتا ہے۔ بعد از عصر جو کھانا دیا جاتا ہے اس میں ایک سے دو دن گوشت، ایک سے دو دن چاول، ایک سے دو دن سبزی اور ایک دن چنے یا دال وغیرہ دیے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ غذا ناقص تصور ہوتی ہے مثلاً اگر گوشت پکایا گیا ہے تو وہ تعداد کے پیشِ نظر پتلے شوربے والا پکایا جاتا ہے ہر طالب علم کی پلیٹ میں ایک بوٹی اور چند ٹکڑے آلو دیے جاتے ہیں۔

بعض مدارس میں صبح ناشتہ میں مستقل طور پر چاول دیے جاتے ہیں، ایک مدرسہ میں گرمیوں میں صبح چاول، دوپہر سے قبل روٹی کے ساتھ دال یا چنے کا سالن اور رات کے کھانے میں سبزی، گوشت، چاول وغیرہ دیے جاتے ہیں۔

مدارس کے مینیو پر غور کریں۔ دال، چنا اور چاول کا استعمال بہت زیادہ ہے، ان کے استعمال سے جسم میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بڑھ جاتی ہے، گردوں کو ضرورت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، زود ہضم نہ ہونے کی وجہ سے طلبا شروع میں قبض اور بعد ازیں سنگرہنی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سنگرہنی سے کمزوری جسمانی کمزوری بڑھتی جاتی ہے، اسی طرح معدہ و آنتوں کی فعالیت کم ہونے کی وجہ سے بواسیر، جریان اور کثرت احتلام وغیرہ کی شکایات عام ہوجاتی ہیں۔

دو یا تین وقت کے کھانے کے علاوہ عموماً مدارس میں کوئی اور غذا فراہم نہیں کی جاتی، دسمبر اور جنوری کی سردیوں میں طلبا کو ایک کپ چائے یا دودھ پتی نصیب نہیں ہوتا۔ طلبا گھر سے لائے ہوئے جیب خرچ سے بازار سے چائے کی استطاعت رکھتے ہیں تو پی لیتے ہیں لیکن مدارس میں اس سہولت کا فقدان ہے۔

پنجاب کے کچھ علاقوں میں شدید سردی میں درجہ حرارت منفی چھ تک چلا جاتا ہے مگر منتظمین اور مہتممین مدارس کو طلبا کے حوالہ سے خوف خدا نہیں ہوتا۔

سفارشات

مدارس کے طلبا کو تین وقت کا کھانا مہیا کیا جائے۔
دودھ پتی، چائے کا انتظام کیا جائے یا ان ضرورتوں کے لیے اعزازیہ (الاؤنس) دیا جائے۔
مینیو سے دال، چنے اور چاول کو کم سے کم کیا جائے۔
مینیو میں مختلف النوع کھانے رکھے جائیں جو طلبا کی تمام جسمانی ضروریات کو پورا کرتے ہوں۔
ماہرین غذا سے مدرسہ کے بجٹ کے حساب سے متوازن مینیو مرتب کروایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments