ناجاءز تعلقات سے بچنے کے لیے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت مل سکتی ہے؟


سینئر اداکارہ سلمیٰ ظفر عاصم نے اپنی انتہائی نجی زندگی کے ایک اہم پڑاؤ کو سانجھا کرتے ہوئے کہا کہ ”لڑکیوں کے افیئر سے بچانے کے لیے انہوں نے اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دی، ان کا موقف تھا کہ شادی منظور ہے لیکن افیئر نہیں“

سلمیٰ کا بڑا پن کہیں یا بلند ظرفی لیکن کیا یہ معقول یا مناسب حل ہے؟
کیا دو یا تین بیویوں کے درمیان ایک مرد اپنی منصفانہ چاہت، توجہ یا کیئر بانٹ سکتا ہے؟ کیا دلی چاہت، انس و پیار کو دو یا تین ازدواجی حصوں میں برابر تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ اس بات کی کس حد تک ضمانت دی جا سکتی ہے کہ جس شوہر کو افیئرز سے بچانے کے لیے دوسری شادی کی اجازت دی جا رہی ہے کیا وہ واقعی اپنے وعدے پر قائم رہے گا؟

کیا وفا کی پاسداری کرنا یا خود کو مرتے دم تک ایک بستر تک محدود رکھنے کی ذمہ داری کا فریضہ صرف خاتون پر ہی لازم ہوتا ہے مرد پر نہیں؟ مرد اگر خود کی نفسانی خواہشات پر قابو نہیں رکھ سکتا اور وہ مزید خواتین کے ساتھ اپنی جنسی تسکین چاہتا ہے تو اپنی بیوی سے وہ وفا کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے، کیا وہ انسان نہیں یا اس کی خواہشات نہیں؟ نجانے کتنی بیویاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے شوہر سے مکمل جنسی تسکین کی خاطر اپنی فینٹسی یا سٹیمولس جگہوں کا تذکرہ نہیں کر پاتیں اور ٹھنڈے گوشت کی مانند اندر ہی اندر جھلستی رہتی ہیں اور مرد دوسری خواتین کے خوابوں میں مگن ہوتا ہے اور فارغ ہو کر چلتا بنتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ خاتون اپنے ٹریگر پوائنٹس کا تذکرہ اپنے شوہر سے نا کرے تو پھر کس سے کرے؟ کیا مرد بھی اس قدر کا نشس ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اس قدر اہمیت دیں کہ ازدواجی زندگی تسکین و حرارت سے بھرپور رہے؟ مشرقی سماج میں تو ایسا ناممکن ہے، جنسی گھٹن کی وجہ سے مرد جنسی تسکین کے لیے باہر منہ مارتے ہیں اور بیوی کو گھریلو ملازمہ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ وقت گزاری کرتے ہیں۔ اور اس تعلق کا نتیجہ بچوں کی ایک لمبی لائن کی صورت میں نکلتا ہے۔

شادی کا بندھن تو ایک دوسرے کے ساتھ وفا کا ایک سپاس نامہ یا عہد ہوتا ہے اس کو نبھانا دونوں پر لازم ہوتا ہے تو پھر اکیلا مرد دوسری یا تیسری شادی کر کے اس عہد کو کیسے توڑ سکتا ہے؟ کیا خاتون صرف اس وجہ سے اپنی سوکنیں برداشت کرے کہ طلاق کے بعد اس کی اہمیت ٹکے جتنی بھی نہیں رہے گی اور مردوں کا کیا بگڑتا ہے بھلے جتنے مرضی افیئرز چلا لیں؟

ہر جگہ پر خاتون کو ہی کیوں جھکنا پڑتا ہے، کیا اس کی حیثیت صرف بچے جننے والی مشین یا کمپرومائز کرنے والے ایک بے جان سے پرزے کی حد تک ہی ہے؟ اگر مردوں کو مختلف خواتین میں دلچسپی ہو سکتی ہے تو کیا خاتون کو نہیں ہو سکتی؟ اگر دونوں ہی انسان ہیں تو پھر عزت و آبرو یا عصمت و طہارت کی ننگی تلوار صرف خاتون پر ہی کیوں تنی رہتی ہے؟ اگر مرد اپنا پہلا معاہدہ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کر کے توڑتا ہے تو خواتین کو پاکدامنی کے لیکچر کیسے دے سکتا ہے؟ کیا عصمت و طہارت یا پاکیزگی کی ذمہ داری کا پالن کرنا صرف خاتون پر لازم ہوتا ہے یا مرد پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

جنسی تسکین، فینٹسی یا پیار بھرے لمحات سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کی خواہش مرد اور خاتون دونوں کی ہوتی ہے ان میں جینڈر کی بنیاد پر کوئی تخصیص نہیں کی جا سکتی، انسانی جذبات و احساسات ایک سے ہوتے ہیں اور دو انسان مل کر ہی یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

اس لیے انسان ہونے کی حیثیت سے دونوں پر ایک سے اصول ہی اپلائی ہوں گے، اگر خاتون سے وفا کا تقاضا ہے تو مرد کو بھی وفادار بننا ہو گا، اگر مرد چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اسی کے بستر کی حد تک رہے تو پھر اسے بھی خود اپنے بستر تک ہی رہنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments