غزہ کا انتظامی کنٹرول


Loading

غزہ کی صورتحال دہائیوں سے کشیدگی اور المیوں کا شکار رہی ہے اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد پیدا ہونے والے حالیہ متشدد واقعات نے اس خطے میں موجود سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اکتوبر 2024 کے وسط تک غزہ میں 46,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 1,200 سے زائد اسرائیلی بھی جان سے گئے ہیں۔ جنگ کے اختتام پر غزہ کی انتظامیہ کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہو گا؟ یہ سوال اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

یہ سوال محض سیاسی نہیں ہے بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیاں اور ان کے مستقبل کا سوال ہے، چاہے وہ فلسطینی ہوں یا اسرائیلی۔ ان کی امن، استحکام اور تحفظ کی امیدیں اسی سوال سے جڑی ہوئی ہیں۔ جیسے ہی دنیا اس جنگ کو دیکھ رہی ہے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس تنازع کا حل صرف فوجی نتائج پر نہیں بلکہ انتظامیہ کے حوالے سے اس نازک سوال پر منحصر ہو گا: جنگ کے بعد غزہ کا انتظام کون کرے گا؟

غزہ کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کی جڑیں 1967 کی چھ روزہ جنگ سے شروع ہوتی ہیں جب اسرائیل نے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنے فوجی واپس بلا کر وہاں سے اپنی فوجی موجودگی ختم کی لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طاقت کا خلا پیدا ہو گیا۔ 2006 میں حماس نے فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی) PA ( سے اس کی سیاسی کشمکش شروع ہو گئی۔

2007 میں حماس نے غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور تب سے غزہ حماس کے زیر انتظام ہے، جبکہ PA مغربی کنارے میں اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس سیاسی تقسیم نے وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرائی اختیار کی، حماس اور PA کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے اور اسرائیل کے غزہ پر محاصرے نے اس خطے کو مزید الگ کر دیا۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے اس تنازعے نے ایک نیا اور ہولناک رخ اختیار کر لیا۔ حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے نے بڑے پیمانے پر تباہی اور موت کی لہر دوڑائی، جس سے عالمی برادری میں خوف اور غم کی لہر دوڑ گئی۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں حماس کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے بھرپور فوجی کارروائی شروع کی۔ اس دوران غزہ کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔ ان کے گھروں کو تباہ کر دیا گیا۔ ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ گیا اور ہزاروں کی تعداد میں عام شہری بمباری سے ہلاک ہوئے۔

فلسطینی حکام کے مطابق، اکتوبر 2024 کے وسط تک غزہ میں 46,000 سے زائد افراد نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے۔ اس انسانی بحران نے عالمی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا اور بہت سے ممالک فوری جنگ بندی اور امن مذاکرات کی بحالی کی حمایت کرتے نظر آئے لیکن عالمی سطح پر جنگ کے انسانی اثرات پر توجہ مرکوز ہونے اور حالیہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود، سوال یہ ہے کہ غزہ کا انتظام جنگ کے خاتمے کے بعد کس کے ہاتھ میں ہو گا؟

اسرائیل کا جواب واضح ہے : وہ غزہ میں حماس کا کنٹرول برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسرائیلی حکومت بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ اس کی اولین ترجیح اپنی سرحدوں کی حفاظت اور یہ یقینی بنانا ہے کہ حماس یا کوئی بھی گروہ غزہ کو مستقبل میں اسرائیل پر حملوں کی بنیاد کے طور پر استعمال نہ کرے۔ اسرائیل نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ غزہ میں عبوری انتظامیہ قائم کرنے کا خواہاں ہے تاکہ کم از کم عارضی طور پر خطے میں استحکام قائم رکھا جا سکے۔ اس عبوری انتظامیہ میں فلسطینی اتھارٹی) PA ( کو عارضی طور پر غزہ کا کنٹرول سونپا جا سکتا ہے، جسے مغربی کنارے پر حکمرانی حاصل ہے۔ تاہم اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ حماس کو غزہ پر حکمرانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری جانب اسرائیل کو فلسطینی اتھارٹی کے بارے میں شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی، جو عالمی سطح پر فلسطینی عوام کی جائز حکومت سمجھی جاتی ہے، اسرائیل کے نزدیک غزہ کے انتظام میں موثر نہیں ہو سکتی۔ یہ بات خصوصاً اس لیے ہے کہ PA اور حماس کے درمیان شدید سیاسی اختلافات ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ PA غزہ کے انتظام میں ناکام رہی ہے اور اس کے پاس غزہ پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ PA کو 2007 میں حماس کے حملے کے بعد غزہ میں اہمیت حاصل نہیں ہوئی، اور آج بھی یہ ادارہ سیاسی اور ادارہ جاتی طور پر منقسم ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اسرائیل کا ماننا ہے کہ PA غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی، جب تک کہ دونوں فلسطینی گروپوں کے درمیان مفاہمت اور سیاسی اصلاحات نہ ہوں۔

حماس کے لیے یہ سوال کہ غزہ کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہو گا، اس کی بقا کا سوال ہے۔ حماس نے اپنے آپ کو غزہ کا جائز حکمران سمجھا ہے اور اس کے اقتدار کو کسی بھی چیلنج کو وہ اپنی سیاسی موت کے مترادف سمجھتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کی فوجی کارروائی نے حماس کو شدید کمزور کر دیا ہے، لیکن حماس نے اسرائیلی افواج کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ حماس کو یہ خوف ہے کہ اسرائیل اگر قیدیوں کی واپسی اور دیگر امن مذاکرات کے ذریعے غزہ میں مستقل فوجی موجودگی قائم کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے حماس کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ حماس کی مزاحمت محض فوجی حکمت عملی کا حصہ نہیں، بلکہ اس کا مقصد اپنے اقتدار کو بچانا اور اپنی سیاسی طاقت کو محفوظ رکھنا ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں غزہ کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے حکومت کا سوال صرف سیاسی نہیں، بلکہ غزہ کے شہریوں کی بقا کا معاملہ ہے۔ ہزاروں خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے، ان کے گھروں کو تباہ کیا جا چکا ہے، اور ان تک بنیادی ضروریات کی فراہمی مشکل ہو گئی ہے۔ غزہ کا صحت کا نظام، جو پہلے ہی محاصرے کی وجہ سے شدید دباؤ میں تھا، اب اس بحران کے دوران مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ ہسپتال زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے میں ناکام ہیں، اور غزہ شہر پورا کا پورا کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غزہ کے عوام اس جنگ کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا۔ ان کے لیے سوال یہ ہے کہ غزہ کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہو گا، یہ سیاسی وفاداری سے زیادہ ان کی حفاظت، امن اور اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا سوال ہے۔

جیسے جیسے عالمی سطح پر جنگ بندی اور امن معاہدے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں، غزہ کی حکمرانی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ امریکہ اور متحدہ عرب امارات جیسے کچھ علاقائی ممالک نے غزہ میں عبوری انتظامیہ کے قیام کی تجویز دی ہے تاکہ اس خطے میں عارضی طور پر استحکام قائم کیا جا سکے۔ تاہم، یہ تجویز کئی رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہے۔ حماس اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے، اور PA کی حمایت کے لیے ہونے والی کوششوں کو حماس اور غزہ کے بہت سے عوام کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہو گا جو PA کو غیر موثر اور کرپٹ سمجھتے ہیں۔

غزہ میں امن اور استحکام کا راستہ انتہائی پیچیدہ اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ اسرائیلی حکومت حماس کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتی ہے، فلسطینی اتھارٹی خود بھی تقسیم کا شکار ہے، اور حماس غزہ پر اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تاہم، غزہ میں انسانی بحران فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ سیاسی نتائج سے قطع نظر، غزہ کے عوام کو ایک ایسا مستقبل ملنا چاہیے جہاں وہ تشویش، تشدد اور خوف سے آزاد ہوں، جہاں ان کے بچے سکول جا سکیں، اور خاندان اپنے گھروں کی دوبارہ تعمیر کر سکیں۔ غزہ کی انتظامیہ کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہو گا، یہ سوال محض سیاسی نہیں، بلکہ ان کی بقا، امید اور امن کے لیے ہے۔ ایک ایسا امن جو اس خطے میں طویل عرصے سے ناپید ہے۔

ڈاکٹر محمد شعیب، چین
Latest posts by ڈاکٹر محمد شعیب، چین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments