چترال رنگ کیوں بدلتا ہے؟
سال کا پہلا سورج طلوع ہوا تو چترال راتوں رات رنگ بدل چکا تھا۔ سردی کی خشک راتوں سے تنگ لوگ صبح اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چترال برف کی سفید چادر اوڑھ چکا ہے اور برف کے مزید گولے آسمان سے اتر رہے ہیں۔ جو لوگ چترال سے باہر ہیں وہ خوش ہیں، جو ملک سے باہر ہیں وہ اسے نئے سال کا تحفہ سمجھتے ہیں اور جو چترال میں اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں وہ بھی ”فی الحال“ مطمئن ہیں۔ برف میں خوشی اور سکون ڈھونڈنے والے یہ لوگ جلد ہی اس سب سے اکتا جائیں گے۔ لوگوں کی مصیبتوں اور تکلیفوں کو رومانوی رنگ دینے والے یہ نوجوان سردی بڑھے گی تو شہروں کو لَوٹ جائیں گے اور چترال پھر اکیلا رہ جائے گا۔
چاندی کا یہ موسم ڈھل جائے گا تو چترال ہریالی کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ پھر رنگ برنگے پھل اور پھول چترال کو دھنک کے رنگوں میں ڈھال دیں گے۔ نیلے، پیلے، سرخ، سفید، سیاہ، سبز، سرمئی، سنہری، گلابی، جامنی اور نارنگی رنگ میں رنگے چترال کو دیکھ کر لگے گا جیسے قدرت یہاں ہولی کھیل رہی ہو۔ پھلوں اور پھولوں کا یہ رنگین موسم اپنی عمر گزار لے تو چترال دبے پاؤں خزاں میں داخل ہو جائے گا اور سونے میں نہا کر نکلے گا۔ سونے کا رنگ پھیکا پڑنے لگے تو آسمان سے پھر برف گرے گی اور ہندو کش کے دامن میں پھیلی یہ دل کش زمین پھر دودھ کے رنگ میں رنگ جائے گی۔ یوں چترال سال بھر رنگ بدلتا رہتا ہے۔ لوگ رنگ بدلتے ہیں تو دل سے اتر جاتے ہیں، چترال رنگ بدلتا ہے تو اور دل میں اتر جاتا ہے۔
میں نے اس بارے میں سوچنا چاہا تو پہلی دفعہ مجھے چترال کی تنہائی کا احساس ستانے لگا۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ میرا چترال بہت اکیلا ہے۔
چترال کو ہر اُس جان دار اور بے جان شے سے محبت ہے جو چترال نام کی اس دھرتی کو اپنا گھر سمجھتی ہے۔ چترال اُس بوڑھی ماں کی طرح ہے جس کے بچے جوان ہو کر بڑے شہروں میں جا بستے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں لوٹتے۔ اس ماں کی بوڑھی، درد بھری آنکھیں لواری ٹنل کو تکتی رہ جاتی ہیں۔
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقان سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب اس کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
(احمد سلمان)
ابھی سردی کا موسم ہے۔ طالب علم ٹیوشن کے لئے، بچے مستی کے لئے، نوجوان کام دھندے کے لئے اور بوڑھے علاج کے لئے شہروں کا رخ کریں گے۔ چند مائیں رہ جائیں گی جن کی گائیں، بیل، بکریاں اور گرہستی کے کام انھیں شہر آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بھلا اس مکان کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے جسے گھر بنانے میں انسان کی پوری زندگی لگی ہو۔ کچھ ان ماؤں کے شوہر بھی پیچھے رہ جاتے ہیں جن کی گاؤں میں دکانیں ہیں یا بچے اتنے امیر نہیں کہ شہر میں کرائے کا مکان لے سکیں۔ کچھ بڈھے بڈھیاں اس سردی میں خاموشی سے مر بھی جاتے ہیں۔ انھیں دفنانے والے لوگ کم ہوں گے۔ قبر کھودنے کے لئے جوان بھی کم پڑ جائیں گے۔ چترال پھر اکیلا رہ جائے گا۔
گرمی آئے گی تو لوگ بھی واپس آئیں گے ؛ جیسے درخت کے سبز پتوں کے ساتھ پرندے بھی واپس آ جاتے ہیں۔ شاید یہی سوچ کر چترال ایک اور بار رنگ بدل دیتا ہے۔
تم شجر کو ذرا دلاسا دو
میں پرندے بُلا کے لاتا ہوں
(ارشاد احمد نیازی)
برف آہستہ آہستہ پگھلنے لگتی ہے اور ہر سفید چیز ہرے رنگ میں بدل جاتی ہے۔ بچے واپس آتے ہیں تو گاؤں کی رونق بڑھتی ہے۔ کھیل کود اور سکول کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جوان واپس آتے ہیں تو نئے گھر اور نئے رشتے بنتے ہیں، شادیاں ہوتی ہیں، بچے پیدا ہوتے ہیں اور ہر طرف شہنائی کی آواز گونجتی ہے۔ بوڑھے واپس آتے ہیں تو لوگ انھیں دیکھنے جاتے ہیں کہ ان میں اور کتنی سردیاں جھیلنے کی طاقت موجود ہے۔ بیمار واپس آتے ہیں تو گاؤں کی عورتیں ان کی عیادت کو جاتی ہیں تاکہ واپس آ کر ان کی بیماری کے بارے میں تجزیہ کر کے اور اپنی بیماریوں کا ان کی بیماریوں کے ساتھ موازنہ کر کے دو آنسو رو سکیں۔ سردیوں میں مرنے والوں کی قبریں اور ان کے گھر ایک بار پھر آباد ہو جاتے ہیں اور گاؤں کی عورتوں کو رونے کے لئے ایک اور موقع مل جاتا ہے۔ (شاید وہ مرحومین کی موت کے بہانے اپنے ہی دکھوں کے لئے روتی ہوں گی۔ کاش ہم مَردوں نے اپنے لیے بھی رونے کی کچھ گنجائش رکھی ہوتی) ۔
بہار کے آغاز میں گھاس دوبارہ اگتا ہے اور پھول دوبارہ کِھلتے ہیں تو ان میں اپنا رزق تلاش کرنے کے لئے کیڑے مکوڑے بھی اپنی لمبی نیند چھوڑ کر دوڑے چلے آتے ہیں۔ ان کیڑوں سے اپنا پیٹ بھرنے پرندے بھی چترال کا رخ کرتے ہیں۔ یہ پرندے بھی اپنے سے بڑے پرندوں کا شکار بنتے ہیں اور بڑے پرندے خود بھی لومڑیوں اور گیدڑوں کا پیٹ بھرتے ہیں اور ان جنگلی درندوں سے اپنی مال مویشی بچانے کے لئے لوگ یہاں وہاں پھرتے رہتے ہیں۔ یوں چترال کی ساری رونق گھاس کے چند ہرے تنکوں سے جڑی رہتی ہے۔
گرمی کے یہ تین چار مہینے چترال کو چترالیوں کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں۔ لیکن پھر گرمی کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی لوگ ایک کے بعد ایک، واپس شہروں کی طرف کوچ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ طالبعلم اور ملازمت پیشہ افراد چترال سے ایک بار پھر دور ہو جاتے ہیں۔ پہلے صرف مَردوں کی دوری کا درد تھا، اب نوجوان عورتوں کی جدائی کا دکھ بھی چترال کے دل میں جڑ پکڑ چکا ہے۔
مگر یہ دکھ صرف چترال کا نہیں ہے۔ کوئٹہ میں اتنے بلوچ نہیں بستے ہیں جتنے بلوچ کراچی میں آباد ہو چکے ہیں۔ پشتون بھی پشاور اور کابل سے زیادہ کراچی کو اپنا گھر بنا چکے ہیں۔ شاید ایک دن آئے گا جب چترالی بھی چترال سے زیادہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں آباد ہوں گے۔ شاید چترال اور کوئٹہ جیسے علاقے آپس میں باتیں کرتے ہوں گے اور اپنے بچوں کی دوری کا ماتم مناتے ہوں گے۔
ہم کو روزی کھینچ لائی شہر کے صحراؤں میں
پھول، تتلی ایک لڑکی رہ گئے سب گاؤں میں
جا چکوں کو واپس بلانے اور موجودہ افراد کو جانے سے روکنے کے لئے چترال ایک اور بار رنگ بدل دیتا ہے۔ گرمی کی اس ہریالی سے جب لوگ اندر ہی اندر اکتانا شروع کر دیتے ہیں تو چترال سونے کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور ہر چیز سنہری معلوم ہونے لگتی ہے۔ سوشل میڈیا پر چترال اور چترالی پھر سے جڑ جاتے ہیں اور کچھ لوگ واقعی اس نئے رنگ میں رنگے چترال کو دیکھنے دور دور سے چلے آتے ہیں۔ پھر لوگ جب پیلے رنگ سے تنگ آنے لگتے ہیں تو چترال ایک بار پھر برف کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ کچھ اوباش پھر کھینچے چلے جاتے ہیں۔ چترال اپنے بچوں کو اپنے پاس بلا کر چھوڑتا ہے اور وہ بچے جن کے دلوں میں شہر کی بے دلی کا زنگ نہیں لگا یا ان کے سر پر مجبوریوں کے سائے نہیں منڈلاتے وہ بُلانے پر چلے بھی جاتے ہیں۔
چترال سال بھر رنگ بدلتا رہتا ہے تاکہ اس کے بچے اُسے پوری طرح بھول نہ جائیں۔ اُس کے دکھ اور بھی ہیں ؛ موسمیاتی تبدیلی، گلوبلائیزیشن، غربت، نا رسائی اور تنہائی لیکن چترال کو جو دکھ کھائے جا رہا ہے وہ اس کے بچوں کی دوری کا دکھ ہے۔ چترال میں رہنا بے شک آسان نہیں ہے لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ جہاں گاؤں کی زندگی انسان کو باہر سے کھا جاتی ہے وہیں شہر کی زندگی بھی انسان کو اندر سے کھا رہی ہوتی ہے۔
گاؤں وہ درندہ ہے جو تن کو کھا جاتا ہے لیکن شہر وہ وحشی جو من کو کرید کر رکھ دیتا ہے۔ کاش گاؤں والوں کو بیرونی اور شہر والوں کو اندرونی سکون مل سکتا تو یہ دنیا کتنی خوبصورت ہوتی۔
- چترال رنگ کیوں بدلتا ہے؟ - 07/01/2025
- گورنمنٹ کالج کا ڈریس کوڈ اور ہمارا دوغلا پن - 07/09/2024
- گلوبلائزیشن اور چترال کے ثقافتی کھیل - 01/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).