چھارو مچھی آبشار: قدرت کا جیتا جاگتا شاہکار


faisal karim khuzdar

بلوچستان کے دلکش اور دل موہ لینے والے مناظر کے درمیان چھپی ہوئی ایک خوبصورتی، چھارو مچھی آبشار، وہ مقام ہے جہاں قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ آبشار وادی خضدار کے قریب واقع ہے اور تقریباً تین گھنٹے کی موٹر سائیکل سواری کے بعد وہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سفر کسی عام سفر کی طرح آسان نہیں ؛ یہ ایڈونچر، ہمت اور استقامت کا امتحان ہے۔

ہمارا سفر رات 8 بجے خضدار سے شروع ہوا۔ ہم نو دوست چار موٹر سائیکلوں پر سوار تھے، اور ہر ایک کے دل میں چھارو مچھی دیکھنے کی بے تابی تھی۔ سفر کے آغاز میں ہی ہم نے طے کر لیا تھا کہ کسی بھی مشکل کا سامنا ہو، پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ راستہ پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا ہے، جہاں کچے اور پتھریلے راستے بار بار ہماری آزمائش لیتے رہے۔ کبھی موٹر سائیکل کے ٹائر پنکچر ہو جاتے تو کبھی راستے میں اندھیرا ہمیں اپنی ہمت کا امتحان لینے پر مجبور کر دیتا۔ مگر ہم سب کی ہنسی اور باتوں نے اس سفر کو خوشگوار بنایا۔

رات کے ساڑھے تین بجے ہم آخر کار چھارو مچھی پہنچ گئے۔ اندھیرے کے باوجود آبشار سے گرتے پانی کی گونج اور اردگرد کے پہاڑوں کا سکون دل کو خوشی کی ایک انوکھی کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا۔ سب دوستوں نے بھوک کا اعلان کیا، اور کھانا بنانے کی ذمہ داری مجھ پر آ گئی کیونکہ باقی ساتھیوں کو کھانا پکانے کا ہنر نہیں آتا تھا۔ رات کی ٹھنڈی ہوا میں چکن کڑاہی کی خوشبو نے سب کو خوش کر دیا۔ کھانے کے بعد ندی کے کنارے چند گھنٹے آرام کیا، اور صبح 8 بجے اٹھ کر ناشتے کے لیے تیار ہو گئے۔

ناشتے کے بعد ہم نے اپنا سامان سمیٹا اور چھارو مچھی آبشار کے اصل پوائنٹ کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔ یہ راستہ آسان نہیں تھا، مگر آس پاس کے مناظر اتنے دلکش تھے کہ تھکن کا احساس ہی نہیں ہوا۔ آدھے گھنٹے کی ہائیکنگ کے بعد جب ہم آبشار کے قریب پہنچے، تو قدرت کی یہ تخلیق دیکھ کر ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ پانی کے شفاف قطرے، پہاڑوں کے درمیان سے گرتی سفید چادر کی طرح دکھائی دیتے تھے، اور چاروں طرف سبزہ اور پھول جیسے کسی ماہر مصور کی تصویر کا حصہ ہوں۔ سب دوستوں نے پانی میں نہا کر خوب لطف اٹھایا۔

خوشیوں کے بیچ، میرے ساتھ ایک مسئلہ پیش آیا۔ میرے موٹر سائیکل کی چابی پانی میں گر کر غائب ہو گئی۔ ہینڈل لاک لگا ہوا تھا، اور ایسی جگہ پر اس مسئلے کا حل نکالنا کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ہینڈل لاک توڑا اور سکون کا سانس لیا۔

دوپہر کے کھانے کے لیے ہم نے مزیدار چکن وائیٹ بریانی اور تکہ ملائی بوٹی بنائی۔ یہ کھانے کی دعوت ہم نے ندی کے بیچ پانی میں بیٹھ کر کی، جو ہمارے اس سفر کی یادگار بن گئی۔ ہر لقمے کے ساتھ ہم نے قدرت کے اس تحفے کا لطف اٹھایا۔

اس دوران ہمیں وہاں کے چند مقامی افراد سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کی سادگی اور مہمان نوازی نے دل جیت لیا، مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ بنیادی سہولیات کی کمی اور تعلیمی فقدان نے ان کی زندگی کو محدود کر دیا ہے۔ ان میں سے کئی افراد کو بنیادی اسلامی تعلیمات تک نہیں معلوم تھیں۔ ایسی خوبصورت جگہوں پر حکومت کو نہ صرف بہتر راستے بنانے چاہئیں بلکہ بنیادی سہولیات بھی فراہم کرنی چاہئیں، تاکہ یہ مقامات سیاحوں کے لیے اور زیادہ پرکشش بن سکیں۔

واپسی کا سفر شام ساڑھے چار بجے شروع ہوا، مگر ایک نیا مسئلہ تب پیدا ہوا جب ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ وہ اپنی اسمارٹ واچ چھارو مچھی میں بھول آیا ہے۔ ہمیں دوبارہ واپس جا کر اس کی واچ لانی پڑی۔ اس دوران تھکن اور مشکل راستوں نے سفر کو مزید دشوار بنا دیا، مگر ہمارے ٹیم ورک اور ہنسی مذاق نے مشکلات کو آسان کر دیا۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہم خضدار واپس پہنچے۔ تھکن کے باوجود ہمارے دل خوشی اور فخر سے بھرے ہوئے تھے کہ ہم نے چھارو مچھی جیسے دلکش مقام کو دیکھا اور ایک یادگار سفر مکمل کیا۔

چھارو مچھی آبشار نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے قدرتی عجائب میں سے ایک ہے۔ اس کے دلکش مناظر، شفاف پانی، اور خوشبوؤں سے مہکی ہوا انسان کو خدا کی قدرت پر حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ ایسے مقامات پر سہولیات فراہم کی جائیں، تاکہ یہ علاقے سیاحوں کے لیے آسان اور پرکشش بن سکیں۔ یقیناً، چھارو مچھی جیسے مقامات نہ صرف سیاحت کو فروغ دیتے ہیں بلکہ لوگوں کو قدرت کے قریب لے آتے ہیں۔

”قدرت کی خوبصورتی انمول ہے، اور چھارو مچھی اس بات کا ثبوت ہے کہ زمین پر جنت کا ایک حصہ بلوچستان میں موجود ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments