عاشق حسین بٹالوی بنام مولانا غلام رسول مہر (2)


4  ۔کیا یہ صحیح ہے کہ شروع میں جناح نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ماﺅنٹ بیٹن ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کا مشترکہ گورنر جنرل ہو گا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو جناح نے بعد میں خود اپنے آپ کو اس منصب کے لیے کیوں پیش کر دیا؟

جناح کے پرستار کہتے ہیں کہ اسے ماﺅنٹ بیٹن سے حسن ظن نہیں رہا تھا اور اسے اندیشہ تھا کہ یہ شخص پاکستان سے انصاف نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس میری رائے ہے کہ جناح کے سامنے صرف اپنی ’بادشاہی‘ کا تصور تھا جو اس کی فطرت کی پستی اور اور اس کے ظرف کی تنگی کی ایک بدترین مثال ہے۔

5 ۔ کیا جناح واقعی اس فریب نفس میں مبتلا تھا کہ 15اگست 1947 ءکے بعد ہندوستان کی تمام بڑی بڑی ریاستیں آزادی و خودمختاری کا اعلان  کر دیں گی اور ہندوستان کی حکومت کو ان سے باقاعدہ جنگ کرنا پڑے گی؟ کیا اسی وہم کے ماتحت اس نے یہ رائے دی تھی کہ ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کرانے کا اختیار ریاست کے باشندوں کو نہیں بلکہ وہاں کے حکمران کو ہونا چاہیے؟

اگر جناح حقیقتاً اس فریب نفس میں مبتلا تھا تو اس کی کوتاہ نظری پر تعجب ہی نہیں بلکہ ماتم کرنا چاہیے۔ کوپ لینڈ اور بیوری نکسن جیسے انگریزوں نے جو یقینا مسلم لیگ کے حامی تھے ، 1944 ءسے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ ہندوستان کی ریاستیں بھی خودمختار نہیں رہ سکتیں۔ انہیں انجام کار اپنے آپ کو ہندوستان میں مدغم کرنا پڑے گا۔

6 ۔ اگر جون 1946 ءمیں جناح کیبنٹ مشن سکیم کو کلیتاً اور غیر مشروط طریقے سے رد کر دیتا تو کیا نتائج پیدا ہوتے؟

اس سوال کا جواب دیتے وقت آپ جون 1946 ءسے جون 1947 ءتک ایک سال کے واقعات کو تفصیلاً اپنے سامنے رکھیں۔

7 ۔ جناح نے جون 1946 ءمیں کیبنٹ مشن سکیم کو غیر مشروط طور پر کیوں قبول کیا حالانکہ وہ دہ ہفتے قبل وائسرائے کے نام ایک نجی مکتوب میں اس سکیم کی تمام خرابیاں بالتفصیل بیان کر چکا تھا؟

میری ناچیز رائے ہے کہ جناح کے سامنے اس سکیم کا صرف وہی حصہ تھا جس کا تعلق وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل سے تھا اور جس میں اسے (بزعم خود) کانگرس کے ساتھ مساوات عطا ہو رہی تھی۔ طویل المیعاد سکیم کی اسے قطعا ً پرواہ نہیں تھی۔ بقول شخصے وہ صرف سامنے طشتوں میں رکھی ہوئی مٹھائی کھانا چاہتا تھا۔ حلوائی کی دکان پر جو قسم قسم کی نعمتیں تیار ہو رہی تھیں اسے ان کی چنداں پرواہ نہ تھی۔ کانگرس نے طویل المیعاد سکیم کو قبول اور وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کو رد کر کے جناح کے پاﺅں کے نیچے سے زمین کھینچ لی اور وہ اناڑی پہلوان کی طرح اپنے ہی داﺅ کا شکار ہو کر چاروں شانے چت گر گیا۔

8 ۔ کیاجناح واقعی ”دو قوموں کے نظریے“ کے ماتحت پاکستان حاصل کرنے کا متمنی تھا؟

میری ناچیز رائے ہے کہ وہ اس نظریے کے ماتحت ہرگز پاکستان حاصل کرنے کا متمنی نہیں تھا اور نہ یو پی، بمبئی ، مدراس وغیرہ کے مسلمانوں کے لیے یہ مقصد تھا۔ خلیق الزماں، اسماعیل خان، چندریگر وغیرہ کی قسم کے مقدر آزما لوگوں کے لیے اور خود جناح کے پیش نظر یہ تجویز تھی کہ دو قوموں کا نظریہ ہندو اور انگریز سے تسلیم کرا کے یہ فائدہ اٹھایا جائے کہ ہر صوبے کی وزارت اور مرکزی حکومت میں صرف ان مسلمانوں کو شریک کیا جائے جن کو اسمبلی کے مسلمان ارکان کا اعتماد حاصل ہو۔ بات اصولی طور پر ٹھیک تھی لیکن جناح بدقسمتی سے خود اس دام میں پھنستا چلا گیا جو اس نے بڑی ہوشیاری سے غیروں کے لیے بچھایا تھا۔

9 ۔جناح کا یہ نعرہ تھا کہ ”ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان ایک قوم ہیں۔ ان کو اپنے لیے ایک قومی گھر (National Home ) چاہیے لہٰذا ہمیں پاکستان دیا جائے“۔ اگر جناح کو اس منطق کی صداقت پر اعتماد تھا تو اس نے دس کروڑ مسلمانوں کے رہنے کے لیے قومی گھر کیوں نہ بنایا؟

موجودہ پاکستان میں نو دس کروڑ انسان نہیں سما سکتے اور اگر اسے اس نعرے کی صداقت پر یقین نہیں تو اس نے اقلیت کے صوبوں سے مسلمانوں کو کیوں فریب میں مبتلا کیا؟

10 ۔ اگر مارچ 1947 ءمیں پنجاب میں فسادات نہ شروع ہوتے اور جہلم، راولپنڈی، اٹک ، سرگودھا جھنگ وغیرہ میں سکھوں کا صفایا نہ ہو جاتا اور سکھ مجبوراً (جو کل تک تقسیم پنجاب کے شدید مخالف تھے) خود پٹیل اور ماﺅنٹ بیٹن کے پاس جا کر تقسیم پنجاب کا مطالبہ نہ کرتے تو آئندہ ہندوستان کا نقشہ کیا ہوتا؟

11۔ اگر 1944 ءمیں ملک خضر حیات جناح کا مطالبہ مان لیتا اور یونینسٹ پارٹی اپنی انفرادی اور جداگانہ حیثیت ختم کر کے مسلم لیگ میں مدغم ہو جاتی اور 1946 ءکے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے تمام مسلمان ممبر بغیر کسی جھگڑے اور مقابلے کے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہو جاتے تو آئندہ صورت حال کیا ہوتی؟

اس سوال کا جواب دیتے وقت آپ اس حقیقت کو فراموش نہ کیجئے کہ مارچ 1946 ءسے پہلے پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے (سکندر بلدیو پیکٹ) اس وقت تارا سنگھ کی قیادت میں اکالی صرف کانگرس سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں اور سکھوں کا بگاڑ محض اس واقعہ سے شروع ہوا کہ خضر حیات نے مسلم لیگ کے علی الرغم وزارت بنا لی تھی اور سکھ اس میں شریک ہو گئے تھے۔ مسلم لیگ نے 1946 ءکے آخر میں خضر کی وزارت کو ہر ممکن اور ناممکن حربے سے توڑنا چاہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سکھ بھڑک اٹھے اور جب خضر نے مارچ 47 ءکے پہلے ہفتے میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تو تارا سنگھ نے برسرعام شمشیر بے نیام کو ہوا میں لہرا کر پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔

12 ۔ اگر پنجاب تقسیم نہ ہوتا تو کیا پاکستان معرض وجود میں آسکتا تھا ؟ کیا پنجاب کی تقسیم محض فسادات کا نتیجہ نہیں؟ کیا ان فسادات کی ذمہ داری ’بالواسطہ‘ مولانا ابوالکلام آزاد، میاں افتخار الدین اور ملک خضر حیات پر عائد نہیں ہوتی؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو موجودہ پاکستان کا بانی ہم جناح کو کیوں کر قرار دے سکتے ہیں حالانکہ جناح تو جون 1946 ءمیں کیبنٹ مشن سکیم مان کر متحدہ ہندوستان کو قبول کر چکا تھا؟

میری ناچیز رائے ہے کہ پاکستان کا قیام براہ راست پنجاب کے فسادات کا نتیجہ ہے ۔ عین جب فسادات جاری تھے جناح کراچی میں عبداللہ ہارون کے بنگلے پر آرام سے سگریٹ پر سگریٹ پئے جا رہا تھا۔ واقعات کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی اور اسے خود معلوم نہیں تھا کہ حوادث کا یہ شتر بے مہار کہاں جا کر رکے گا۔ یکایک کانگرس نے تقسیم پنجاب اور تقسیم بنگال کا فارمولا پیش کر دیا۔ مسلمانوں کے ہاتھ ان دونوں صوبوں میں خون سے رنگے ہوئے تھے اور (انگریزی محاورے کے مطابق) جناح کے آگے آگ کے شعلے تھے اور پیچھے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ وہ کہا ں جاتا؟ میری رائے ہے کہ جب ماﺅنٹ بیٹن نے کانگرس کی رضامندی سے جناح کو پاکستان پیش کیا اس وقت جناح قطعی طور پر شکست خوردہ انسان تھا۔ ذرا جون 1940 ء(شملہ کانفرنس) کے جناح کا مقابلہ جون 47 ءکے جناح سے تو کیجئے۔

13جولائی 1946 ءمیں جب جناح نے ویول کے ہاتھوں شکست کھا کر ڈائریکٹ ایکشن کا نعرہ بلند کیا تو ڈائریکٹ ایکشن سے اس کی کیا مراد تھی؟ کیا سہروردی نے ڈائریکٹ ایکشن کی آڑ لے کر جو کچھ کلکتہ میں کیا وہ جناح کے ایما سے ہوا تھا؟

خط طویل ہوتا جا رہا ہے لیکن میں اپنے دل کے خونچکاں گوشے آپ کے سامنے بے نقاب کر سکتا ہوں۔

سماعِ دُرد کشاں، صوفیاں چہ می دانند

ز شیوہ ہائے سَمندر، سپند را چہ خبر

آپ نے مختلف سیاسی موضوعوں پر انقلاب سے ہزاروں صفحے سیاہ کیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کسی روز معمولی سی فرصت میں ان استفسارات کا جواب باآسانی لکھ بھیجیں گے۔

میں نے پنجاب لٹریری لیگ کے سیکرٹری صاحب کو لکھ دیا تھا کہ وہ میرے بعض تاریخی مضامین کا مجموعہ شائع کرنے سے پہلے مسودہ آپ کو بھیج دیں تاکہ آپ ایک نظر دیکھ کر اور ضروری ترمیم و اصلاح کر کے کتاب پر ایک موزوں مقدمہ بھی لکھیں۔ خدا جانے وہ مسودہ آپ کے پاس پہنچا یا نہیں۔ یہ مضامین بہت مختصر ہیں اور محض چراغ حسن حسرت اور دوسرے احباب کے ارشاد کی تعمیل میں وقتا ً فوقتا ً اخبارات کے لیے جلدی میں لکھے گئے ہیں۔ ان میں خامیاں بھی ہیں جن کی اصلاح کا مجھے موقع نہیں ملا اور آپ اگر مقدمہ لکھیں تو بے شک اس چیز کا ذکر کر دیں۔ تاہم اگر آپ نے مسودہ ایک بار ملاحظہ فرما لیا تو مجھے یقین ہے کہ اس سے بہت سے نقائص رفع ہو جائیں گے۔

آپ آج کل کیا کر رہے ہیں۔ خانہ نشینی کے اوقات میں اضافہ ہو رہا ہے یا کچھ تخفیف بھی ہو گی؟ یقین کیجئے لاہور اپنی ذلت و رسوائی کے باوجود اکثر یاد آتا ہے۔ ریاض خیر آبادی کے ایک شعر میں کسی قدر تصرف کر کے یوں پڑھتا ہوں۔

وہ گلیاں یاد آتی ہیں جوانی جن میں کھوئی ہے

بڑی حسرت سے لب پہ قصہ لاہور آتا ہے (بڑی حسرت سے لب پہ ذکر گورکھپور آتا ہے)

خدا آپ کا حافظ و ناصر ہو اور اس کی مشیت آپ کی دستگیری کرے۔

عاشق حسین بٹالوی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).