ایلون مسک کو برطانوی مسلمانوں سے کیا مسئلہ ہے؟


حاجی صاحب کا ریسٹورنٹ خوب چل نکلا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ آدھی رات گئے تک کھلا رہتا تھا۔ یعنی عین اس وقت جب گورے اپنے پب سے نکلتے اور کچھ چٹ پٹا کھانے کی خواہش کرتے۔ ایک رات ایک نوجوان لڑکی دکان میں داخل ہوئی اور ایک چکن برگر کا آرڈر دیا۔ حاجی صاحب نے برگر تیار کر کے کہا پانچ پاؤنڈ۔ لڑکی لرزتی آواز میں بولی 5 پاؤنڈ تو میرے پاس نہیں ہیں۔ حاجی صاحب نے برگر پیچھے کھینچتے ہوئے کہا پھر برگر بھی نہیں ملے گا۔

لڑکی آگے کو جھکی، اپنے بازو کاؤنٹر پر رکھے اور نشیلی آنکھوں سے بولی کیا ادائیگی کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے؟ حاجی صاحب تھوڑا سٹپٹائے، تھوڑا گھبرائے، کن انکھیوں سے لڑکی کا ایکسرے کیا جو چہرے سے لڑکپن مگر جسم کے ابھاروں سے جوانی کی دہلیز پر محسوس ہوئی۔ لڑکی نے اینی آدر وے پلیز۔ کہا تو اس کے منہ سے ووڈکا اور چرس کی ملی جلی بدبو نکلی۔

حاجی صاحب نے کپکپاتی آواز میں پوچھا۔ کک کک کیا مطلب ہے تمہارا؟ لڑکی کہنے لگی آئی ایم سٹارونگ۔ پلیز۔ اس کے بعد لڑکی نے انگریزی کی دو تین اصطلاحات استعمال کی جن میں ”جاب“ اور ”کنگ“ وغیرہ کے لاحقے شامل تھے۔ حاجی صاحب کا پسینہ چھوٹ گیا۔ یہ الفاظ تو انہوں نے کچھ خاص قسم کی فلموں میں ہی سنے تھے۔ حاجی صاحب نے لڑکی کو برگر دے دیا اور ایک خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اسے جانے دیا۔ پیسے بھی نہیں لئے۔ وہ بس کچھ ممنوعہ الفاظ سن کر ہی باغ باغ ہو گئے تھے۔

لیکن لڑکی اگلے دن پھر آ ٹپکی۔ برگر کے بعد پھر وہی آفر۔ آج لڑکی جان بوجھ کر بہت دیر سے آئی تھی۔ حاجی صاحب نے آج بھی برگر دیا۔ لیکن آج شٹر گرا دیا تھا۔ لڑکی اب باقاعدگی سے آنے لگی۔ کچھ دنوں بعد اپنی سہیلیاں بھی لانے لگی۔ حاجی صاحب فضاؤں میں اڑ رہے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ گوریاں ہم دیسیوں کو لفٹ نہیں کراتی لیکن یہاں تو نوخیز کلیاں پکے پھل کی طرح گر رہی ہیں۔

ایک دن حاجی صاحب نے اپنے دیگر دوستوں کی محفل میں یہ قصے مرچ مصالحہ لگا کر سنائے۔ ان کے دوست بھی ریسٹؤرنٹس اور ٹیک اوئے بزنس سے منسلک تھے۔ عبدل کہنے لگا حاجی صاحب ایسی آفر تو ہمیں بھی ملتی ہیں لیکن آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ سب کچی عمر کی بچیاں ہیں۔ اس عمر میں انہیں اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی۔ ان میں سے اکثر بچیاں وہ ہیں جو اپنی بری عادات اور خصلتوں کی وجہ سے گھر سے باہر رہتی ہیں، کچھ ان فیملیوں سے ہیں جو طلاق یافتہ جوڑوں کی ضد کی نشانیاں ہیں۔

کچھ وہ ہیں جنہیں بچپن سے ہی چرس، افیون اور ہیروئن کی لت لگی گئی ہے۔ حاجی صاحب یہ بالغ نہیں ہوتی۔ حاجی صاحب نے قاری صاحب کی طرف دیکھا۔ قاری صاحب نے فتوی ٰ دیا کہ بچیاں 10 گیارہ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں۔ بس فیصلہ ہوا کہ حاجی صاحب اس بہتی گنگا میں اشنان کرنے کا موقع اپنے دوستوں کو بھی دیں گے۔ حاجی صاحب نے ان بچیوں کو اپنے دوستوں کے ٹیک اووے اور ریسٹورنٹس کا بھی پتہ دینا شروع کر دیا اور بس پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔

چھوٹی چھوٹی بچیوں کو یہ ریسٹورنٹس والے کبھی برگر کے نام پر تو کبھی ووڈکا کی بوتل کے نام پر تو کبھی 40 پاؤنڈ کی رشوت کے نام پر ورغلانے لگے۔ انہیں ایک دوسرے کو بطور تحفہ پھرانے لگے۔ ان ہم نوالہ و ہم پیالہ معتبر شخصیات نے اس کام کو باقاعدہ منظم انداز میں کرنا شروع کر دیا۔ ایسے ریسٹورنٹس کو اہمیت دی گئی جن کی چھت پر ایک کمرہ بھی موجود ہوتا تھا۔ ایسی دوستی کی مثالیں قائم کی کہ اس نیک کام میں اپنے ٹیکسی ڈرائیور دوستوں کو بھی شامل کر لیا گیا۔

کسی کو خیال نہیں آیا کہ یہ بچیاں ہیں۔ شراب کی ایک بوتل کی لالچ میں وہ سب کچھ کر رہی ہیں جس کا انہیں خود بھی علم نہیں۔ ویسے بھی قاری صاحب کا کہنا تھا کہ ان گوروں نے ہی کانسینٹ کا اصول بنایا ہے۔ جب ایک عمل میں لڑکی کی مرضی شامل ہو گئی تو پھر جرم کیسا؟ اور ویسے بھی یہ کون سی مسلمانوں کی بچیاں ہیں۔ ان گوروں میں یہ سب عام سی بات ہے۔ کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی دنیا نے 1969 ء میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ 18 سال سے کم عمر والا بچہ یا بچی جسمانی طور پر بالغ ہو بھی جائے تو شعوری طور پر بالغ نہیں سمجھا جاتا۔ قانون کی نظر میں اس کی کانسینٹ اس کی مرضی اس کی سوچ ایک بالغ کی تصور نہیں کی جاتی۔

ہوس کے پجاریوں کی یہ تفریح 22 سال چلی۔ بچیاں اس استحصال کا شکار ہوتی رہیں کیونکہ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ عمل کتنا گندا کتنا مکروہ اور کتنا گھٹیا ہے۔ شراب، منشیات اور بھوک کا نشہ ان کی کچی عمر اور کچی عقل پر پردہ ڈالے ہوئے تھا۔ ہسپتال کی ایک ہیلتھ ورکر سارہ کو اندازہ ہوا اس نے پولیس کو اور سوشل سروسز کو آگاہ کیا۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، کوئی مدعی نہیں تھا کوئی گواہ نہیں تھا اور بچیوں کی بات پر کوئی یقین نہیں کرتا تھا۔

کیوں؟ کیونکہ اپنے حلیے، نشئی وضع قطع سے بھی یہ بچیاں مشکوک ہی لگتی تھیں۔ ان میں سے ایک کیس ایسا بھی تھا جس میں ایک 12 سال کی بچی کو ایک ہی دن میں کئی مردوں نے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک 13 سالہ بچی کو شراب کی ایک بوتل کے لالچ میں زبردستی جنسی عمل کا نشانہ بنایا گیا او راس کا منہ بند کروانے کے لئے 40 پاؤنڈ مزید رشوت دے دی گئی۔ ایک بچی کا کہنا تھا کہ اسے ایک گیند کی طرح استعمال کیا گیا اور اسے بیسیوں مردوں کے درمیان پھرایا گیا۔ ایک بچی نے 45 ایسے مردوں کے نام دیے جنہوں نے اسی جنسی عمل کا نشانہ بنایا۔ کسی کی عقل تسلیم ہی نہیں کرتی تھی کہ ان بے گھر، کمزور، معاشرے کی ستم ظریفی کا شکار بچیوں کے پنجر سے بھی کوئی لطف اندوز ہو سکتا ہے ضرور یہ جھوٹ ہی بولتی ہوں گی۔

2008 میں ایک متاثرہ بچی ڈی این اے کا ثبوت بھی لے آئی۔ دس مہینے انویسٹیگیشن چلی لیکن پھر یہ کیس بھی کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ پھر 2012 ء میں پہلی دفعہ برطانیہ کے شہر راچڈیل کو اس منظم جرم کی ہوا لگی جب 9 مجرموں کو سزا سنا گئی۔ پھر یہ عمل تعطل کا شکار ہوتا رہا۔ پولیس ڈرتی تھی کیونکہ اس میں پاکستانی مجرموں کی کافی تعداد تھی اور پولیس اپنے اوپر نسلی تعصب کا الزام نہیں لگوانا چاہتی تھی۔ خیر جرم کی تاریخ جتنی بھی لمبی ہو انجام ضرور ہوتا ہے آج کی تاریخ تک 42 مردوں کو مجموعی طور پر 432 سال کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ مجرموں نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ اس گرومنگ گینگ عمل میں گورے بھی ہیں اور کالے بھی لیکن انہیں سزا صرف پاکستانی ہونے کی تحت دی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو برطانیہ سے ملک بدر کرنے کا آرڈر بھی ہوا ہے لیکن مجرموں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پاکستانی شہریت چھوڑ چکے ہیں اور وہ اسی ملک میں رہنا چاہتے ہیں

یہ کیس جسے گرومنگ گینگ کا نام دیا گیا ہے حالیہ دنوں میں دوبارہ موضوع بحث بن گیا ہے جب ایکس کے مالک ایلون مسک نے برطانوی انتہا پسند سیاستدان ٹومی رابنسن کی کھل کر حمایت شروع کر دی ہے اور اسکی بنائی گئی ڈاکومنٹری سائلنسڈ کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ریلیز کیا ہے جس میں ان واقعات کو موضوع بنا کر برطانیہ میں موجود مسلمانوں کے خلاف نفرت ابھاری گئی ہے۔ ایلون مسک نے برطانوی وزیر اعظم کئیر اسٹارمر کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ سابق ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشنز رہ چکے ہیں ایلون مسک نے برطانوی نظام عدل پر انگلی اٹھائی ہے جس کے جواب میں برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ ان معاملات کی نگرانی کر چکے ہیں اور بچوں کے تحفظ کے قوانین کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کیس پر غفلت برتنے میں پولیس، والدین، سوشل سروسز اور بچوں کی فلاح کے تمام ادارے 22 سال تک ناکام رہے لیکن اس کا خمیازہ مسلمانوں اور پاکستانی مسلمانوں کو کئی سال تک بھگتنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments