بھکاریوں کے بھیس میں سرگرم مافیا


گداگری کیا ہے؟ سبھی جانتے ہیں کہ گدا گری یعنی بھیک مانگنا ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ اور نہایت نا پسندیدہ ترین برائی ہے۔ اب تو یہ حکومتی سطح پر بھی ایک بہت بڑا چیلنج اور توجہ طلب مسئلہ بن چکا ہے۔

پاکستان میں بھیک مانگنا 1958 ء کے ویگرنسی (Vagarancy) آرڈیننس کے تحت باقاعدہ ایک جرم ہے اور اس جرم کی سزا تین سال قید اور تقریباً تین لاکھ جرمانہ ہے۔

لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ایسے قوانین بن جانے کے بعد اور حکومتوں کی جانب سے سخت کارروائی کے اعلان کے بعد بھکاریوں کے یہ گروہ کہیں غائب ہو جاتے ہیں مگر جیسے ہی حالات کچھ نارمل ہوتے ہیں یہ لوگ پھر سے سڑکوں، فٹ پاتھوں، شاہراہوں، مزاروں اور مساجد کے باہر حتیٰ کے بس اسٹاپس پر بھی آن وارد ہوتے ہیں۔

گداگری وہ ذلت آمیز پیشہ ہے جو مانگنے والے کو دوسرے لوگوں کی نظر میں حقیر اور رزیل کر دیتا ہے۔ مانگنے والے کی معاشرے میں نہ کوئی عزت ہوتی ہے نہ ہی کوئی وقار باقی رہتا ہے۔

ہمارے دین میں بھی گدا گری جیسی برائی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ
”حقیر سے حقیر پیشہ اختیار کرنا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے زیادہ بہتر ہے“ ۔

اپنے ہاتھوں سے رزق کمانے کو اللّٰہ نے اپنے بندوں کے لئے بہت پسند کیا ہے۔ اپنے ہاتھ سے تھوڑا کما کر اس پر قناعت کرنا دوسرے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگنے کی ذلت سے زیادہ پسندیدہ اور احسن اقدام ہے۔

پاکستان میں جگہ جگہ یہ پیشہ ور بھکاری ”اللّٰہ کے نام پر دے بابا“ یا ”جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا“ جیسے روایتی اور متروک صداؤں کی جگہ اپنی مجبوری کی نئے انداز میں تشہیر کرتے اور جدید دور سے ہم آہنگ طریقے اپنائے بھیک مانگنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

بعض بھکاریوں سے جب میڈیا کی طرف سوال پوچھا جاتا ہے کہ حکومتی سطح پر اتنے سخت احکامات کے باوجود آپ قومی شاہراہوں اور ٹریفک سگنلز پر کھڑے ہو کر بھیک کیوں مانگتے ہیں؟ تو ان میں سے بیشتر پولیس پر ہی بھتے اور سہولت کاری کا الزام لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس کی اصلاح اور پرسش بھی اس ضمن میں بہت ضروری ہے۔

ہمارے ملک میں یوں تو مسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وسائل کی تقسیم کے ساتھ ہی پیارے وطن کو بہت سے مسائل بھی وراثت میں ملے جو یقیناً ہر نئی بننے والی ریاست کو عموماً در پیش ہوا کرتے ہیں، مگر بہادر، اور دیانت دار جمہوری رویے کو اپنانے والی سیاسی قیادتیں ہر اہم طبقہ فکر کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اور عوامی حمایت سے بہت جلد نہ صرف ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہیں بلکہ اپنے ملک و قوم کو ترقی و خوش حالی کی راہ بھی دکھاتی ہیں۔

اور جو سیاسی قیادتیں ”بڑے صاحب“ کی آشیرباد سے چور دروازوں کے ذریعے اقتدار پر براجمان رہیں اور شبانہ روز نئی نئی احمقانہ تاویلیں گھڑیں اور قرضوں کی بھیک پر ملکی معیشت کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں ان کا حال ہمارے ملک جیسا ہو جاتا ہے جہاں ستتر سال گزر جانے کے باوجود بھی ملک کی نازک صورت حال کبھی بھی مستحکم صورت حال میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔

جہاں ہر جلسے اور تقریر میں ایک وزیر اعظم یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ میں جہاں جاتا ہوں یہ سوچتا ہوں کہ وہ ممالک یہ نہ سمجھیں کہ میں ”مانگنے“ آیا ہوں (یہاں مراد عام بھیک نہیں بلکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے مانگی جانے والی امداد یا قرض کی بھیک ہے ) یعنی ہمارے ملک کے وزیراعظم کو اچھی طرح علم ہے کہ دنیا ہمیں بھکاری ہی سمجھتی ہے۔

شاید اسی لئے وزیر اعظم ایک ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ہمیں سمجھاتے دکھائی دیتے ہیں کہ ”بھکاریوں کے پاس اپنی کوئی چوائس نہیں ہوتی“ دوسرے الفاظ میں سوائے بھیک مانگنے کے ہمارے ملک کے پاس اپنی بقاء اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

گدا گری ایک جرم اور لعنت تو ہے ہی مگر اب بھکاریوں کا یہ گروہ زیادہ فعال اور منظم ہو کر باقاعدہ جرائم پیشہ افراد کا خطر ناک گینگ بن چکا ہے، جس کا مقصد نہ صرف بھیک مانگنا ہے بلکہ کئی ایک واقعات ایسے بھی ہیں جن میں یہ بھیک مانگنے کے بہانے گھروں کے اندر گھس جاتے ہیں اور مال لوٹنے کے ساتھ ساتھ ان کا بنیادی مقصد وہاں سے معصوم بچوں کا اغواء اور پھر انہیں اسمگل کرنا ہوتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 4 کروڑ لوگ بھیگ مانگتے ہیں یعنی 24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں تقریباً چار کروڑ لوگ بھیک مانگتے ہیں جن میں سے تقریباً 55 ٪خواتین 12 ٪ مرد اور باقی مانگنے والوں میں 23 ٪ بچے اور 6 ٪ غریب و مجبور افراد شامل ہیں۔

اور ان کی روزانہ کی آمدن 32 ارب روپے ہے اور سالانہ 42 ارب ڈالر کماتے ہیں اور ہمارا آئی ٹی سیکٹر سالانہ 3 ارب ڈالر کماتا ہے۔ یعنی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک آئی ٹی سیکٹر سے جتنا کماتے ہیں ہمارے یہاں کے بھکاری اتنی رقم لوگوں کی جیبوں سے مفت اڑا لیتے ہیں۔

معاشرے میں تیزی سے پھیلنے والے اس ناسور کو بڑھاوا دینے میں حکومت کے ساتھ ہم خود بھی کسی حد تک ذمہ دار ہیں۔ سڑکوں پر بھیک مانگنے والے پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جب ہم ان صحت مند پیشہ ور بھکاریوں ( بزرگ اور مستحقین کے علاوہ) کو بھیک کے نام پر جو رقم دیتے ہیں وہ ہماری جیب سے نکلنے اور ان کے کشکولِ گدائی میں جمع ہونے کے فوراً بعد بھکاریوں کی غیر قانونی آ مدنی میں شامل ہو جاتی ہے اور ان کی یہ کمائی جو وہ بھیک کی مد میں اپنے پاس اکٹھا کرتے ہیں سرکاری ٹیکس کے نظام کے تحت نہیں آتی اس لئے حکومت ایسی آمدن پر ٹیکس نہیں لگا پاتی، اس کے علاوہ بھکاریوں کی اکثریت غیر دستاویزی حیثیت میں ہوتی ہے یعنی ان کی کمائی کا کوئی ریکارڈ حکومت کے پاس موجود نہیں ہوتا اس لئے اس آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا حکومت کے لئے ممکن نہیں رہتا اس لئے شاید مجبوراً بھکاریوں کی نا جائز آمدن کے حصے کا ٹیکس بھی بے چارے غریب عوام کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔

گداگری چونکہ ایک سماجی برائی اور حکومتی مسئلہ ہے جو دن بدن گمبھیر ہوتا جا رہا ہے اور آج پاکستان میں یہ طبقہ باقاعدہ ایک مافیا کا روپ دھار چکا ہے۔ جس کا سامنا پاکستانیوں کو تقریباً ہر روز کرنا پڑتا ہے۔ ان بھکاریوں میں بہت سے شاید ایسے بھی ہوں جو واقعی معذور ہوں اور حقیقی معنوں میں اس طرح کی مالی معاونت کے مستحق بھی ہوں مگر زیادہ تر یہ معاشرے کے وہ بہروپیے ہیں جو کبھی معذوری کا ڈھونگ رچاتے ہیں تو کبھی کسی کی جعلی میڈیکل رپورٹس کا سہارا لیتے ہیں کبھی انہیں کسی دوسرے شہر تک جانے کی خاطر کرائے کی مد میں پیسے چاہیے ہوتے ہیں۔

کبھی گرین کلر کے لمبے چوغے اور گلے میں موٹے منکوں کی مالا ڈالے اور ہاتھوں میں لمبا سا عصا تھامے ہوتے ہیں، شاید ان کی جانب سے ایک رعب کی کیفیت پیدا کرنے کی یہ کوشش اس لئے کی جاتی ہے کہ اگلا بندہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں جیب سے پیسے نکال کر انہیں تھما دے اور اکثر ان کی یہ ترکیب کار گر بھی ثابت ہوتی ہے، بعد ازاں دینے والا خود کو کوستا دکھائی دیتا ہے کہ نہ جانے اس نے کیا منتر پڑھا میں نے سارا پرس ہی اس کے حوالے کر ڈالا۔

یہ مانگنے والے بہروپیے اپنے ملک کے روپوں کی روز بروز گرتی ہوئی قدر سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں اور اس لئے بہتر ”روزگار“ کے سلسلے میں زیادہ تر کشتیوں کے ذریعے خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اور بعض تو باقاعدہ عمرے کا ویزا لگوا کر سعودی عرب جاتے ہیں عمرے کی سعادت حاصل کر لینے کے بعد وہیں پر موجود زائرین کو ہی اپنا شکار بنا لیتے ہیں۔ بعد ازاں دھر لئے جانے پر ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں اور ملک کی بد نامی کا باعث بنتے ہیں۔

سعودی عرب اور عراق تو ایک تواتر سے حکومت پاکستان سے درخواست کرتے چلے آ رہے ہیں کہ خدارا اپنے ملک کے بھکاریوں کو سنبھالیں۔ لیکن پاکستانی بھکاریوں نے بھی ٹھان لی ہے کہ کرپشن کے حوالے سے پہلے ہی مشہور ملک کی عزت کو مزید پامال کر کے ہی دم لینا ہے۔ شاید ان بھکاریوں کے پاس بھی بھیک مانگنے کے سوا کوئی دوسرا آسان راستہ نہیں ہوتا جس پر چل کر وہ اپنے گھروں کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکیں۔ اس لئے وہ کسی صورت بھی بھیک مانگنا نہیں چھوڑ سکتے۔

شاید ان کے اندر بھی کہیں نہ کہیں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ میں مانگنے نہیں آیا مگر کیا کروں مجبوری ہے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے انسدادِ گداگری ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جس میں گدا گری کو نا قابل ضمانت جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ نئی تجاویز پیش کرنا زیادہ اہم نہیں ہے زیادہ اہم قانون کا درست اطلاق اور نفاذ ہی ہے جن پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہو کر ہی اس معاشرتی برائی کو جڑ سمیت ختم کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments