اعتماد کرنے کے مثبت اثرات


نومبر 2002 ء میں میں نے گورنمنٹ ہائی سکول 495 /EB میں بطور ہیڈماسٹر جائن کیا۔ جب میں سکول میں ٹیچر تھا تو ہر پاکستانی کی طرح میں اپنے ہیڈماسٹرز کے کاموں میں اکثر کیڑے نکالتا رہتا۔ مثلاً ہمارے سکول میں ایک اچھی ضخامت کی لائبریری تھی لیکن وہ لائبریری اور اس میں موجود کتابیں بچوں کی پہنچ سے باہر ہوا کرتی تھیں۔ حالاں کہ کتابیں بھی موجود تھیں ایک بڑا سا کمرہ بھی لائبریری کے طور پر استعمال میں رہتا تھا اور ایک لائبریری کلرک بھی موجود تھا۔ لیکن لائبریری کو فعال کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی تھی۔ حالاں کہ جب میں اسی سکول کا طالب علم تھا تو ہر ہفتے ہمارے دو یا تین پیریڈ باقاعدہ لائبریری کے ہوا کرتے تھے اور ہم ان پیریڈز میں لائبریری میں آ کر وہاں میزوں کے اوپر رکھے گئے اخبارات، رسائل اور چھوٹی چھوٹی کتابوں کا باقاعدہ مطالعہ کیا کرتے تھے اور اس زمانے میں ہمیں لائبریری سے کتاب ایشو کروانے کی سہولت بھی حاصل تھی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وطن عزیز کے دیگر شعبہ جات کی مانند یہاں بھی بتدریج زوال اور انحطاط آتا گیا۔

مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ ہم نے گزرے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں معکوس ترقی کی ہے اور یہی حال یہاں بھی تھا۔ جب میں اسی سکول میں ٹیچر بن کر آیا تو اس وقت تک سکول لائبریری میں جملہ ہائے کتب صرف دیمک کی خوراک بننے کے لیے الماریوں میں تالہ بند کر دی گئی تھیں۔ میں نے دو چار بار لائبریری کو فعال بنانے کی تجویز پیش بھی کی لیکن کتابوں کی گم شدگی کے پیش ِ نظر وہ صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی۔

بہرحال میں نے بطور ہیڈماسٹر جائن کیا تو میری ترجیحات میں سب سے پہلے تین کام کرنے والے تھے۔ پہلے نمبر پر میں چاہتا تھا کہ صبح اسمبلی میں تلاوت کے پروگرام میں قرآن مجید کو سورۃ فاتحہ سے شروع کر کے روزانہ اسی ترتیب سے ہی آگے بڑھایا جائے جو آٹھ دس آیات تلاوت کی جائیں اُن کا ترجمہ بھی بچوں کو بتایا جائے۔ بلکہ اگر کوئی تشریح طلب بات ہو تو اس کی تشریح بھی کر دی جائے۔ تلاوت اور ترجمہ تو طلباء کے ذمے ہی تھا۔ لیکن تشریح اور تفسیر کے لیے میں نے ایک عربی ٹیچر کی ڈیوٹی لگا دی اور اُسے خصوصی طور پر ہدایت کی اس نے صرف قرآن کی تفسیر بیان کرنی ہے۔ کسی مخصوص فرقے کی نہیں۔ لیکن ایک ہفتے کے بعد ہی مجھے اس کو روکنا پڑا اور میں نے صرف طالب علم کی تلاوت اور اس کے ترجمے تک ہی اس پروگرام کو محدود کر لیا اور یہ پروگرام اسی طرح آگے بڑھتا رہا۔

دوسرا کام یہ تھا کہ میں اسی سطح پر مختلف فرقوں کے درمیان عداوت اور منافرت کو کم کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے میں تقریباً روزانہ ہی پانچ چار منٹ کے لئے بچوں سے خطاب کیا کرتا اور اکثر و بیشتر باقی معاملات کے علاوہ اس پر بھی وعظ و تلقین کیا کرتا اور جس کے خاصے مثبت اثرات بھی سامنے آنے لگے۔ ہمارے یہاں پر شیعوں کی کافی تعداد تھی میرے ترغیب دینے پر ان بچوں نے ظہر کی نماز سکول میں ہی باقی لوگوں کے ساتھ ہی اپنے طریقے سے پڑھنا شروع کر دی۔ گو کہ مجھے اس معاملے میں کافی ڈرایا جاتا رہا۔ لیکن میں نے اس کام کو جاری رکھا۔

یہاں جائن کرنے کے دوسرے دن ہی میں نے لائبریری کا جائزہ لیا ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں کتابوں والی چار پانچ الماریاں پڑی ہوئی تھیں اور ایک کرسی اور میز رکھنے کے بعد جگہ ختم شد۔ میں نے الماریوں سے تمام کتابیں باہر نکلوائیں کچھ کتابوں کو دیمک لگنا شروع ہوئی تھی اور تھوڑی سی کتابیں ایسی بھی تھیں جنہیں دیمک نے کھا کر مٹی میں تبدیل کر دیا تھا۔ میں نے ان کی صفائی کروائی۔ ان پر دیمک مارنے کے لیے دوائی سپرے کی گئی۔ جہاں جلد بندی کی ضرورت تھی وہاں پر کتابوں کی جلدیں بھی سکول کے ملازموں کو ساتھ لگا کر بندھوا لیں۔ اس طرح اب یہ کتابیں بچوں کے پڑھنے کے لیے تیار تھیں۔ لیکن ہمارے یہاں پر مسئلہ یہ تھا کہ لائبریری کے لیے کلرک کی اسامی موجود نہیں تھی میں نے لیبارٹری اٹینڈنٹ کو بلوایا اور اُسے کہا کہ لائبریری کا چارج بھی تم ہی سنبھال لو۔ عام طور پر درجہ چہارم کے ملازم اپنے کام کے علاوہ دوسرا کام کرنا عار سمجھتے ہیں۔ لیکن مجھے کبھی بھی کہیں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ اس کی وضاحت کسی دوسرے آرٹیکل میں کرنے کی کوشش کروں گا۔

میں نے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ کل سے سکول گراؤنڈ کے سٹیج پر صفیں بچھا دینا اور ان صفوں کے اوپر سو کے قریب کتابیں لائنوں میں رکھ دینا۔ جماعت وار طالب علم یہاں آئیں گے اور ایک پیریڈ یہاں پر بیٹھ کر کتابیں پڑھیں گے اور پیریڈ ختم ہونے کے بعد کتابیں یہیں پر چھوڑ کر واپس اپنی کلاس میں چلے جائیں گے۔ اور نئی کلاس آ کر اُن کی جگہ لے لے گی۔ میں نے اسے ایک نصیحت بالکل خلاف معمول کی کہ تم نے یہاں اس طرح بے دھیانی سے بیٹھنا ہے کہ بچوں کو احساس ہو جائے کہ اُن کی نگرانی نہیں کی جا رہی ہے۔ اگر کوئی بچہ یہاں سے کتاب اٹھا کر لے جاتا ہوا تمہاری نظر میں آ بھی جائے تو تم نے اُسے بالکل کچھ نہیں کہنا بس مجھے بتا دینا ہے اور چھٹی کے بعد کتابوں کو گن کر اٹھا لینا ہے اور جتنی کتابیں کم ہوں انہیں نوٹ کر لینا ہے اور مجھے رپورٹ دے دینی ہے۔

حالاں کہ اس وقت سکول کے ٹائم ٹیبل میں لائبریری کا کوئی پیریڈ نہیں ہوا کرتا تھا۔ لیکن میں نے ادھر ادھر سے نکال کر ہر کلاس کے ہفتے میں دو دو پیریڈز لائبریری کے لگا دیے۔ اب بچے اپنے لائبریری کے پیریڈ میں سٹیج پر بچھی ہوئی صفوں پر آ کر بیٹھ جاتے پورا پیریڈ کتابیں پڑھتے اور پھر واپس کلاس میں چلے جاتے۔ ایک ہفتے کے بعد میں نے اپنے لائبریرین سے پوچھا کہ کتنی کتابیں گم ہوئی ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ کوئی بھی نہیں۔ حالاں کہ جب میں اُسے بے دھیانی سے بیٹھنے کی ہدایت جاری کر رہا تھا تو وہ بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھ رہا تھا کہ لوگ تو دھیان کے ساتھ کام کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ اچھا ہیڈ ماسٹر ہے کہ کہتا ہے کہ کام بے دھیانی سے کرنا ہے۔

ایک دو ہفتے اسی طرح گزرنے کے بعد میرے پاس دو بچے آئے کہ انہیں کتابیں ایشو کی جائیں۔ کیوں کہ وہ ایک پیریڈ میں پوری کتاب نہیں پڑھ سکتے میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں میں آج لائبریرین کو کہہ دوں گا آپ چھٹی کے بعد سٹیج پر ہی اس کے پاس آ کر کتابیں ایشو کروا لیں اور لائبریرین کو بھی اس سلسلے میں ہدایت جاری کر دی گئیں۔ اب چھٹی کے بعد کچھ بچے آتے وہ پڑھی ہوئی کتابیں واپس کر جاتے اور نئی ایشو کروا لیتے۔ یہ تعداد بھی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔

ایک دن چھٹی کے بعد اس سلسلے میں بچوں کی لگی ہوئی لمبی لائن کو دیکھ کر میں نے پروگرام تبدیل کر دیا۔ اگلے دن میں نے لائبریرین کو بلوایا اور اُسے کہا کہ ہر کلاس انچارج کو اس کی کلاس کے بچوں کی تعداد کے برابر گن کر کتابیں ایشو کر دو۔ ایک کلاس میں اگر پچاس سٹوڈنٹ ہیں تو اس کلاس کے انچارج کو پچاس کتابیں باقاعدہ ایشو کر دو اور اسے کہو کہ یہ کتابیں بچوں کو تقسیم کر دے۔ بلکہ انہیں یہ بھی ہدایت کر دو کہ وہ آپس میں کتابیں تبدیل کر کے پڑھتے رہیں اور ایک ماہ بعد وہ یہ کتابیں تمہیں واپس کر دے۔ اب لائبریرین کا کام کافی کم ہو گیا۔ لیکن سکول کے ہر طالب علم کے ہاتھ میں ایک ایک کتاب پڑھنے کے لیے موجود تھی۔

میرا قیام یہاں پر تقریباً اڑھائی سال رہا اور اس عرصہ کے دوران یہ چلتی پھرتی لائبریری کا پروگرام مسلسل جاری و ساری رہا۔ بلکہ اب بچوں میں کتابیں پڑھنے میں باقاعدہ دل چسپی پیدا ہو چکی تھی۔ جب میں یہاں سے واپس گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول بورے والا میں آ رہا تھا۔ تو میں نے لائبریرین سے کہا کہ تمام کتابیں اکٹھی کرو اور مجھے بتاؤ کہ اس عرصے میں کتنی کتابیں گم ہوئی ہیں۔ تو ان کی تعداد پانچ سات سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ بھی غالباً پھٹ کر ضائع ہوئی تھیں۔

اس سارے پروگرام کے پیچھے دو محرکات تھے۔ ایک تو میں سمجھتا تھا کہ بجائے اس کے دیمک کتابوں کو چٹ کر کے ختم کر دے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کتابیں کچھ بچوں کی نظروں سے گزر جائیں۔ اگر کوئی بچہ چوری کر کے بھی لے جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ تو پڑھے گا ہی اور اس کتاب کو جب تک وہ پھٹ نہیں جاتی۔ کئی بچے اور بھی پڑھ لیں گے۔ اس لیے کرم خوردہ کتاب سے تو اس کتاب کی افادیت کہیں بڑھ کر ہو گی اور دوسرا میرا خیال یہ تھا کہ اگر چھوٹے بچوں پر اعتماد کیا جائے بلکہ اُن کو اس بات کا احساس بھی دلا یا جائے کہ آپ پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ تو وہ آپ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اور میرا یہ خیال بھی یہاں پر سو فی صد درست ثابت ہوا۔

بلکہ اس کے بعد ایک بار جب میں ایم سی ہائی سکول میں ڈپٹی ہیڈ ماسٹر تھا۔ ایک الیکشن کے موقع پر تقریباً سارے ہی اساتذہ کرام کی الیکشن ڈیوٹی لگی ہوتی تھی۔ ایسے مواقع پر ہم لوگ عام طور پر سٹوڈنٹس کو چھٹی کر دیا کرتے تھے۔ لیکن میں نے اس بار صرف طالب علموں کی مدد سے سکول چلانے کا پروگرام بنایا۔ ایک دن پہلے ہر کلاس کے مانیٹر کو کلاس ٹیچر کا درجہ دے دیا گیا۔ پانچ سٹوڈنٹس کو پی ای ٹی کی ڈیوٹی سونپ دی گئی۔ اس دن مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ بچے ہم سے کہیں بہتر انداز میں سکول چلا رہے ہیں۔ پہلے دو پیریڈز میں کسی بھی کلاس سے باہر کوئی بچہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

کلاسوں کا وزٹ کیا تو مانیٹر بڑی ذمہ داری سے اپنی اپنی کلاسوں کو پڑھا رہے تھے اور بچے اچھے بچوں کی طرح بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ صرف ایک دن پہلے اسمبلی میں انہیں اس سلسلے میں بریفنگ دی گئی تھی اور ترغیب بھی اور انہوں نے بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سارے پروگرام کو بہت ہی خوبصورت اور احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ تین چار سال پہلے مجھے دوبئی سے گورنمنٹ ہائی سکول 495 /EB کے زمانے کے ایک اولڈ سٹوڈنٹ کا فون آیا۔ وہ بتا رہا تھا کہ آپ نے ہمیں سکول کے زمانے میں کورس کے علاوہ کتابیں پڑھنے کی جو عادت ڈالی تھی وہ آج بھی پورے شد و مد سے جاری و ساری ہے۔ بلکہ میری یہاں پر جاب بھی اسی مطالعے کی مرہون منت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments