گریٹر اسرائیل اور مسلمانوں کا تصور خلافت ( 1 )
شام میں علوی آمریت کی تسخیر کے بعد جس طرح مڈل ایسٹ میں اُس ترکیہ کا کردار بڑھ گیا جو خود کو خلافت عثمانیہ کی وارث سمجھتی ہے، اُس سے مسلم اُمہ میں بھی یورپی یونین کی طرز پہ وسیع تر مسلم فیڈریشن (خلافت ) کے قیام کی دیرینہ آرزوئیں جاگ اٹھیں، دوسری جانب سقوط دمشق میں یہودیوں کو بھی ”عظیم تر اسرائیل“ کی گونج سنائی دینے لگی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت عیسائیت ہی مڈل ایسٹ میں جاری جنگوں کی سب سے بڑی اور حقیقی بینافشری ثابت ہوئی ہے۔ یہ اور ایسے دیگر تخیّلات دراصل دنیا کے تین بڑے مذاہب کے درمیان تاریخی جدلیات کا شاخسانہ ہیں جو دو قسم کی سازشی تھیوریز کے گرد گھومتے ہیں، پہلا یہ کہ یہودی دریا نیل سے لے کر دریا فرات تک ”عظیم تر اسرائیل“ کے قیام کی جانب بتدریج پیشقدمی کر رہے ہیں، دوسرا یہ کہ ابھرتا ہوا ترکی دنیا بھر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے عثمانی ماڈل کی عالمی خلافت کی نشاة ثانیہ کے لئے سرگرداں ہے۔
اگرچہ امر واقعہ تو یہی ہے کہ عظیم تر اسرائیل کا قیام ناممکن اور خلافت عثمانیہ کی نشاة ثانیہ بعید از قیاس ہیں کیونکہ وقت اور حالات کا دھارا کبھی واپس نہیں پلٹ سکتا لیکن کیا کریں دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے پیرو کاروں کے دل و دماغ جن گداز خواہشات سے آباد ہیں، انہی رومانوی آرزوؤں کا عکس ہمیں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ارباب بست کشاد کو پالیسیوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ شاید اسی تناظر میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش دستی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشار الاسد کا تختہ الٹنا ترکی کا شام پر ”غیر دوستانہ قبضہ“ ہے، بظاہر انقرہ کی تعریف کرتے ہوئے، صدر ٹرمپ نے اس ہفتے کے شروع میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ ترک ”بہت ہوشیار“ ہیں، انہوں نے ”بہت سی جانیں ضائع کیے بغیر دمشق پہ غیر دوستانہ قبضہ“ کر لیا۔ بدھ کے روز ترک وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ شام میں موجودہ واقعات کو ترکی کے قبضے سے تعبیر کرنا ”سنگین غلطی“ ہو گی، انہوں نے کہا ”میرے خیال میں اگر کوئی قبضہ ہے تو یہ شامی عوام کی مرضی ہے جو اب سنبھال رہی ہے، فیدان نے قبضہ کے کلچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تسلط کی ثقافت نے خطہ میں تباہی مچائی، مجھے لگتا ہے کہ یہ آخری چیز ہوگی جسے ہم دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہمیں بڑا سبق ملا یعنی تسلط کی ثقافت نے ہمارے خطے کو تباہ کر دیا“ ۔ انہوں نے مزید کہا، ترک تسلط نہیں، ایرانی تسلط نہیں، عرب تسلط نہیں لیکن مسلمانوں میں باہمی تعاون ضرور ہونا چاہیے ”ترکوں کی یہی سوچ دراصل عباسی خلافت کی طرز پہ مسلمان ممالک کی نظریاتی کنفیڈریشن کی طرف اشارہ کرتی ہے جو عہد جدید میں بعید از قیاس بھی نہیں ہو گی۔
اسی طرح تل ابیب میں بھی اس وقت اسرائیل کی سرحدوں سے متعلق بحث میں ”عظیم تر اسرائیل“ کا موضوع نمایاں نظر آتا ہے، اگرچہ بظاہر گریٹر اسرائیل کی اصطلاح وہاں ریاست اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی سرزمین کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو ٹرانس اردن کے بغیر سابقہ فلسطین کا مشترکہ علاقہ ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ اُن کے پیغمبر حضرت سلیمان علیہ سلام نے اپنی بادشاہی کو جس حد تک وسعت دی، اُس میں آج کل کے جدید اسرائیل اور فلسطین کے علاوہ مغربی شام کے کچھ حصے شامل تھے، سلیمانؑ نے سلطنت کا دارالحکومت یروشلم منتقل کیا اور اس میں پُرشکوہ عبادت گاہیں بنا کر اُن کی دیواروں کو مضبوط کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہودیوں کے لئے گریٹر اسرائیل کا قیام ممکن ہو گا؟ گریٹر اسرائیل ایک ایسا مظہر ہے جس کے سیاسی معنی ہیں جسے مشرق وسطیٰ کے لیے صیہونی منصوبہ بھی کہا گیا، صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق ”عظیم تر اسرائیل“ کا تصور، مصر کے دریا نیل سے عراق کے دریا فرات تک پھیلی یہودی ریاست پہ محیط ہو گا، جس میں تاریخی فلسطین، جنوبی لبنان، صیدا اور دریائے لطانی سے لے کر شام کی گولان کی پہاڑیاں، ہوران کا میدان، دیرہ، حجاز ریلوے دیرہ سے عمان، اردن کے ساتھ خلیج عقبہ، لبنان اور مغربی شام کے علاوہ جنوبی ترکی بھی شامل ہو گا۔ بہت سے مورخین اور بین الاقوامی تعلقات پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل آہستہ آہستہ اور حکمت عملی کے ساتھ اپنے پڑوسیوں سے زیادہ سے زیادہ زمین چھین رہا ہے۔
تاہم اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ گریٹر اسرائیل کا ڈیزائن مشرق وسطیٰ کے لئے محض صہیونی منصوبہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ امریکی خارجہ پالیسی کا اٹوٹ انگ ہے جس کا مقصد مڈل ایسٹ پہ عیسائیوں کا تسلط قائم کرنے کی خاطر مشرق وسطیٰ کو توڑ کر بالکانائز کرنا ہے، عرب خطہ میں امریکہ کی طرف سے اس طرح کی پالیسی ینون پلان کے مطابق چل رہی ہے، جس کے تحت علاقائی برتری کو یقینی بنانے کے اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لیے اسرائیلی عزائم کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ یہ عیسائیوں کی صلیبی چالوں کا تسلسل ہے جسے انیسویں صدی میں برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں استعمال کیا تھا۔ ینون پلان کے مطابق، اسرائیل کو ارد گرد کی عرب ریاستوں کی بالکانائزیشن کے ذریعے اپنے جغرافیائی سیاسی ماحول کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت پڑے گی تاکہ مسلمانوں بالخصوص عربوں کو چھوٹی اور کمزور ریاستوں میں تبدیل کیا جا سکے۔ گریٹر اسرائیل کے بارے میں 2017 میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل اس وقت فلسطینی باشندوں کو شدید محرومی اور تنہائی کے حالات میں رکھتے ہوئے فلسطینی سرزمین کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کے منصوبے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گریٹر اسرائیل کے اِسی خیال نے دنیا بھر میں تشدد کو جنم دیا جس سے مسلم کمیونٹی بھی عالمی خلافت کے تصور کی طرف مائل ہونے لگی۔ مسلمان قیادت، مغربی پہلی دنیا کے ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ کے ذاتی مفادات کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں اور وہ اسرائیلی ریاست کو عرب اقوام کے دل میں پیوست سابق نوآبادکاروں کا خنجر سمجھتے ہیں، اس لئے فلسطینیوں کو جب ان کی سرزمین سے جبراً نکالا گیا تو مسلم ممالک میں عیسائیوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی۔ اسلام پسندوں کا خیال ہے کہ اسرائیل صرف عرب علاقوں میں ان کی زمینوں پر قبضے کے لیے نہیں بلکہ اس منصوبہ کے پیچھے ایک گریٹر اسرائیل کی تشکیل کا خواب بھی عیسائی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
یروشلم آج بھی دنیا بھر کے عیسائیوں کے لیے اہم زیارت گاہ ہے، مسلمانوں کے لیے یروشلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر اہم شخصیات کی زندگی کے اہم واقعات کا مقام ہونے کے علاوہ یہ وہ جگہ ہے جہاں قرآن اور دیگر نصوص کی روایتی تشریحات کے مطابق، نبی محمد ﷺ معراج پر تشریف لے گئے، یروشلم کو، بشمول یہودیت، عیسائیت اور اسلام مقدس شہر مانتے ہیں اور اب بھی ان مذاہب میں سے ہر ایک کے لئے کچھ مقدس ترین مقامات یروشلم میں پائے جاتے ہیں۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول تھا، کعبہ سے پہلے محمدﷺ بیت المقدس کی سمت نماز پڑھا کرتے تھے اور حضرت محمد ﷺ نے اپنے آسمانی سفر سے پہلے 1,24,000 پیغمبروں کو اِسی مقام پہ نماز پڑھائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی روح فلسطینیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
تاہم اس سب کے باوجود جزیرہ نما سینائی سے لے کر دریائے فرات تک اسرائیلیوں کے لئے جسمانی طور پر قبضہ کرنا ممکن نہیں ہو گا، بلاشبہ اسرائیلی فوج حملے کر کے عربوں کو زمین کی گہرائیوں تک دھکیل سکتی ہے لیکن ان کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں کہ وہ اس طرح کے قبضے کو برقرار رکھ سکیں، جیسے مصر کے ساتھ جنگ میں اسرائیل نے جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کیا لیکن بہت جلد اسے واپس کر دیا، صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس وہاں بسنے اور قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کافی لوگ موجود نہیں تھے۔ نرم طاقت کی مداخلت اور ہیرا پھیری کے لحاظ سے، یہ یقینی طور پر ممکن ہے کہ وہ مستقبل قریب میں مصر اور فرات کے درمیان طاقت کے پردے کے پیچھے بیٹھ کر عرب زمین کے حکمران بن سکتے ہیں۔ وہ ان سرزمینوں میں اسرائیل نواز حکمرانوں اور آمروں کو سہارا دینے کے لئے معاہدہ ابراہیمی جیسے معاہدات کو تشکیل دے سکتے ہیں اور بالخصوص آج کل شام اور شمالی عراق میں پاور ویکیوم کے دوران ایسا میکانزم تیار کرنا زیادہ آسان ہو گا۔ اگر ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور بڑی دولت ہے تو وہ ان سرزمینوں میں اسرائیلی فوج کے مستقل اڈے بنانے کے لیے بھی غیر مقبول آمروں سے ڈیل کر سکتے ہیں، جیسا کہ عیسائیوں کی نمائندگی کرنے والے امریکہ نے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے بنا رکھے ہیں تاہم ایسا کرنے سے بھی اسرائیل میں کروڑوں عرب باشندوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے لئے اسرائیل کو ان لوگوں پر آمرانہ طریقے سے حکومت اور عربوں کی نسل کشی کرنا پڑے گی بصورت دیگر یہودی ریاست میں یہودیوں کی اقلیت جلد مغلوب ہو جائے گی یعنی کہ گریٹر اسرائیل کا قیام بالکل ناممکن ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق، جسے بنجمن نیتن یاہو نے منظور کیا تھا اور جسے اب بھی اسرائیلی سیاست دانوں کی طرف سے سیاسی نظام کے دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے حمایت حاصل ہے، اسرائیل مغربی کنارے میں اس کے براہ راست کنٹرول کے نصف سے دستبردار ہونے جا رہا ہے اور اسرائیلی علاقوں میں غزہ کی پٹی کے لئے نئے انکلیو بنائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی امریکی رہنما کسی بھی طرح کی اسرائیلی توسیع کی حمایت نہیں کر سکتا اور جو اسرائیلی سیاست دان ایسا کرتے ہیں، وہ بمشکل ہی اسرائیلی پارلیمنٹ میں مٹھی بھر نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں بلکہ برطانیہ کی مسلح افواج کی خوفناک کمزوری کے بارے میں حال ہی میں برطانیہ میں شائع ہونے والی تازہ ترین کتاب ”وائٹ فلیگ“ کی اشاعت کے بعد تو اسرائیل کی بقاء کے بارے میں پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔
(جاری ہے )
- سیاسی مفاہمت سے کیا مراد ہے؟ - 20/01/2025
- طالبان کی ناکامیوں کا وبال - 08/01/2025
- گریٹر اسرائیل اور مسلمانوں کا تصور خلافت ( 2 ) - 31/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).