بلوچستان کی بیٹی: عالمی ماحولیاتی فورم میں پاکستان کی نمائندگی
بلوچستان کے ضلع حب سے ایک 14 سالا بچی زنیرہ قیوم بلوچ نے اپنی قابلیت، جذبے اور انتھک محنت سے وہ مقام حاصل کیا جو ہر پاکستانی کے لیے باعثِ فخر ہے۔ یونیسف کی دعوت پر موسمیاتی تبدیلی پر منعقدہ عالمی کانفرنس کوپ 29 میں شرکت کے لیے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو پہنچنے والی اس بچی نے نہ صرف پاکستان بلکہ بلوچستان جیسے محروم خطے کی بھی نمائندگی کی۔
یہ کامیابی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اگر بچوں کو مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ عالمی سطح پر اپنے ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ باکو میں ہونے والی کانفرنس میں، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنا ہے، اس بچی کی موجودگی ترقی پذیر دنیا کی نوجوان نسل و بچوں کے خوابوں اور ان کی جدوجہد کی ترجمان ہے۔
میں اکثر اوقات سماجی موضوعات پر قلم کاری کر لیتا ہوں جس میں ایک اہم موضوع موسمیاتی تبدیلی کے درپیش چیلنجز کا ہے، بطور سماجی کارکن موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے مساّئل پر جہاں خشک سالی، سیلاب، جنگلات کی کٹاؤ، پانی کی کمی، اور ماحولیاتی عدم استحکام نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کیا ہے ان مسائل پر آواز بلند کی اور لکھا بھی، ادارہ وانگ کے پلیٹ فارم سے کلائمیٹ ایکشن پروجیکٹ بھی کیے اور ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ایسی کہانیوں کو روشنی میں لانا ضروری ہے، جہاں لوگ اپنے طور پر ماحولیاتی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ کسان جو روایتی طریقے چھوڑ کر پائیدار زراعت کی طرف جا رہے ہیں، وہ نوجوان جو درخت لگا رہے ہیں، یا وہ خواتین جو اپنے گاؤں میں صفائی اور ماحولیات کی بہتری کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ اور وہ بچے و نوجوان جو ملکی و عالمی فورم پر ان مسائل پر ہمارے علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں
جب مجھے معلوم ہوا کہ بلوچستان سے ایک بچی کو یونیسف نے بطور کلائمیٹ چیمپئن کوپ کانفرنس میں شرکت کے لیے حب بلوچستان سے منتخب کیا پے جس سے میرے اندر ایک بے حد تجسس پیدا ہوا۔ اس نے میرے دل کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ بلوچستان جیسی جگہ، جو اکثر ترقیاتی منصوبوں اور وسائل کی تقسیم میں نظرانداز ہوتی ہے، وہاں سے ایک بچی کیسے عالمی سطح پر اپنی جگہ بنا رہی ہے۔
اس بچی سے بات چیت میرے لیے صرف بچی کی کہانی کو جاننے کا موقع نہیں بلکہ اس کے ذریعے ان تمام چیلنجز اور کامیابیوں کو اجاگر کرنے کا ایک موقع ہے جو ہمارے خطے کے لوگ ماحولیات کے میدان میں سامنا کر رہے ہیں۔
زنیرہ قیوم بلوچ سے بات چیت کے دوران انہوں نے بارہ روزہ کوپ کانفرنس میں اپنی شرکت، تجربات، اور آئندہ کے منصوبوں کے بارے میں کھل کر بات کی۔
زنیرہ بلوچ نے اپنی بات چیت کا آغاز اپنے تعلیمی اور ذاتی پس منظر سے کیا۔ زنیرہ قیوم بلوچ گلوبل اسلامک پبلک اسکول میں آٹھویں کلاس کی طالبہ ہے جو کہ شام کے وقت حب کے معروف تعلیمی ادارے ایس ای ٹی سینٹر میں انگلش لینگویج کلاس کی لرنر بھی ہے۔
حب کے صنعتی علاقے میں پروان چڑھنے والی زنیرہ بلوچ کہنا تھا کہ ان کے بچپن کا زیادہ تر وقت قدرت کے قریب گزرا، لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہوئیں، صنعتی آلودگی اور ماحولیاتی مسائل نے ان کی توجہ کھینچنا شروع کر دی۔ ”حب میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور پانی کی کمی نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ ان مسائل پر کام کرنا میری ذمہ داری ہے۔“
ان کے اساتذہ اور اہلِ خانہ نے ان کے جذبے کو پہچانا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ زنیرہ بلوچ کے بقول، ”میرے والدین اور اساتذہ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور مجھے سکھایا کہ تبدیلی لانے کے لیے پہلے خود آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
زنیرہ کو گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف اور یو این ڈی پی کے تعاون سے اسکول اف لیڈرشپ کے پروگرام پالیسی ریسرچ چیلنجز PRC میں شرکت کا موقع ملا جہاں انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر تحقیق کے لیے گرانٹ حاصل کی اور اس پر اپنی تحقیق مکمل کی اس پروگرام میں حب کے ساتھ لسبیلہ کی سماجی تنظیم وانگ کے بچے بھی شامل تھے
زنیرہ کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے عالمی فورم میں اپنے صوبے و ملک کی نمائندگی کے لیے یونیسف پاکستان کی دعوت پر COP 29 کے لیے جانا ایک خواب کی تعبیر تھی۔ ”یہ میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ میں نے حب اور بلوچستان کے مسائل عالمی رہنماؤں تک پہنچائے۔“ کانفرنس میں زنیرہ نے اپنے علاقے میں پانی کی قلت، صنعتی آلودگی، جنگلات کا کٹاؤ، سمندری حیات کو خطرات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر کے بچوں اور نوجوانوں سے ملاقات کرنا ان کے لیے ایک خاص تجربہ تھا۔ ”ہم نے اپنی کہانیاں شیئر کیں، اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دنیا کے مختلف حصوں کے بچے بھی وہی مسائل جھیل رہے ہیں جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔“ کانفرنس کے دوران زنیرہ بلوچ نے اپنی تقریر میں تعلیم اور ماحولیاتی آگاہی پر زور دیا۔ ان کے بقول، ”میں نے عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ جب تک ہم اپنی نسل کو ماحولیاتی تعلیم نہیں دیں گے، ہم اس بحران کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ زنیرہ کا کہنا ہے کہ جب تک امیر ملک موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ غریب ملکوں کو مالی مدد نہیں کریں کے تب تک موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کو کم نہیں کیا جاسکتا ہے میری تقریر کے بعد کئی رہنماؤں نے پاکستان کے مسائل پر توجہ دی، جو میرے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔
زنیرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ حب جیسے صنعتی شہر میں ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ”سب سے پہلے فیکٹریوں پر سخت قوانین نافذ کیے جائیں اور شجرکاری مہم شروع کی جائے“ وہ مزید کہتی ہیں، ”ماحولیاتی تبدیلی بچوں کی صحت اور تعلیم پر گہرے اثرات ڈالتی ہے، اس لیے ہمیں ان مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ہو گا۔“
کانفرنس کے بعد زنیرہ بلوچ کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے علاقے میں آگاہی مہم شروع کریں گی۔ ”میں اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم کے فروغ کے لیے تعلیم ماحولیاتی ورکشاپس منعقد کرنا چاہتی ہوں اور بچوں کو قدرت کی حفاظت کے طریقے سکھانا چاہتی ہوں۔ اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو ماحول دوستی ترغیب دینی ہوگی تاکہ وہ ماحول دوست رویوں کو اپنا سکے تب ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا مقابلہ جا سکتا ہے، اس کے علاوہ زنیرہ کا کہنا ہے کہ ہمارے نصابی کتابوں میں موسمیاتی تغیرات و چیلنجز پر زیادہ سے زیادہ مواد ہونا چاہیے کہ بچوں و سیکھنے و سکھانے میں مدد مل سکے وہ مزید کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں کوپ کی کانفرنس میں بچوں کو بھی موقع دینا چاہیے کیونکہ اتنے بڑے فورم پر بچوں کو سیکھنے کے لیے بہترین عمل ہو گا اور بچے اپنے سوشل ایکشن پروجیکٹ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو بہتر کرسکیں گے“
زنیرہ کے خیال میں نوجوان ہی وہ طاقت ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں۔ ”اگر ہم سب مل کر چھوٹے اقدامات کریں، جیسے پانی بچانا اور درخت لگانا، پلاسٹک کا کم استعمال کر لے تو ہم زمین کو محفوظ بنا سکتے ہیں، نوجوان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے چھوٹے چھوٹے سوشل ایکشن پروجیکٹ بنائیں اور اپنی عملی کام سے ثابت کہ وہ حقیقی معنوں میں ماحول دوست ہیں
زنیرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر بہت سارے مواقع ہیں جہاں پر نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں دنیا بھر میں ایسے بہت سارے ادارے ہیں جو بچوں و نوجوانوں کی صلاحیتوں کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں آج کل سوشل میڈیا و انٹرنیٹ پر بہت سارے ایسی مواقعوں کی معلومات مل جاتی ہیں جہاں پر نوجوان اور بچے ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ملکی و بین الاقومی فورم پر اپنے علاقے کی نمائندگی کر سکتے ہیں
زنیرہ کا سفر صرف ایک شروعات ہے۔ ان کا عزم اور ان کی کہانی ان سب کے لیے مشعلِ راہ ہے جو اپنے ماحول کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ صرف حب بلکہ پورے بلوچستان کی جھلک نظر آتی ہے۔
زنیرہ بلوچ کی یہ کہانی امید، عزم، اور جدوجہد کی داستان ہے۔ وہ ایک ایسی آواز بن کر ابھری ہیں جو بلوچستان کے خاموش مسائل کو دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ COP 29 میں ان کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ نوجوان، چاہے کسی بھی خطے سے ہوں، اگر مواقع ملیں تو وہ دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
”موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں ہم سب کو زنیرہ بلوچ کی طرح اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر دنیا چھوڑی جا سکے
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).