ہنزہ میں بجلی کا بحران اور دھرنا


بجلی موجودہ دور کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ روشنی فراہم کرنے سے لے کر آلات چلانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، لین دین، صحت کی سہولیات اور تعلیم تک رسائی جیسے ہر اہم پہلو بجلی پر منحصر ہیں۔ بجلی کے بغیر زندگی کا تصور آج تقریباً ناممکن ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے انسانی بنیادی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔

ہنزہ کے عوام اس وقت روزانہ 22 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے کاروبار زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق، ہنزہ کے عوام شدید سردی کے باوجود احتجاج پر مجبور ہیں۔ مرد، خواتین، بزرگ اور بچے کئی دنوں سے سخت سردی میں دھرنا دیے ہوئے ہیں اور بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہنزہ میں اس وقت درجہ حرارت منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر چکا ہے، لیکن عوام کا عزم ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔

یہ مسئلہ صرف ہنزہ تک محدود نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں، بشمول گلگت شہر، میں بھی عوام کو بجلی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس بحران نے علاقے کے لوگوں کی زندگی کے کئی پہلوؤں کو متاثر کیا ہے، جن میں گھریلو زندگی، کاروبار، صحت، تعلیم اور مواصلات شامل ہیں۔

بجلی کی کمی کے باعث پورا علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ لوگ برقی آلات استعمال نہ کر پانے کی وجہ سے غار کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سردیوں میں ایندھن کی قلت کو پورا کرنے کے لیے درخت کاٹے جا رہے ہیں، جس سے ماحولیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ لکڑی جلانے سے اٹھنے والا دھواں ماحول کو آلودہ کر رہا ہے، جو پہاڑی علاقے میں آسانی سے تحلیل نہیں ہو پاتا۔ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں، وہ گیس سلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں، لیکن یہ بھی معاشی بوجھ کے ساتھ صحت کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے، اور بعض اوقات جان لیوا حادثات کا سبب بن سکتا ہے۔

بجلی کی قلت نے ہوٹل مالکان اور دیگر کاروباری افراد کو جنریٹر استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جو نہ صرف مالی نقصان کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔ جنریٹرز کے اور دھوئیں سے فضائی آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔ پہاڑی علاقے میں یہ آلودگی طویل عرصے تک برقرار رہتی ہے، جو ماحول کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔

آج کے دور میں کئی نوجوان فری لانسنگ کے ذریعے نہ صرف اپنا روزگار کما رہے ہیں بلکہ ملک کے لیے زرمبادلہ بھی لا رہے ہیں۔ تاہم، بجلی کی کمی کی وجہ سے ان کا کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ نہ صرف ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ بہت سے نوجوانوں کو بجلی کی قلت کیس وجہ سے سردیوں کے موسم میں دوسرے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جس سے انہیں مالی اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہنزہ اور گلگت بلتستان میں بجلی کے بحران کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب پیچیدہ ہے اور اس کا ذمہ دار ایک فرد یا ادارہ کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ پورا نظام اس کا ذمہ دار ہے۔ اس بحران کی ذمہ داری ماضی اور موجودہ حکومتوں کی بے حسی، محکمہ برقیات کی نا اہلی اور بدعنوانی، اور مقامی سیاسی رہنماؤں کی غفلت پر عائد ہوتی ہے۔

گلگت بلتستان قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ علاقہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور پانی کی وافر دستیابی کے باعث دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جو بے تحاشا بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ خطہ نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ اضافی بجلی برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔ لیکن آج یہ علاقہ ”چراغ تلے اندھیرا“ کی عملی مثال پیش کر رہا ہے۔

پاکستان کو محض زبانی دعووں جیسے ”گلگت بلتستان پاکستان کا سوئٹزرلینڈ ہے“ یا ”یہ پاکستان کا جھومر ہے“ سے آگے بڑھ کر اس خطے کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق اور ضروریات فراہم کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ بجلی بھی ان بنیادی حقوق میں شامل ہے، اور حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم مسئلے کو حل کرے۔

مشکل کی اس گھڑی میں ہم ہنزہ کے عوام کے ساتھ ہیں اور ان کی ہمت اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ اس یخ بستہ موسم میں اپنے حقوق کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ یہ قابلِ ستائش ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے پرامن اور پُرعزم احتجاج کر رہے ہیں۔

تاہم، افسوس کا مقام یہ ہے کہ قومی میڈیا اس سنگین مسئلے کو وہ توجہ نہیں دے رہا جس کا یہ مستحق ہے۔ میڈیا کا کردار عوام کی آواز کو بلند کرنا اور مسائل کو اربابِ اختیار تک پہنچانا ہوتا ہے، لیکن ہنزہ کے عوام کے اس احتجاج کو نظرانداز کرنا ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments