برزخ کے داروغہ سے ایک مکالمہ


جب سے اُس کی آنکھ کھلی تھی، اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ عالمِ برزخ میں ہے اور اگر واقعی ایسا تھا تو پھر اِس بات کو کافی وقت ہو چکا تھا۔ لیکن یہ بے حد عجیب بات تھی، بھلا اُسے کیسے علم ہوا کہ وہ عالمِ برزخ میں ہے؟ برزخ میں تو وقت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں، اور پھر دو متضاد باتیں ایک ساتھ کیسے سوچی جا سکتی ہیں؟ وقت تو کائنات کی پیدائش کے ساتھ وجود میں آیا تھا، اگر یہ عالم برزخ ہے تو یقیناٴ کائنات ختم ہو چکی ہے اور اگر کائنات وجود نہیں رکھتی تو وقت کا تصور ہی لا یعنی ہے، لیکن پھر یہ لایعنی بات دماغ میں کیوں کر سمائی؟

اور کیا اُس کا دماغ کام کر رہا تھا، اصولاٴ تو دماغ بھی کام نہیں کرنا چاہیے، موت کا تو یہی مطلب ہوتا ہے، لیکن ممکن ہے اِس برزخ میں کچھ دنیاوی قوانین نافذ ہوں تاکہ انسانوں کو یہاں پہنچتے ہی یک دم دھچکا نہ لگے۔ یہ سوچ کر اُسے کچھ تسلّی ہوئی۔ اب اسے داروغہ جنت کا انتظار تھا، اُسے یقین تھا کہ دنیا میں اُس نے جو نیکیاں کی تھیں اُن کے بدلے میں اسے جنت میں ہی بھیجا جائے گا۔ ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے اُسے ایک ہیولا سا دکھائی دیا، وہ سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اور پھر ایک آواز آئی۔

”برزخ میں خوش آمدید۔ یہاں پہنچنے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟“

”شش شکریہ۔“ اُس کے منہ سے بمشکل نکلا۔ ”تکلیف کا تو مجھے علم نہیں کیونکہ مجھے یاد نہیں کہ میں یہاں کیسے پہنچا۔ مم۔ مگر آپ کون ہیں؟“

”میں برزخ کے اِس سیکشن کا انچارج ہوں، داروغہ سمجھ لو۔“
”اوہ۔ تو میں ٹھیک سمجھا تھا!“
”ہاں، تم ٹھیک سوچ رہے تھے۔“

”لیکن آپ کو کیسے پتا کہ میں کیا سوچ رہا تھا؟“ اُس نے حیرت سے داروغہ کو سوال کیا۔ جواب میں اسے ہلکا سا قہقہہ سنائی دیا۔ ”یہ تمہاری مادی دنیا نہیں ہے، ویسے ہم تو وہاں بھی تمہارا دماغ پڑھ لیتے تھے، یہ تو پھر عالمِ برزخ ہے۔“

”شکر ہے، اِس کا مطلب ہے کہ میں یہاں سے سیدھا جنت میں جاؤں گا۔“
”اتنی خوش فہمی اچھی نہیں ہے، ابھی تم سے کچھ سوال جواب کیے جائیں گے، پھر فیصلہ ہو گا۔“

”لیکن یہ سوال جواب مجھ سے کیوں کیے جائیں گے؟“ اُس نے جی کڑا کر کے کہا۔ ”میں نے تو جو کرنا تھا دنیا میں کر آیا، اصولاٴ تو اب آپ کو میرے کچھ سوالوں کا جواب دینا چاہیے جن کا جواب مجھے دنیا میں نہیں مل سکا۔“ نہ جانے اُس میں یہ بات کرنے کی ہمت کہاں سے آ گئی تھی۔

داروغہ کی جانب سے پھر ہلکا سا قہقہہ سنائی دیا۔ ”اچھا، پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“

”شکریہ۔ سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ جس دنیا میں ہمیں بھیجا گیا تھا اُس میں اِس قدر مصیبتیں، پریشانیاں اور دکھ کیوں تھے؟ ایک سکھی دنیا تخلیق کرنا خدا کے لیے کیا مشکل کام تھا جہاں کوئی غم نہ ہوتا کوئی تکلیف نہ ہوتی؟“

”مجھے معلوم تھا کہ تم یہی سوال کرو گے، اکثر یہاں آنے والے سب سے پہلے یہی پوچھتے ہیں، ہم سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ تم انسانوں کے لیے ایک کتابچہ بنا لیں جس میں ایسے تمام سوالوں کے جوابات لکھے ہوں، وہ کیا کہتے تھے تم دنیا میں۔ Frequently Asked Questions۔ خیر، میں کوشش کرتا ہوں کہ تم کو سمجھا پاؤں۔ ایک چھوٹے سے جزیرے کا تصور کرو جہاں کوئی مصیبت نہ ہو، اُس جزیرے کے تمام باشندے ہر لحاظ سے برابر ہوں اور کوئی کسی کو نقصان نہ پہنچا سکتا ہو، وہاں وسائل کی فراوانی ہو اور کچھ کام کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

ایسے معاشرے میں کیا ہو گا؟“ داروغے نے توقف کیا اور پھر اُس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اپنی بات جاری رکھی۔ ”ایسے معاشرے میں کوئی جدوجہد نہیں ہو گی کیونکہ کسی کو دوسرے سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس معاشرے میں کوئی سائنسی دریافت نہیں ہوگی، کوئی ایجاد نہیں ہوگی اور خدا کی تخلیق کردہ کائنات کا راز پانے کی کوئی جستجو نہیں ہوگی۔“

”اُمم۔ ٹھیک ہے مگر یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔“

”میں اُسی طرف آ رہا ہوں۔ انسانوں کو اپنی زندگیوں میں جدوجہد کے لیے ابھارنے اور چاند ستاروں سے مزین اِس کائنات کا کھوج لگانے کے لیے ضروری تھا کہ ایک ایسی ’غیر منصفانہ‘ دنیا تخلیق کی جاتی جہاں انسان ’برابر‘ نہ ہوں۔ اسی لیے تمہاری دنیا میں حُسن بھی تھا بدصورتی بھی، انصاف بھی تھا نا انصافی بھی، نفرت بھی تھی اور محبت بھی۔“

”ٹھیک ہے، میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں، لیکن ہم انسانوں نے مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا جو خون بہایا اُس کا کیا مقصد تھا؟ وہ کیوں ضروری تھا؟“

”میرے پیارے انسان یہ قتل و غارت گری اور جنگیں تو انسانوں نے خود پر مسلط کیں، کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی قومیت کے نام پر۔ چلو اِس بات کو ایک اور زاویے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جو دنیا خدا نے تخلیق کی اُس میں وسائل کی فراوانی تھی، اگر تم انسان آپس میں اُن وسائل کی تقسیم کا منصفانہ نظام وضع کر لیتے تو نہ کوئی بچہ بھوکا سوتا اور نہ کسی کو شکایت ہوتی۔ یہ انصاف کرنے سے ہم نے تو تمہیں نہیں روکا تھا!“

”چلیے مان لیا یہ ہم انسانوں کا قصور تھا مگر زلزلے، سیلاب اور سونامی جیسی قدرتی آفات کے نتیجے میں معصوم انسانوں خاص طور پر بچوں کی اندوہناک موت کا کیا جواز ہے؟ کیا اِس کے بغیر آپ کا کام نہیں چل سکتا تھا؟“ اُس کا لہجہ کچھ تلخ ہو رہا تھا، شاید وہ بھول گیا تھا کہ وہ کہاں ہے اور کس سے مخاطب ہے۔

”سچ کہوں تو اِس سوال کا جواب میرے باس بہتر طریقے سے دے سکتے ہیں۔“ داروغہ نے کہا۔ ”میں صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ جنہیں تم ناگہانی اموات سمجھتے ہو وہ دراصل پہلے سے طے شدہ آفاقی نظام کا نتیجہ ہیں۔ کیا تم نے کبھی غور کیا تھا کہ روزانہ کتنی چیونٹیاں تمہارے پاؤں کے نیچے آ کر ماری جاتی تھیں؟ کیا اُن کی موت کا ذمہ دار تمہیں سمجھا جائے؟ اُن چیونٹیوں کے لیے تمہارا پاؤں ایک قدرتی آفت تھا جسے وہ کبھی سمجھ نہیں سکتی تھیں۔ ویسے تم مجھے کافی ذہین انسان لگتے ہو۔ ذرا میں تمہارا ڈی این اے تو دیکھوں، آہا، تمہارا باپ تو ایک پادری تھا، گویا تمہارے یہ خیالات دراصل مذہب سے بغاوت کا نتیجہ ہیں!“

”نہیں، نہیں، ایسی بات نہیں۔ میں تو صرف اس پراسرار نظام کے بارے میں وضاحت چاہتا تھا جسے میں دنیا میں سمجھ نہیں پایا۔ اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔“

”نہیں، جیسا میں نے کہا ہمارے لیے یہ معمول کی باتیں ہیں۔“

”شکریہ۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اب موضوع بدلنا چاہیے۔ یہ بتائیں کہ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ’“

”یہ ایک اچھا سوال ہے۔ چلو اِس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک عملی کام کرتے ہیں!“
”معاف کیجئے گا، میں سمجھا نہیں۔“

”سمجھاتا ہوں۔ ابھی تم برزخ میں ہو، دنیا کے لیے تمہاری موت ہو چکی ہے، لیکن تکنیکی اعتبار سے تم اُس وقت تک خود کو زندہ ہی محسوس کرتے رہو گے جب تک قیامت نہیں آ جاتی، اسی لیے ابھی تک تمہارا دماغ زمان و مکان کے اعتبار سے ہی سوچ رہا ہے اور تمہارے حواس بھی اُسی طرح کام کر رہے ہیں جیسے مادی دنیا میں کرتے تھے۔ لیکن اگر تم موت کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے ہو تو تمہیں خود اُس تجربے سے گزرنا ہو گا، کیونکہ یہ میں بھی نہیں بتا سکتا کہ اُس کے بعد کیا ہو گا۔ سو اگر تم چاہو تو تمہارے حصے کی قیامت ابھی برپا کی جا سکتی ہے، بولو کیا تم تیار ہو؟“ داروغہ برزخ نے پوچھا۔

”نہیں۔“ اُس نے پُر سکون لہجے میں کہا۔ ”میں وہ قیامت دنیا میں دیکھ چکا ہوں، قدرتی آفات، جنگ و جدل اور ظلم اور نا انصافی کے نتیجے میں مرنے والے بے گناہ انسانوں اور معصوم بچوں کو تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھنا ہی تو قیامت تھی، یہ میں جان چکا ہوں۔ اب مجھے اور کچھ نہیں جاننا۔“ یہ کہہ کر اُس نے آنکھیں موند لیں۔ پھر اسے کوئی آواز نہیں آئی۔ عالمِ برزخ کا داروغہ شاید وہاں سے جا چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 570 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments