طبقہ علم الکلام کے خوشہ چیں محمد دین جوہر کا علمی رجوع
محمد دین جوہر روایتی فکر کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں جو روایتی علم کے ساتھ ساتھ جدید فکر و فہم کا بھی خاصا گیان رکھتے ہیں، اسی لیے ان کی گفتگو خاصی ثقیل اور گول مول سی ہوتی ہے۔ جن کا ذہن قدیم و جدید فہم کے بیچ کہیں اٹک جاتا ہے تو وہ کوئی واضح راستے کا تعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا نتائج سے خائف رہتے ہیں۔ کبھی جدیدیت کی چھتر چھایا میں پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی روایتی پہیلیوں کی اوٹ میں دبکے رہنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ ایک طرح سے ”رولنگ اسٹون“ کی سی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں، جدید فکر کا دامن تھامتے ہیں تو عقیدہ ہاتھ سے نکل جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور اگر پورے کے پورے قدیم فکر میں داخل ہوتے ہیں تو جدید سوالات، تیزی سے بدلتے منظر نامے اور تقاضے بے چین کیے رکھتے ہیں اور ساتھ میں روایتی فکر کی تنگ دامنی بھی بے بس کیے رکھتی ہے۔
محمد دین جوہر ہوں یا احمد جاوید کچھ اسی قسم کے مخمصے کا شکار ہیں اور سامنے بیٹھے حاضرین و ناظرین کو اپنی علمی جلیبیوں میں الجھائے رکھتے ہیں، برگر کلاس کو ایسی ہستیاں بہت بھلی لگتی ہیں جو اپنی گفتگو میں انگریزی شبدوں اور فلسفیانہ اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں محمد دین جوہر کی ایک وڈیو نظروں سے گزری جس میں بڑے مزے کی گفتگو فرما رہے تھے، ایک کمنٹ پڑھ رہے تھے، جس میں پوچھنے والے نے مولانا وحید الدین خان کی کسی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے چند لائنیں لکھی تھیں، خلاصہ پیش خدمت ہے۔
سائنس اسلام کا علم کلام ہے۔
سائنس کی ترقی نے اسلام کی عظمت کو از سر نو واضح کر دیا۔
سائنس مذہب کی حریف نہیں بلکہ دوست ہے۔
سائنس مذہب کی براہ راست تصدیق کرتی ہے۔
اسلام کی آئیڈیا لوجی کے بغیر دور جدید کا ظہور میں آ نا اتنا ہی ناممکن تھا جتنا کہ سائنس کے بغیر انجینئرنگ اور مشینوں کا۔
بلاشبہ اسلام دین حق ہے اور دور جدید کا خالق بھی۔
یہ باتیں غالباً مولانا وحید الدین خان کی کسی کتاب میں سے لی گئی ہیں جس کا حوالہ کمنٹ کرنے والے نے دیا تھا، غالب امکان تو یہی تھا کہ جوہر جی اس کمنٹ کو پڑھنے کے بعد خوب سراہیں گے اور ساتھ ساتھ مولانا وحید الدین خان کی کتابوں کی بھی خوب مارکیٹنگ کریں گے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا، جوہر جی نے صاحب کمنٹ اور مولانا وحید خان کے خوب لتے لیے، انجینئر محمد علی مرزا بھی اسی میں بریکٹ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب کا تعلق عقیدے سے ہوتا ہے جس کا ڈائریکٹ واسطہ وحی سے ہے، جبکہ سائنس کا مشاہدے اور تجربے سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور اس کی بنیادیں عقلی اصولوں پر قائم ہیں نا کہ عقیدے پر۔ اب ان بعد المشرقین بندوبست کا زبردستی ایک دوسرے سے نکاح کروا کر مرضی کے نتائج اخذ کرنا ہماری خواہش تو ضرور ہو سکتی ہے لیکن حقیقت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔
محمد دین جوہر کی گفتگو تو خاصی طویل تھی لب لباب عرض کر دیا ہے، خاصے عرصے بعد ان کے منہ سے اس قدر بے باک سی گفتگو سنی ہے، اگرچہ عقلی باتوں کے بعد عقل کو رد کرنا بھی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں لیکن اس بار تو انہوں نے خاصا حیران سا کر دیا۔ اس سے زیادہ بے باکی کی توقع ان سے نہیں جا سکتی، قبلہ خوب جانتے ہیں کہ کہاں فل سٹاپ ضروری ہوتا ہے اور کہاں کوما۔ کہاں واضح موقف اختیار کرنا ہے اور کہاں گگلی کرواتے ہوئے بچ بچا کر نکلنا ہے، فلسفیانہ جلیبیاں بنانا ان کی محفوظ ترین پناہ گاہ ہی تو ہے۔
اب اسے فکری تضاد کہیں یا مخمصہ یا مصلحتی تقاضا، سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ کوئی واضح ذہنی لائن اختیار نہیں کر سکتے اور یہی فکری کنفیوژن ان کی گفتگو میں بھی واضح نظر آتا ہے جسے یہ لوگ اپنی فلسفیانہ موشگافیوں اور پراسراریت کے ہیولوں میں چھپائے رکھتے ہیں۔ لیکن اہل فکر و نظر بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ باقی رہے عصری علوم اور ان کا فہم، روایتی مولویوں کے بس کی تو بات ہی نہیں ہے، یہ بیچارے تو قصہ خوانیوں میں مگن رہتے ہیں اور اگر کوئی سوال پوچھ لے تو اس کے درپے ہو جاتے ہیں، ان کا علم تو دھن دھونس اور نعرے بازی کی حد تک ہوتا ہے۔
لیکن یہ اخذ کر لینا بھی کوئی دانش مندی نہیں ہوگی کہ مذہب کو جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں علم الکلام کے جدید داعین جن میں وحید الدین خان، ذاکر نائیک، جاوید احمد غامدی، احمد جاوید اور محمد دین جوہر شامل ہیں کامیاب ہو چکے ہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انہوں نے جدیدیت کا سہارا لے کر مذہبی تصورات کو زیادہ گمبھیر اور پیچیدہ سا بنا دیا ہے۔
یہ لوگ مذہب کو عقلی بنیادوں پر پیش کرنے کی کوشش تو ضرور کرتے ہیں لیکن عقل کی کلی امامت کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں، ظاہر ہے عقیدے کا عقل کے ساتھ زبردستی نکاح کروانے کا جو نتیجہ برآمد ہو گا اسے عقیدہ کی زبان میں شرک یا حدود سے تجاوز گردانا جائے گا۔
فلسفہ، سائنس یا فکر جدید جو خالصتاً عقلی بنیادوں پر کھڑے ہیں، مفروضہ، تجربہ و مشاہدہ اس بندوبست کا جزو لاینفک ہیں اور عقلی دائرہ کار میں لا کر حقائق کو ٹھوس بنیادوں پر پیش کرنا اس کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ ٹھوس حقائق کو زبردستی عقیدہ کے ساتھ نتھی کر کے یہ نتیجہ نکالنا کہ سائنس اسلام کا علم کلام ہے انتہائی مضحکہ خیزی ہے۔
سائنسی اور مذہبی فہم کے درمیان بنیادی فرق، تضاد و تخالف ہی اس اصول پر قائم ہے کہ سائنس عقلی رویوں پر چلتے ہوئے نتائج کی پرواہ نہیں کرتی جبکہ مذہب ایمان اور اندھے یقین کے راستوں پر چلتے ہوئے عقلی رویوں سے اجتناب برتنے کی تلقین کرتا ہے کہ کہیں صاحب ایمان تشکیک کی راہوں پر نہ چل نکلے۔
فکرو نظر کے دونوں دائرہ کار کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں، انہیں زبردستی ایک دوسرے میں داخل کرنے کی کوشش نا کی جائے، اگر داعیان جدید علم الکلام اپنی ہٹ دھرمی والی روش برقرار رکھیں گے سائنس کو تو خیر کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ مذہبی طبقے پر سوالات کا بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔
- ایم اے ”مطالعہ پاکستان“ کے ایک اسٹوڈنٹ سے گفتگو۔ - 23/01/2025
- تعلیمی زبوں حالی پر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا مرثیہ - 20/01/2025
- حسن اللّٰہ یاری اور اویس اقبال کے مابین ایک لاحاصل سی بحث - 18/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).