کچن گارڈننگ: گھروں میں ٹھوس فضلے کا حل
پوش علاقوں میں بھی گزریں تو گھریلو کچرے کے شاپر گلیوں میں کتے، بلیوں کے ہاتھوں بھنبھوڑے نظر آتے ہیں یا پرندے ان میں سے کچھ نہ کچھ اپنی چونچوں میں پکڑے کھاتے، گراتے اڑ رہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ بڑے بڑے عموماً کھلے منہ والے کوڑے دان بھی کوڑے کی بدبو، مچھروں اور مکھیوں کا پسندیدہ ترین مسکن ہوتے ہیں۔ بلیاں الگ ان کے اوپر جھول رہی ہوتی ہیں یا ان کے اندر دعوت عام منا رہی ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ کوڑا اکٹھا کرنے کا ایک منظم نظام اور مخصوص عملہ ہوتا ہے۔ رہائشی جس کے بدلے ماہانہ ’سروس چارج‘ ادا کرتے ہیں۔
متوسط، کم آمدنی اور کم منصوبہ بندی والے رہائشی علاقوں میں تو حالات اس سے بھی ناقص ہوتے ہیں۔ سبزی، پھلوں کے چھلکے، گوشت کی ہڈیاں، گھروں کے مرکزی دروازوں کے باہر تب تک جانوروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جب تک کمیٹی والی گاڑیاں یا ذاتی سطح پر رکھا جانے والا کوڑا اکٹھا کرنے والا نہیں آ جاتا۔ جس کے لئے سارا دن میں کوئی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف گھروں میں آنے والی مددگار اپنے اوقات کار کے مطابق کوڑے کے ڈبے اور شاپر گلیوں میں رکھ جاتی ہیں، بھلے کوئی کب اٹھائے۔ مکین تو ویسے ہی اس ذمہ داری کو خلاف شان سمجھتے ہیں۔ انھی کالونیوں میں خالی پڑے پلاٹ بھی ساری کالونی میں گند پھینکنے کا مفت اور ’آل ٹائم‘ دستیاب موقع ہوتا ہے جس کے استعمال میں کسی کو کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔
اکیسویں صدی میں جب کہ دنیا تخلیق، جستجو، تکنیک، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت میں کیا کیا دعوے کر رہی ہے۔ ’پیڈ‘ کے علاوہ ’اوپن سورس‘ کی دھوم ہے۔ عالمی سطح پر کوڑے کو توانائی میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ نامیاتی کھادوں کو متعارف کرایا گیا ہے۔ پودوں کے لئے ڈی کمپوز ایبل برتن بنائے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ میٹرک کی ایک طالبہ نے اپنے استاد کے ساتھ مل کر مونگ پھلی کے چھلکوں کے گملے بنانا شروع کیے ہیں۔ ناریل کے خول اور برادے سے بھی ایسی ہی ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں۔
پچھلی صدی کے اختتام سے ہی کچرے کو ’ایٹ سورس‘ علیحدہ کرنے کے ایجنڈا پر کام ہو رہا ہے یعنی میڈیکل، نامیاتی، غیر نامیاتی کچرا استعمال کے وقت ہی تین مختلف (رنگ یا نشانوں کی بنیاد پر) کوڑا دانوں میں ڈالنا تاکہ بعد میں شیشہ اور زہریلا مواد، یا ایسی اشیاء جو زمین میں جا کر گل سڑ کر مٹی کا حصہ نہ بن سکیں وہ شروع سے ہی الگ ہوں۔ اور کھانے پینے سے متعلقہ اشیاء ’آرگینک کچن گارڈننگ‘ میں دوبارہ سے استعمال ہوں اور کچرے کی مقدار اس کے ماخذ پر ہی کم سے کم کی جا سکے۔ تو کیا ٹھوس فضلے یعنی سولڈ ویسٹ کا انتظام ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ابھی بھی ایک ’چیلنج‘ ہے؟ حالانکہ یہ کوئی اتنا بھی مشکل کام نہیں جس کے لئے ہمارے ہاں سنجیدگی ابھی بھی سوالیہ نشان ہے۔
اس کے لئے سب سے آسان حل اور نسخہ ’کچن گارڈننگ‘ یعنی گھریلو صارفین کی سطح پر سبزیوں، پھلوں، پھولوں اور پودوں کی باغبانی ہے۔ اس کا مطلب مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ:
’گھر کی سبزی، گھر کی کھاد
ٹھوس فضلے میں کمی، ٹھوس فضلے کا صحیح استعمال ’۔
اپنے گھروں کی کچی زمین پر سبزیاں، پھل لگائیں۔ بڑے قطر کے گملے بھی ایک آپشن ہو سکتے ہیں۔ کم جگہوں والی رہائشوں میں ’عمودی باغبانی‘ بھی عمدہ طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کالونیوں کے خالی پلاٹوں اور چوڑی سڑکوں کی درمیانی جگہ پر کم گہری جڑوں والی سبزی یا بیلیں لگائیں۔
اور سب سے اہم پہلو گھروں، دفتروں اور اداروں میں کم ازکم دو طرح کے کچرے دان رکھیں۔ جس کی ترتیب کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتی ہے :
نامیاتی اور غیر نامیاتی کچرا
سوکھا اور گیلا کچرا۔
نعمت خانے میں سبزیوں، پھلوں کے چھلکے، انڈے کے خول، چائے کی پتی، بادام، مونگ پھلی، اخروٹ کے چھلکے، پستے کے اوپری سخت پردہ، خراب، باسی کھانے، ٹشو، پھٹا دودھ، بچی چائے، قہوے، دھلے گوشت کا خون، باغیچے کے سوکھے پتے
سر سے اترے بال، ناخن سب نامیاتی مواد ہیں جو گرمی، سردی ہر موسم میں گھر کی نامیاتی کھاد اور ’لیکیویڈ مینیور‘ بنانے میں اکسیر ہیں۔ دواؤں پر مبنی مضر اسپرے اور کھادوں سے بچنے کا موثر راستہ۔ فضلے کی پیداوار میں کمی کی احسن کوشش۔
مزید برآں کہ جیسے اداروں میں مختلف سوسائٹیز ہوتی ہیں مثلاً میڈیا سوسائٹی، ادبی سوسائٹی، خون عطیہ کرنے والی سوسائٹی وغیرہ وغیرہ۔ تو تعلیمی اداروں میں دیگر سوسائٹیز کے ساتھ گارڈننگ سوسائٹی کا اجرا کیوں نہیں ہو سکتا؟ جس کا مقصد کچن گارڈننگ اور اس سے جڑے ٹھوس فضلے کے انتظام و استعمال کو فروغ دے۔
ویسے تو حکومتی دفاتر میں بھی اس تجویز کو نافذ کیا جاسکتا ہے جہاں خالی اور بے آباد زمین کے کئی حصے وافر موجود ہوتے ہیں۔ اور ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز‘ بھی اس سے منسلک ہو جائیں تو کیا بات؟
سوچئے، فوراً عمل کیجئے کیونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے۔
- کچن گارڈننگ: گھروں میں ٹھوس فضلے کا حل - 05/02/2025
- لڑکوں کو داماد بنتے ہی کیا ہو جاتا ہے؟ - 20/01/2025
- اپنا کمانے والیاں - 04/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).