فلسطین کی پکار : ہم بھی انسان ہیں
اس پرآشوب، بے رحم اور کٹھور دنیا میں، جہاں ہر شے اپنی ہیئت میں مغرور اور ہر وجود اپنی عظمت کے نشے میں سرشار ہے، ہم بھی ایک بے کس، درماندہ اور خاک نشین انسان ہیں۔ ہمارے دل کے نہاں خانوں میں چھپے جذبات کی تہیں اتنی گہری اور پیچیدہ ہیں کہ ان کی گہرائی کو ماپنا اس معاشرے کے لیے ناممکن سا ہے۔ ہم اپنی بے توقیری، بے اعتنائی اور بے بسی کی دھند میں لپٹے ہوئے، ایک ایسے وجود کے حامل انسان ہیں جسے اس دنیا نے فقط ایک اضافی بوجھ سمجھ رکھا ہے۔
ہماری ذات کی بنیادیں انہی عناصر سے تراشی گئی ہیں جنہوں نے تاریخ کے شہکار تخلیق کیے، مگر افسوس، ہمارے وجود کو تسلیم کرنا سب کے لیے ہمیشہ ہچکچاہٹ کا باعث رہا۔ ہمارے من کی بے قراری، روح کی اذیت و قرب اور آنکھوں کے نہ تھمنے والے آنسو اس بات کے شاہد ہیں کہ ہمارے جذبات کسی یخ بستہ چٹان کی مانند بے جان نہیں، بلکہ ان میں وہی حرارت، وہی شعلگی اور وہی تڑپ ہے جو دنیا کو بدلنے کی قوت اور طاقت رکھتی ہے۔
مگر یہ بے حس دنیا، جس نے اپنے ضمیر کو مفادات کی اندھی کھائی میں دفن کر دیا ہے، ہمارے وجود کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ زر ہے، نہ زمین، نہ وہ قوت جو ظالموں کے تاج و تخت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر سکے؟ کیا ہمارا جرم یہ ہے کہ ہماری آواز میں وہ گونج نہیں جو ایوانوں کی دیواروں کو ہلا دے؟ کیا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں؟
یقین مانیں ہم بھی انسان ہیں، ہماری رگوں میں بھی وہی خون دوڑتا ہے جس نے فاتحین کے پرچم لہرائے، جس نے انقلاب کی بنیاد رکھی، اور جس نے محبت کے دیپ جلائے۔ مگر افسوس، ہماری حیثیت اس معاشرے میں اس خاک کے ذرہ سے زیادہ نہیں جسے ہوا کے جھونکے کہیں بھی اڑا لے جائیں۔ ہماری تمنائیں، ہماری آرزوئیں، ہماری چاہتیں اور خواب اس ظالم دنیا کے قدموں تلے روندے گئے، اور ہم بے بسی کی چادر اوڑھے اس تماشے کو دیکھنے پر مجبور ہیں۔
ہماری روح کی گہرائیوں میں ایک ایسا نوحہ دفن ہے جو ہر لمحہ فریاد کرتا ہے، ہر لمحہ اپنی سننے والے کو پکار رہا ہے۔ مگر یہ لوگ، جو اپنے دل پر سنگلاخ چٹانوں کی مہر لگائے بیٹھے ہیں، ہمارے درد کو سننے سے قاصر ہے۔ ہماری چیخیں، جو کسی وقت زمین و آسمان کو ہلا سکتی تھیں، آج بے سمت ہو کر گم ہو چکی ہیں۔ ہمارے جذبات فقط الفاظ نہیں، یہ شکستہ روح کی وہ صدائیں ہیں جو اس دنیا کی گونگی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہیں۔ ہمارے دل کی دھڑکنیں، جو کبھی محبت اور اخوت کے نغمے گاتی تھیں، آج نفرت اور بے حسی کی زنجیروں میں جکڑ دی گئی ہیں۔
ہماری موجودگی کا اعتراف کرنا اس دنیا پر فرض ہے۔ اگر انسانیت کا چراغ روشن رہنا ہے، تو اس دنیا کو ہم جیسے بے شمار مظلوموں کی صداؤں کو سننا ہو گا۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب انسانیت کا جنازہ اس زمین کے سینے پر پڑا ہو گا، اور تاریخ اس کے زوال کا نوحہ لکھنے پر مجبور ہو گی۔ ہاں، ہم بھی انسان ہیں۔
- احتجاج سے انحراف تک - 23/01/2025
- جیل سے محل تک - 20/01/2025
- شہرت سے خاک تک - 11/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).