خواتین کی بہتر زندگی: خواب سے حقیقت تک


پدرسری نظام نے دیگر استحصال، جنگ، آلودگی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، نشے، اور ناکام معاشروں کو جنم دیا۔ وہیں، معاشرے کی نصف آبادی، جو کہ خود معاشرے کا آدھا حصہ تھی، پس پشت دھکیل دی گئی۔ یہاں عورت کو جیتا جاگتا انسان تصور کرنا ایک اچنبھے کی بات سمجھی جانے لگی۔

کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی سب سے مہذب اور شعور یافتہ یونانی قوم کے تہذیبی زوال کے کئی محرکات کے ساتھ ساتھ نصف آبادی (عورت) کی ناگفتہ صورتحال اور انہیں قانونی، سیاسی، اور معاشرتی حقوق نہ دینا بھی میں شامل ہو سکتے ہیں۔

یورپ میں بھی سن 1800 میں صورتحال کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی۔ عورتوں کو سیاسی حقوق سمیت دیگر کئی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ عورتوں کی تعلیم اور دیگر حقوق کے سلسلے میں یورپ میں حقوقِ نسواں کی تنظیموں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یورپ میں تعلیمی اصلاحات اور سیاسی حقوق کی فراہمی میں سن 1868 سے 1918 تک کا عرصہ لگا۔

عورتوں میں امتیازی سلوک کی صورتحال برصغیر پاک و ہند میں اور بھی گمبھیر ہے، جبکہ ہندوستان میں مدر سری نظام کی باقیات ابھی بھی موجود ہیں۔ ان میں کیرالہ کی نائر برادری، میگھالیہ (خاسی، جینتیا، اور گارو قبائل) ، تریپورہ (ریانگ قبیلہ) ، اور آندھرا پردیش و کرناٹک (بودا قبائل) کے علاقے شامل ہیں لیکن پھر بھی ہندوستان میں پدرشاہی کی جڑیں گہری سے گہری ہوتی چلی گئیں، جس کی وجہ سے یہ خطہ آج تک زبوں حالی کا شکار ہے۔

صنفی امتیاز کی سب سے بڑی مثال ماضی میں برصغیر پاک و ہند میں شوہر کے مرنے کے بعد عورت کے ساتھ جل مرنے کی رسم تھی۔ معاشرتی اور پدرشاہی نظام کی اس رسم کو مذہب کا چولا پہنا کر عورتوں کی ذہن سازی کی گئی، تاکہ وہ ستی ہونے میں فخر محسوس کریں۔ یہ رسم اس معاشرے میں یہ اعلان تھی کہ شوہر کے مرنے کے بعد عورت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ تاریخ میں خوش قسمتی سے ستی کنڈ سے بچ نکلنے والی عورت کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی تھی۔

ستی کی رسم نہ صرف غلامی کی ایک بدترین شکل تھی بلکہ مردانہ معاشرے میں مردانہ جذبات کی تسکین کا ذریعہ بھی تھی۔ اس معاشرے میں مردوں کی یہ سوچ تھی کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری جوان سال بیوہ کا کسی اور شاہ یا راجہ کی باندی بن جانا ہماری عزت اور وقار کے منافی ہے۔ گویا اُس معاشرے میں عورت کو جینے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں لڑکیوں کی پیدائش باعثِ شرم سمجھی جاتی ہے۔ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دینا یا یتیم خانوں کے حوالے کر دینا، لڑکی کے حمل کو ضائع کروا دینا، یا بیٹیوں کی پیدائش پر بیوی کو طلاق دے دینا جیسے واقعات عام ہیں۔

ذرا سوچیے، جس معاشرے میں عورت کا جینا اور جسمانی نشو و نما کرنا اتنا مشکل عمل ہو، وہاں تعلیم کا حق لینا اور خود کو منوانا کتنا دشوار ہو گا۔ پاکستان اور ہندوستان میں تعلیم کے میدان میں واضح صنفی امتیاز نظر آتا ہے۔ اگرچہ بھارت میں اس سلسلے میں کافی عملی اقدامات کیے گئے ہیں، جس سے صورتحال قدرے بہتر ہے، لیکن پھر بھی عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعلیم کی شرح زیادہ ہے۔

ایسے معاشرے میں، جہاں عورت کا جینا سزا ہو، وہاں عورت کو بہتر جسمانی صحت تک رسائی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ لڑکیوں کی خوراک پر لڑکوں کے مقابلے میں کم توجہ دینا، اور مادہ بچی کو کم خوراک فراہم کرنا ان کی جسمانی زندگی کے لیے بے پناہ مسائل پیدا کرتا ہے۔ ایک صحت مند مادہ یا نر بچہ اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب پیدا کرنے والی اچھی صحت کی حامل ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے میں گائے، بھینس، اور بکری کی خوراک پر عورت کے مقابلے میں زیادہ توجہ دی جاتی رہی

دیہی علاقوں میں یہ صورتحال اور بھی ابتر ہے۔ قدامت پسند سوچ، کم عمری کی شادیاں، حفاظتی خدشات، اور اساتذہ کی کمی عورتوں کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ مرد کو معاشی وسیلہ سمجھنا اور اسے تعلیم کا زیادہ حق دینا یہاں کی خاص روایتیں ہیں۔ پدرشاہی نظام کی گہری جڑیں خواتین کو ان کی خداداد صلاحیتوں اور تعلیم سے محروم کرنے کی ذمہ دار ہیں۔

تعلیمی حقوق سے ہی عورتوں کے دیگر حقوق، جن میں سیاسی، معاشرتی، اور معاشی حقوق مشروط ہیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود اور معاشرے کی نصف آبادی کو ترقی کے دھارے میں شامل کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ان کی زندگی اور دیگر حقوق کی حفاظت کرنا ہوگی۔ حکومتی اور عوامی سطح پر شعور پیدا کرنے کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد ضروری ہے۔

مختلف این جی اوز اور حکومت کو مل کر شہری اور دیہی کمیونٹیز کو شامل کرنا ہو گا اور اس مقصد کے حصول میں درپیش چیلنجز اور مسائل کے حل کے لیے تعاون کرنا ہو گا۔ خواتین کی تعلیم سے متعلق قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے۔ دیہی کمیونٹیز کے قریب اسکولوں کی تعمیر، خواتین اساتذہ کی بھرتی، لڑکیوں کے لیے اسکالرشپ پروگرام، اور ان کے والدین کی معاشی معاونت کو یقینی بنایا جائے۔

اگر حکومتی اور عوامی سطح پر اس طرح کی کوششیں مستقل اور نیک نیتی سے کی جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم نصف آبادی کو بہتر تعلیم، بہتر زندگی، اور بہتر حقوق دے سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments