من کا اجلا: ناصر کالیا
(رضی الدین رضی کی یاد نگاری)
ہم سب ویسٹ انڈیز اور پاکستان کا میچ ”نوائے وقت“ کے نیوز روم میں دیکھ رہے تھے۔ فیصلہ کن لمحات تھے۔ سب سانس روکے ہوئے ایک ایک بال کا لطف لے رہے تھے۔ اس سناٹے میں ایک جملہ نیوز روم میں گونجا۔ ”شاہ جی ( عاشق علی فرخ ) کالا تو میں بھی ہوں لیکن یہ ب۔ چ تو بہت ہی کالے ہیں۔ قسم سے شاہ جی بہت ہی کالے ہیں۔ نہیں نہیں شاہ جی میں آپ کو تو نہیں کہہ رہا آپ سید بادشاہ ہو آپ کے تو بال بھی کالے ہیں۔ کالا تو میں ہوں ناصر کالیا۔“
ایک بہت اجلے شخص کا چہرہ سات دسمبر کو دن بھر میری نگاہوں میں گھومتا رہا۔ ناصر قادری چلا گیا۔ ایک قہقہہ رخصت ہو گیا۔ نیوز روم کی بہت تھکا دینے والی فضا اس کے دم سے بہت خوش گوار اور شاداب رہتی تھی۔ اخبار خاص طور پر نیوز روم کا کام بہت ذہنی دباؤ والا ہوتا ہے۔ اور نوائے وقت کے نیوز روم کا ماحول تو اذیت ناک بھی بہت تھا۔ کہ وہاں مسلسل بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی جاتی تھی۔ اسمبلی توڑے جانے پر مبارکباد دی جاتی تھی اور ہمارے مہربان شاہ جی نے تو بی بی کی کردار کشی کو ایک طرح سے اپنا عقیدہ بنا رکھا تھا۔ ہم جو بے نظیر کے حامی تھے شاہ جی سے الجھتے بھی بہت تھے۔ بی بی کے حامیوں میں ڈپٹی نیوز ایڈیٹر۔ ملک صفدر صاحب، ہمارے پیارے عبدالقادر یوسفی، اصغر زیدی، اقبال ہراج، علی شیر، رانا اکبر، علی رضا۔ اور رپورٹنگ سیکشن میں غضنفر علی شاہی میرے ہم نوا تھے۔ ناصر قادری آرٹ ایڈیٹر تھے اور پیپلز پارٹی کے جیالوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک روز شاہ جی نے بے نظیر کے بارے میں ایک ہزل (فحش نظم) لہک لہک کر نیوز روم میں سنائی۔ ناصر قادری تلملا اٹھے۔ مجھے آنکھ کے اشارے سے نیوز روم سے باہر آنے کو کہا۔ وہ شاہ جی کو جوابی نظم سنانے کے لیے میری خدمات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جن دوستوں نے نوائے وقت کا حسن پروانہ کالونی والا دفتر دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ دفتر میں ایک میگزین سیکشن کا کمرہ تھا۔ یہ کمرہ دن کے وقت میگزین ایڈیٹر اور ان کے سٹاف کے پاس ہوتا تھا رات کو یہ ریڈیو مانیٹرنگ کے لیے استعمال ہوتا تھا اور یہاں عبدالقادر یوسفی صاحب بیٹھتے تھے۔ ناصر شدید غصے کے عالم میں مجھے وہاں لے گئے۔
” رضی صاب آج تو حد ہو گئی ہے۔ اس نظم کا فوری جواب آنا چاہیے۔ نظم آپ لکھ دیں۔ نیوز روم میں سنانا میرا کام ہے“
سو ہم نے شاہ جی اور مجید نظامی کے محبوب لیڈر کی شان میں ہنگامی بنیادوں پر ایک پنجابی نظم کہی۔ ناصر کو اس کی ریہرسل کرائی اور نیوز روم میں واپس آ گئے۔ ناصر قادری نے آتے ہی شاہ جی کو مخاطب کیا۔
” شاہ جی میں ابھی واش روم میں بیٹھا تھا۔ وہی جگہ جہاں آپ بیٹھ کر لیڈ کی بدبو دار سرخی سوچتے ہیں۔ واقعی شاہ جی مینوں تے اج پتا چلیا اے اوتھے تے بڑی آمد ہوندی اے۔ “
اس تمہید کے بعد ناصر نے لہک لہک کر شاہ جی کو نظم سنائی۔ اور شاہ جی خاموشی سے میری جانب دیکھتے رہے۔ نظم ختم ہوئی تو شاہ جی نے کہا
” مینوں پتا اے ایہہ کدی شاعری اے۔ چلو ہن کاپی بھیجو“
