ہمارا مذہب خطرے میں کیوں رہتا ہے؟


ایک ویڈیو جو آصف منہاس نے اپنی فیس بک وال پر شیئر کی تھی نظروں سے گزری، جس میں ایک مذہبی شدت پسند جس کی عمر بمشکل 25 سال ہوگی ببانگ دہل یونیورسٹی کے اسٹیج پر اپنے پرتشدد خیالات کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

یہ کوئی ہماری یونیورسٹی نہیں تھی بلکہ لندن کی میٹرو پولیٹن یونیورسٹی ہے، جہاں یہ نوجوان ڈگری لینے کے بعد ”لبیک لبیک“ کی صدائیں بلند کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں پر موجود کوئی بھی اسے نوٹس نہیں کر رہا ہے، سب اپنے کام میں مصروف ہیں، بس وہ خود ہی اپنی دھن میں مگن مذہب کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اب اس قسم کے رویے کی کیا ضرورت تھی؟ نا تو وہاں کوئی مذہبی تقریب ہو رہی تھی اور نا ہی کوئی وعظ و تبلیغ، ادھر تو اسٹوڈنٹس اپنی ڈگریوں کے حصول کے لیے جمع ہوئے تھے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمیں ایسا کیوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہمارا مذہب ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے اور ہم اکیلے اس کے محافظ ہیں؟ ہم اس کے تحفظ کے لیے نا کوئی جگہ دیکھتے ہیں نا موقع و محل، چونکہ ہم ٹھہرے چوزن ون اور ہم صرف تبلیغ و تلقین کے لیے ہی تو دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ تخلیق کے لیے تو قدرت نے کفار کو چن رکھا ہے، وہی کائناتی پہلیوں میں الجھے رہتے ہیں اور ہم مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا کے باقی مذاہب کے لوگ بھی تو ہیں نا وہ مذہب کو لے کر اس قدر حساس کیوں نہیں ہوتے؟ ممکن ہے میٹرو پولیٹن یونیورسٹی کے اسٹیج کے ارد گرد بھی مختلف مکتب فکر کے لوگ موجود ہوں، کیا ہم یہ سمجھیں کہ ان کے اندر اس قدر مذہبی غیرت نہیں ہے یا وہ اپنے مذہب کا اتنا فہم نہیں رکھتے جتنا ہم رکھتے ہیں؟

اب یہ نکتہ بھی قابل بحث ہے کہ ہم مذہب کے حوالے سے حساسیت کا شکار ہیں یا زعم کا؟ غالب امکان تو یہی ہے کہ ہم زعم و وہم کا شکار ہو چکے ہیں اور عظمت رفتہ کے سہانے سپنے شب و روز ہمارے دماغوں میں کچوکے لگاتے رہتے ہیں، اسی لیے جہاں داؤ لگتا ہے نعرے وغیرہ لگا کر من کو بہلا لیتے ہیں، اس سے زیادہ اب ہمارے دامن میں کچھ نہیں رہا ہے۔ وقت کا پہیہ روند کر بہت آ گے جا چکا، لکیر پیٹنے سے کیا حاصل؟

تخلیق، تحقیق اور علم کے ذریعے سے ہی خود کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے، المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پاس مبلغ تو بہت زیادہ ہیں لیکن سائنسی مفکرین نا ہونے کے برابر ہیں۔ ہم مذہب کے چشمے سے انسانوں کو تولتے ہیں، علمیت و تجربیت کی ہمارے ہاں کوئی وقعت نہیں رہی، جب علم کی جگہ جذباتیت لینے لگے تو سمجھ لیجیے زوال شروع ہو چکا ہے۔ اب اس نوجوان کو ہی لے لیجیے، پتا نہیں بیٹھے بٹھائے اسے کیا سوجھی کہ اپنی ڈگری کے حصول کے ساتھ ہی مذہبی نعرے لگانے لگا، ایسا کر کے اس نے دنیا پر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟

یقین مانیں یہی بندہ ہمارے ملک کی کسی بھی یونیورسٹی کا وی سی لگ جائے تو یونیورسٹی کو مدرسہ بنانے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرے گا، بالکل اسی طرح سے جس طرح ہمارے ملک کے نامی گرامی علماء و مشائخ ہمیں وعظ و تلقین کرتے ہیں اور کفار سے دور رہنے کا درس دیتے ہیں جبکہ ان کے خود کے بچے یورپ کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہیں اپنا گھر بار بسا لیتے ہیں۔
پاکستان تو ان کے نظریات یا تبلیغ کا عملی اپلائنگ گراؤنڈ ہے جہاں وعظ کے ذریعے سے اپنی دنیا و آخرت کا اچھا خاصا بندوبست کرلیتے ہیں۔ دونوں طرف خوب دھندا چلتا ہے، یورپ میں تبلیغ کا کچھ اور انداز ہوتا ہے اور وطن عزیز میں کچھ اور، بہرحال ڈالرز کی ترسیل بھی رہتی ہے اور وطن عزیز کی کرنسی سے بھی مستفید ہوتے رہتے رہتے ہیں۔

منافقت کا لیول دیکھیں کہ یورپ کی یونیورسٹیاں ہم نے اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے منتخب کر رکھی ہیں جبکہ تبلیغ کے لیے وطن عزیز کا انتخاب، اور حوالے دیتے ہیں کہ ”جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے بھی کرو“ ۔ اپنے لاڈلوں کے لیے یورپ کی یونیورسٹیاں اور اپنے غریب مقتدیوں کے لیے مدارس کی تجویز، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments