!سستی بجلی بھی مبارک ہو پاکستانیو
جب تاریخ کے دھندلکوں میں جھانکتے ہیں تو ہمیں ایسے نادر نظارے نظر آتے ہیں جہاں بادشاہوں کے دربار میں ہر حکم کی تعمیل کی جاتی، گویا کوئی مذاکرہ، کوئی مکالمہ، یا خدانخواستہ کوئی سوال پوچھنا گناہِ کبیرہ ہو۔ ہم آج بھی ارض پاک پر انہی معتبر روایات کے وارث ہیں، جہاں ”بڑے بھائی“ کی مہربانیوں کی برکت سے ہم سب نہ صرف نفسِ مطمئنہ سے بہرہ مند ہیں بلکہ ”ارزاں برقی رو“ کی اُس کہکشاں میں داخل ہو چکے ہیں جو بظاہر الف لیلوی کہانیوں کی باقیات لگتی ہے۔ کیا ہی خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اب ”فکری گمراہی“ کے مہلک وائرس سے شفا مل چکی ہے، اور ہم پورے قد سے ان نعمتوں کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں۔
جی ہاں، ہماری سیاسی تاریخ میں وہ تاریک صبُحیں بھی تھیں جب ”میرے عزیز ہم وطنو!“ جیسے تکیہ کلام نعرۂ آغاز بنتے اور سرد محرومیوں کے موسم میں بُوٹوں کی آوازیں مستقبل کے نقارے بجایا کرتی تھیں۔ اب حالات اتنے پُرسکون ہیں کہ بجائے جھُومنے کے، ہم کان لپیٹ کر صرف ”بڑے بھائی“ کی شفقت پر گزارہ کر رہے ہیں، اور وہ جو کسی زمانے میں حکومتِ وقت پر تنقید کے آتشبار گلے کیا کرتے تھے، آج اپنے ”عطائی قلم“ پیک کر کے شمالی برف زاروں میں دفن کر چکے ہیں۔ کیا کہنے! یہ سب معجزہ اس حکمتِ عملی کا ہے جو نہ صرف جمہوری اضطراب کو جڑ سے اکھاڑ چکی بلکہ ہمیں یہ سمجھنے پر آمادہ کر چکی ہے کہ اگر اپنی اور اپنی ماں بہن کی عزت عزیز ہے تو سوالات اٹھانے سے بہتر ہے گردن ہی نہ اٹھنے دی جائے۔
آج کی یہ خبر بھی اسی بابرکت فضا کی گواہی دیتی ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم نے ”مزید“ سستی بجلی کی نوید سنائی ہے۔ واہ واہ! پہلے تو ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید مصنوعی ذہانت کے اس دور میں شاید ہماری عوام بھی ”مصنوعی ہوش“ میں آئیں گے اور پوچھیں گے کہ پہلے ہی کیوں نہیں کیا؟ مگر ہمت ہے کسی کی کہ ایسے بوالعجب سوال اٹھانے کا رسک لے؟ ہمیں تو عادت ہو گئی ہے، ہر فرمان کو الہامی منشا سمجھنے کی۔ وزیروں، مشیروں کے بیچ بیٹھ کر ”بڑے بھائی“ کے نمائندہ وزیرِ اعظم کا یہ فرمان گویا مستند شریعت ہے کہ بجلی کے نرخ کم کیے جائیں گے، اب سستی توانائی کا ورد بھی کرنا ہے اور اس سے کوئی اختلاف بھی نہیں کرنا، ورنہ ”بڑے بھائی“ کی شفیق جھڑکیوں سے پالا پڑ سکتا ہے۔
مزہ تو یہ ہے کہ حضرت وزیرِ اعظم صاحب بجلی کے بھاؤ گرا کر، کم لاگت کے منصوبوں کی نوید سنا کر، ہماری ”فکری کیفیت“ کو مزید روشن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ، کیا ہی رتبہ ہے کہ کوئی پوچھے بھی نہیں کہ حضور! یہ سستی بجلی آخر کون سے غار میں چھپی ہوئی تھی جسے آپ اب نکال رہے ہیں؟
”بڑے بھائی“ کے زیرِ سایہ ہم نے تاریخ کی درسگاہوں سے یہی سیکھا ہے کہ عوام کا کام حکم بجا لانا ہے، حکم پر سوال اٹھانا نہیں۔ یہ سبق اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ ہم جب بجلی کے بل دیکھتے ہیں تو آنکھیں بند کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ پوچھتے تھے کہ یہ کیپسٹی پیمنٹ کیا ہے؟ یہ آئی پی پیز معاہدوں کی بصیرت کون سا سقراط یا بقراط لایا ہے؟ مگر اب شکر ہے ”بڑے بھائی“ کا۔ کسی صحافی کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ وہ ایسی الٹی سیدھی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرے۔
وزیرِ اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ بجلی کی پیداوار کو سورج کی توانائی پر منتقل کرنا چاہیے۔ اس جملے کی عظمت کو سلام! گویا صدیوں پہلے کے مصری اہراموں کی طرح ہمارے عوام کے ہاں بھی سورج کی پرستش کا دور لوٹ آیا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بادشاہ بعض اوقات عجیب و غریب فرمان جاری کرتے تھے، اور ان کے درباری انہیں بادشاہت کی حکمت سمجھ کر سینے سے لگا لیتے تھے۔ آج بھی کچھ فرق نہیں، بس یہی سمجھنا چاہیے کہ بجلی کے لیے شمسی توانائی ہمارا نیا اہرام ہے، اور ہم اس کی بنیادوں میں اپنی تنقیدی صلاحیتیں زندہ درگور کرنے پر مجبور ہیں۔ ”بڑے بھائی“ کی مہربانی سے اب ہم اتنے وسیع القلب ہو چکے ہیں کہ سستے نرخوں کا نعرہ ہمیں آسمان سے بھی گرا دے تو بھی ہم کہیں گے : ”شکر ہے، پھولوں کا فرش نہیں تھا۔“
اور پھر یہ خبریں بھی سنیے کہ ناکارہ پاور پلانٹس بند کر دیے جائیں گے، تاکہ ایندھن کی بچت ہو، زرمبادلہ بچے، اور صارفین کے بل کم ہوں۔ کیا شاندار حکمت عملی ہے! مگر ٹھہریے، کوئی من چلا پوچھ سکتا ہے کہ پہلے یہ پلانٹس لگانے کی گیدڑ سنگھی کس نے سکھائی تھی؟ یا یہ کہ ان آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرِ ثانی کیونکر اب یاد آئی؟ یقیناً ایسا سوال اٹھانے والا کوئی ناہنجار ہی ہو گا جسے ”بڑے بھائی“ کے پیش کردہ سکوتِ افکار سے خار ہے۔
وزیرِ اعظم کے فرمان سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ ہم بہت جلد ایک ایسی برقی جنت میں پہنچنے والے ہیں جہاں کم لاگت، مقامی وسائل پر مبنی توانائی کے چشمے پھوٹیں گے۔ یقیناً یہ وہی جنت ہے جس کی بشارت کبھی نہ کبھی ہر دور کے حکمران نے ضرور دی ہے۔ ماضی میں بھی ہمیں بتایا جاتا رہا کہ قومی مفاد کے تحت کچھ دن اور صبر کرلو، پھر دیکھو گے موجیں ہی موجیں! لیکن تاریخ بھی عجیب شے ہے، بار بار دہرانے پر بھی کچھ افراد سبق نہیں سیکھتے۔ خوش قسمتی سے ہم اس قبیل سے نہیں۔ ہم نے سبق سیکھ لیا ہے کہ ”بڑے بھائی“ کی سنو، سوال نہ پوچھو، اور اگر منہ میں کوئی لفظ آ بھی جائے تو اسے نگل جاؤ۔ یہی ہمارا نیا سماجی معاہدہ ہے۔
آج یہی سماجی معاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ سولر انرجی ہی وہ نجات دہندہ ہے جس پر مغرب بھی جھوم رہا ہے، اور ماشاءاللہ ہم بھی اب اسی رستے پر ہیں۔ یہ بات تو یک دم روشن ہو گئی کہ ”بڑے بھائی“ ایسے ہی نہیں کہلواتے، ان کی حکمت عالمگیر استناد رکھتی ہے۔ اب یہ نہ پوچھیے گا کہ شمسی توانائی کے منصوبوں کی تنصیب کے لیے جن کمپنیوں سے معاہدے کیے گئے ہیں ان کی قیمت، صلاحیت اور معیار کیا تھا، یا یہ کہ کیپسٹی پیمنٹس کی گتھی سلجھانے کے بعد واقعی ہمارے بل میں کمی آئے گی یا نہیں۔ بھلا ایسے ”ذاتی“ قسم کے سوال پوچھنے کا رواج ہے کیا؟
ہمارے معاشی وزرا بھی خوشی سے نہال ہیں۔ گمان ہے کہ کسی دن یہ صور بھی پھونک دیں گے کہ ہماری معیشت ایسی خوشحال ہو چکی کہ زرمبادلہ کے ذخائر، مہنگائی کی شرح اور بیروزگاری کے اعداد و شمار مل کر ہماری کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ یقیناً یہ سب ہماری اقتصادی معراج کی نشانی ہے۔ جب ”بڑے بھائی“ کا نظام چل رہا ہو تو بھلا کسی عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط یا کیپسٹی پیمنٹ جیسے پست درجے کے معاملات ہماری خوشیوں کو کیا دھندلائیں گے؟
بلاشبہ ہمارے عہد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ہم نے ان تمام کانٹے دار سوالات کو ذہن کی مٹی میں دفن کر دیا ہے جو کبھی ”جمہوری آزادی“ کے نام پر اُگ آیا کرتے تھے۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پہلے بھی آمرانہ ادوار میں دل جلوں کو ڈرایا جاتا تھا، مگر آج تو ہم خود ہی اس ڈر کو ”قومی وقار“ سمجھنے لگے ہیں۔ پہلے ڈرتے تھے تو چھپ چھپ کر، اب ڈرنے کو باعثِ فخر سمجھ کر اس سے محبت کرنے لگے ہیں۔ ہمیں بجلی ملے یا نہ ملے، بل کم ہو یا بڑھے، سولر کے منصوبے دن میں تارے دکھائیں یا رات میں سورج، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں صرف اس ”انقلابی خاموشی“ سے پیار ہے جو ”بڑے بھائی“ کی دین ہے۔
اور پھر یہ بھی بتایا گیا کہ اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے ناہنجاروں کے خلاف فوری کارروائی ہو گی۔ سبحان اللہ! تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی عمارت غلط بنیادوں پر کھڑی ہو تو اسے سیدھا کرنے کے لیے کبھی معماروں سے سوال نہیں کیے جاتے، بس ہتھوڑے برسانے والی ٹیم کو بلا لیا جاتا ہے۔
الغرض، ہماری انقلابی توانائی پالیسی، آئی پی پیز سے معاہدوں کی نئی لکھت پڑھت، شمسی توانائی کا انقلابی رُخ، کیپسٹی پیمنٹ کا مکمل حل (یا نیم حل) ، اور اصلاحاتی پروگراموں پر انتہائی سرعت سے عمل درآمد کا یہ تمام منظرنامہ ایک مہربان کی سرپرستی کا مرہونِ منت ہے، جسے ہم ”بڑے بھائی“ کہتے ہیں۔ کوئی تعجب نہیں کہ آج ہمارا ہر بچا کھچا سر ”فخرِ ڈرنا“ سے اتنا بلند ہو چکا ہے کہ اسے بس واہ واہ ہی کرنا سجتا ہے۔ کسی بھی زاوئیے سے دیکھیں، سب اچھا ہی نظر آتا ہے۔ ہمیں افسوس نہیں کہ ہم سوال پوچھ نہیں سکتے، افسوس نہیں کہ بجلی کے بل کس رفتار سے اوپر گئے، افسوس نہیں کہ ٹیکنالوجی کی تبدیلیوں کی اصل قیمت کیا ہے۔ ہمیں تو بس یہ یقین ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، بس ہاتھ باندھے کھڑے رہو، ڈرے رہو اور مانتے جاؤ۔
- خبردار! آپ کا بینک اکاونٹ خالی ہو سکتا ہے - 07/01/2025
- نظریہ حیات اور ہماری نوجوان نسل کی اخلاقی الجھن - 19/12/2024
- نظریہ ارتقا، معاشرتی تبدیلیاں اور مصنوعی ذہانت کی خفیہ سازش - 18/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).