ناصر قادری کے ساتھ ہم نے نوائے وقت میں مختلف وقفوں سے کم و بیش گیارہ برس تک کام کیا۔ پہلے جنوری 1991 سے 1999 تک اور پھر 2001 سے 2007 تک اس دوران کئی مرتبہ ہنگامی نوعیت کی خبریں آئیں۔ نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتیں ٹوٹیں، فاروق لغاری صدر بنے اور پھر انہی کے ہاتھوں بے نظیر کی حکومت کے خاتمے اور پھر خود ان کی اور غلام اسحاق خان کی بیک وقت رخصتی کی خبریں آئیں۔ نائن الیون ہوا، لیڈی ڈیانا کے کار حادثے اور راجیو گاندھی کے قتل کی خبریں آئیں، غرض یہ کہ نیوز روم میں خوب ہنگامے رہے۔ ناصر نوائے وقت میں اندرونی صفحات پر کام کرتے تھے۔ صفحہ اول و آخر پر اعجاز شاہ اور منیر بیگ کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ ناصر قادری کا اور ہمارا ایک دوسرے سے پالا اس وقت پڑتا تھا جب خبروں کے بقیے بڑھ جاتے تھے اور کاپی پھنس جاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی کمپیوٹر پر کاپی نہیں بنتی تھی۔ اب تو فونٹ سائز اور سطور کا درمیانی فاصلہ کم یا زیادہ کر کے بقیوں کی جگہ بنا لی جاتی ہے۔ اس زمانے میں میٹر کاٹ کر ایڈجسٹ کرنا پڑتا تھا اور خیال یہ بھی رکھنا پڑتا تھا کہ کہیں متن سے سرخیوں والے جملے حذف نہ ہو جائیں۔ اس کے لیے ایک اصطلاح یہ بھی تھی کہ ”ہے“ یا ”تھا“ پر جملہ مکمل کر کے باقی خبر پر قینچی چلا دی جائے۔ سرخیاں چونکہ میری بنی ہوتی تھیں اس لیے ناصر مدد کے لیے مجھے آواز دیتے تھے۔ سو میں بے دھڑک ہو کر بقیے کاٹ دیتا تھا۔ ناصر خوش ہو جاتا۔
” یہ ہوئی نا بات۔ بھائی تم خبروں کے ختنے خوب کرتے ہو۔ سرخیوں میں جو کچھ آ گیا اسے کاٹنے میں بھلا کیا حرج ہے۔ ایں ویں قاری پر بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ بقیہ کاٹنے کے لیے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایہہ سب فارغ لوگ نے نوائے وقت اچ ایناں دے وظیفے لگے ہوئے نے۔ دعاواں دین نظامی صاب نوں۔ کوئی ہور اخبار ہوندا ایناں نوں کدوں دا فارغ کر دیندا“ وہ بڑبڑاتا ہوا اور لطیفے سناتا ہوا کاپی جوڑتا رہتا۔
ناصر اپنی رنگت کا بھی خود توا لگاتے تھے۔ ایک بار دفتر نے سب سے ان کی تصویریں مانگیں۔ ناصر بولے میں تو کاغذ سے اپنا منہ صاف کروں گا کاغذ پر تصویر آ جائے گی۔ نوائے وقت سے میری رخصتی کے بعد بھی وہ گاہے گاہے مجھے ملتے رہتے تھا۔ کبھی اچانک اے پی پی کے دفتر آ جاتے۔
” بھائی آج دل اداس تھا سوچا آپ کو مل لوں پرانی باتیں کر لوں جی بہل جائے گا“
پھر ہم بہت دیر تک اپنا دل ہلکا کرتے۔ لطیفے سناتے قہقہے لگاتے اور پھر وہ یہ کہہ کر رخصت ہو جاتا کہ بس اب چلتا ہوں ڈیوٹی کا وقت ہو گیا۔ یہ نوائے وقت تو نہیں کہ جب مرضی آ جاؤ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ بھائی اب ہم خبریں میں ہیں وہ تو جرمانے بھی کرتے ہیں اور انہی جرمانوں سے ہماری تنخواہ نکالتے ہیں۔ بہت ہی زندہ دل اور ہنس مکھ انسان تھا وہ۔ ہمیں اداس کر گیا۔ ہنسنے اور ہنسانے والے رخصت ہو رہے ہیں اور وہ جو دکھ بانٹنے اور رلانے والے ہیں، ان کو بلاوا ہی نہیں آتا۔
- 2024 ہماری تنہائی میں مزید اضافہ کر گیا - 01/01/2025
- من کا اجلا: ناصر کالیا - 11/12/2024
- سہیل اصغر: جو آدمی تھا ذرا وکھری ٹائپ کا - 14/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).