خانگی زندگی کے بڑھتے مسائل


آج کل فیملی کیسز کی تعداد عدالتوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔ شادی کے چند دن بعد ہی طرح طرح کے مسائل لے کر میاں بیوی ہم وکیلوں کی جیبیں بھرنے آ جاتے ہیں۔ آج ایک مقدمہ میں گھنٹوں دونوں میاں بیوی کو یہ سمجھاتی رہی کہ شادی شدہ زندگی میں مسائل ہوتے ہیں۔ لیکن ہر مسئلہ ہمیشہ نہیں رہتا۔ شادی کو صرف چھ ماہ ہوئے ہیں۔ اتنے کم وقت میں ایک دوسرے کو حتمی طور پر چھوڑ دینے کا فیصلہ (طلاق) درست نہیں۔ مگر میرے دماغ کی ساری چولیں ہلنے کے باوجود دونوں نہیں سمجھے۔

میری ساری اخلاقی، سماجی، معاشی مثالیں ناکام ثابت ہوئیں۔ میری آپ سب سے گزارش ہے کہ شادی سے قبل شادی شدہ زندگی اور پیش آنے والے مسائل کے لئے خود کو تیار کریں۔ شادی ہر گز کوئی رام لیلا کی کہانی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بہت سی ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی کا نام ہے۔ مرد شادی سے قبل کام دھندا کرے نہ کرے، مگر شادی کے بعد اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تمام تر نان و نفقہ کا وہ واحد ذمہ دار ہے۔ چاہے خاتون کتنی بھی مالدار ہو یا ورکنگ ویمن ہو لیکن بیوی بچوں کا خرچہ شوہر کی ذمہ داری ہے۔ ایسی طرح خواتین گھریلو ذمہ داریاں بنیادی طور پر خاتون کی ذمہ داری ہے چاہے خاتون کتنے بڑے عہدے پر فائز ہو۔

اب ہوتا یہ ہے کہ مرد شوہر بنتے ہی نان و نفقہ سے لاپروا ہوجاتا ہے وہی مرد ماں، بہن۔ بیٹی کا جیب خرچ دیتا ہے مگر بیوی کے جیب خرچ کو قابل اعتنا ہی نہیں سمجھتا۔ دوسری طرف خاتون چاہتی ہے کہ اس کو صرف اپنا کام کرنا پڑے یا ذاتی کام کر کے وہ فارغ ہو جائے۔ جبکہ گھریلو زندگی میں ہزار کام ہوتے ہیں۔ جو ایک خاتون خانہ کے کرنے کے ہوتے ہیں یا کم از کم ان کاموں کی ذمہ دار بیوی بالفاظ دیگر گھر کی بہو ہوتی ہے۔ چاہے گھر میں ملازم ہوں یا نہ ہوں گھریلو کاموں کی بابت خاتون سے ہی پوچھا جاتا ہے، مگر آج ایک بیوی خاتون خانہ کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتی۔ وہ تو صرف صرف اپنی یا شوہر کی کچھ ذمہ داریوں کو ہی اپنا فرض قرار دیتی ہے۔

ایسی خواتین یہ تصور کرنے کو تیار نہیں ہوتی کہ کیا وہ اپنی بھابیوں کے لئے بھی ایسی ہی سوچتی ہیں یا وہ اپنے بیٹوں کو بھی بہو کے ساتھ الگ تھلگ کر کے خود اپنے بڑھاپے اور اس سے جڑے ہزار مسائل کو تنہا برداشت یا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ آج جو ساس یا سسر آج کی خاتون کو بوجھ لگتے ہیں یا جو سسرالی رشتہ دار زہر لگتے ہیں کل کو آپ کی بہو کو بھی لگ سکتے ہیں۔

اس وقت میاں بیوی کے رشتہ میں خرابیوں کا یہ حال ہے کہ شادیوں سے زیادہ طلاقوں اور خلع کے مقدمات دائر ہیں۔ آپسی برداشت کا یہ حال ہے کہ شادی کے اگلے دن ہی ان بن شروع ہو جاتی ہے۔ شادی شدہ زندگی کے ان مسائل نے سب سے کاری ضرب جوائنٹ فیملی سسٹم کو لگائی ہے اور لگتا ہے کچھ سال بعد ہر شخص رشتوں سے آزاد اور ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گا مگر وہ کتنا اکیلا اور تنہا ہو گا اس کا تصور ہم مغرب کی طرف دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments