ڈوبتا مستقبل: سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
ازل سے بے سمت جستجو کا سفر ہے درپیش پانیوں کو
کسے خبر کس کو ڈھونڈتا ہے میری طرح رائیگاں سمندر
اچھے مستقبل کی خواہش کسے نہیں ہوتی لیکن یہ خواہش جان لیوا ہو جائے تو سب کچھ ڈوب جاتا ہے۔ یونانی جزیرہ کریٹ کے جنوب میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتیاں الٹنے کا جان لیوا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے نوجوان مایوسی اور نا امیدی کے شکار ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے جائز طریقے سے آگے بڑھنے کے راہیں مسدود ہیں۔ اسی مایوسی کے سبب ہزاروں نوجوان یورپ و دیگر ممالک کے غیرقانونی سفر میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
اس سوال پر حکمرانوں کی توجہ کم ہی ہے کہ یہ نوجوان کیوں دھڑا دھڑ باہر جا رہے ہیں؟ آئی ایم ایف کے قرضوں اور ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر بتایا جاتا ہے کہ معیشت ٹیک آف کی پوزیشن پر آ رہی ہے ’لیکن حقیقتاً یہ ترقیٔ معکوس ہے۔ اگر تھوڑی بہت ترقی ہے تو وہ نسلوں کے مستقبل کو گروی رکھ کر ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں پر شادیانے بجانے والے یہ نہیں سوچتے کہ یہ قرضے کبھی نہ کبھی‘ کسی نہ کسی نے ادا بھی کرنے ہیں۔ کیسے ادا ہوں گے اور کون یہ قرض ادا کرے گا یہ کوئی نہیں بتاتا؟ پاکستانی نوجوان بیرون ملک جانے کے خواہاں نہیں۔ اس سلسلہ میں برٹش کونسل کی یہ رپورٹ The Next Generation Research Report 2023 ہمارے سامنے ہے جس کے مطابق 68 فیصد اور گزشتہ ماہ منظر عام پر آنے والے اپسوس سروے کے مطابق 74 فیصد نوجوان ملک میں رہ کر بہتر زندگی گزارنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کے باوجود ہر سال پاکستان چھوڑنے والے افراد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ’دو برسوں میں 18 لاکھ سے زائد افراد نے ملک چھوڑا۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 2023 ء میں 8 لاکھ 62 ہزار 625، جبکہ 2022 ء میں 8 لاکھ 32 ہزار 339 افراد روزگار کے لیے بیرونِ ملک گئے۔ امیگرنٹس قوانین سخت ہونے اور حادثات کے باوجود تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس سال بھی ہزاروں نوجوان معاشی حالات سے دل برداشتہ ہو کر غیر قانونی طریقوں سے ایران، ترکی اور دیگر راستوں سے یورپ جانے کی کوشش میں کئی خوش قسمت منزلِ مقصود پر پہنچے تو بہت سے راہ میں مارے گئے۔
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث کاروباری سرگرمیوں کے ماند پڑنے اور توانائی کے ذرائع مہنگے ہونے کے باعث مہنگائی میں ریکارڈ اضافے کے نتیجے میں کارخانوں اور فیکٹریوں کا بند ہونا بیرو ن ملک جانے کی وجوہات ہیں۔
یونان سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے عزیز و اقارب کا کہنا ہے کہ ایجنٹوں کو 21 سے 22 لاکھ روپے فی کس دیے۔ یہ لاکھوں روپے ویسے تو نہیں آتے، کسی نے اپنی زمین تو کسی نے ماں کا زیور بیچا ہو گا۔ اتنا رسک لینے کے بعد بھی جن کے والدین کی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی گئی اور متاع سے عزیز تر اولاد بھی۔
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
وزیر اعظم شہباز شریف نے کشتی الٹنے کے حادثے میں اموات اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اجلاس میں معصوم پاکستانیوں کو جھانسا دے کر غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک لے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم نے 2023 ء کے کشتی حادثے کے بعد ایسے عناصر کے خلاف کارروائی میں سست روی پر برہمی اور ملوث افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ یہ ہدایت اپنی جگہ لیکن ایسا ہر حادثے کے بعد ہی کیوں ہوتا ہے کہ بہت کچھ کرنے کے دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں لیکن جونہی کچھ وقت گزرتا ہے سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ انسانی سمگلنگ ایسا سنگین مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ سلطان باہوؒ نے مسافرت کے بارے میں جو کہا وہ بے سبب نہیں۔ یہ مسافر ہی جانتا ہے کہ اسے غریب الدیار کیوں کہا جاتا ہے۔
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ’ککھ جنہاں تھیں بھارے ہُو
تاڑی مار اڈا نہ باہو ’اسیں آپے اُڈن ہارے ہو۔
( خدا کرے کوئی مسافر نہ ہو ’تنکے بھی جن سے بھاری ہوتے ہیں‘ ہمیں تالی بجا کر نہ اڑاؤ ’ہم تو خود ہی اڑنے والے ہیں۔ )
انسانی اسمگلنگ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2013 میں جرائم پیشہ افراد نے اس مکروہ دھندے سے 927 ملین ڈالر کمائے۔ پاکستانی حکام کے مطابق اس دھندے میں ایک ہزار سے زائد گروہ ملوث ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2013 تک پاکستان میں اس غلیظ کاروبار میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ تازہ ترین صورتحال پر نظر ڈالیں تو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں ایران سے 86000 پاکستانیوں کو بے دخل کیا گیا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ انسداد مہاجرین ایکٹ اور انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018، پاسپورٹ ایکٹ 1974، امیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر قوانین کے ہوتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیوں ممکن نہ ہو سکی؟ یہ صورت حال اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک قوانین پر 100 فیصد عمل درآمد ممکن نہیں ہو گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں معیشت کی بہتری کی فکر بھی کرے۔ کیونکہ جب تک ملک میں غربت، بھوک اور افلاس کے سائے رہیں گے، اپنے معاشی مستقبل کے تحفظ کی خاطر یورپ جانے والے ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بنتے رہیں گے۔ اگر ایک طرف جان کی بازی ہارنے والے ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں تو دوسری جانب ہزاروں میں سے جو بچ کر یورپ پہنچ جائے تو وہ سیاسی پناہ کے لیے وطن عزیز کے بارے میں ایسی ایسی ہرزہ سرائیاں کرتا ہے جس سے اپنے شرمندہ اور غیر خوشیاں مناتے ہیں۔
اقوام متحدہ کو بھی چاہیے کہ وہ بین الاقوامی سیکیورٹی اداروں کی مدد سے انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرے، کیونکہ یہ اقوام عالم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ کاروبار جرائم کی دنیا میں تیسرا بڑا کاروبار اور اس کا حجم 32 تا 40 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
- 190 ملین پونڈز فیصلہ - 23/01/2025
- ٹرمپ کی آمد: میں اپنی بات خود اپنی زباں میں کہتا ہوں - 20/01/2025
- مہنگی ترین آگ: حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں - 14/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).