پاکستانی خیمے میں عربی اونٹ


بالآخر حکومت نے اعلان کر دیا کہ فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب کی قیادت مین قائم 38 ملکی فوجی اتحاد کے سربراہ بنا کر سعودی عرب روانہ کئے جا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس ضمن مین سعودی حکومت نے باقاعدہ پاکستانی حکومت سے درخواست کی ہے جسے منظور کر لیا گیا ہے۔۔ دوسری طرف یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل صاحب کو حکومت کسی بین الاقوامی معاہدے کا پابند کیسے بنا سکتی ہے۔ یہ وضاحت بھی نہیں ہو سکی کہ یہ فوجی اتحاد کس کے خلاف قائم ہوا ہے اور یہ کہ کیا اس میں پاکستانی افواج بھی شریک ہوں گی۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے؟ یمن میں فوج بھیجنے کے خلاف قومی اسمبلی کی قرارداد اب کس حال میں ہے؟ سوالات کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اس کے جواب میں تین اصطلاحات کی گردان سنائی دے رہی ہے، برادر اسلامی ملک، (خدا معلوم آئینی طور پر اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے؟) ایک آوازہ یہ سنائی دیا ہے کہ یہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف قائم کیا جا رہا ہے؟ سبحان اللہ! گویا یہ تو طے ہو گیا کہ دہشت گردی کی مخالفت کا نعرہ بلند کیا جائے تو پھر کسی بحث کی گنجایش نہیں رہتی۔ ہم دنیا دار پاکستانیوں کے اطمینان کے لئے تو حرمین شریفین کی حفاظت کا اعلان ہی کافی ہے۔ ہم لوگ 1917 میں بھی حرمین شریفین کی حفاطت کرنے کے لئے برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ اس سے ہمیں غرض نہین ہوتی کہ حرمین شریفین کو کس سے خطرہ ہے اور کیوں؟

پاکستانی عوام کا عمومی سیاسی رویہ حقائق کی بجائے جذباتیت سے عبارت ہے۔ لیکن سعودی عرب کے بارے میں تو یہ جذباتیت مذہبی عقیدت کو جا پہنچتی ہے۔ حالانکہ اس تعلق کی تاریخ مذہبی رشتے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

سنہ انیس سو دس میں سلطنتِ عثمانیہ کے جنوب مشرقی کونے میں ایک لق و دق صحرا واقع تھا۔ خلیج فارس اور بحیرہ قلزم کے درمیان واقع اس خطے پر دو حکومتیں قائم تھیں۔ نجد کا حاکم ابنِ سعود انگریزوں کا حامی تھا جب کہ حجاز کا حکمران شریفِ مکہ عثمانی ترکوں کا اتحادی تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کو شکست ہوئی اورخلافت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ حجاز کے حاکم شریفِ مکہ کی کیا حیثیت تھی۔ حجاز پر ابنِ سعود نے قبضہ کر لیا۔

سنہ انیس سو بتیس میں حجاز اور نجد کو ملا کر سعودی عرب نامی ملک کا اعلان کر دیا گیا۔ اس مملکت کے قیام میں مقامی سمجھوتہ عبدالوہاب کے پیروکار مذہبی پیشواؤں سے تھا اور سیاسی سرپرستی برطانیہ بہادر کی تھی۔ سنہ انیس سو تینتیس میں ابنِ سعود نے امریکی کمپنی آرامکو کو ساٹھ برس کے لیے سعودی عرب میں تیل کی تلاش پر اجارہ داری سونپی۔ تفصیل کا یارا نہیں، عبدالعزیز ابنِ سعود کی شخصی اور سیاسی قامت جاننا ہو تو ونسٹن چرچل کی خود نوشت کے متعلقہ حصے پڑھ لیں۔

ہندوستانی مسلمان تحریک خلافت کی د±نیا میں بستے تھے۔ ترکی خلیفہ کے ساتھی شریفِ مکہ کی شکست پر بہت جزبز ہوئے۔ عبدالوہاب کے پیروکاروں نے مقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کر دیں تو بے چینی اور بڑھی۔ بالآخر خلافت کمیٹی کا ایک وفد حجاز روانہ کیا گیا۔ وفد میں دیگر افراد کے علاوہ نامور صحافی ظفر علی خاں بھی شامل تھے۔ جنہوں نے ارکانِ وفد کی مخالفت کے باوجود ابنِ سعود سے تنہائی میں ملاقات کی اور واپس آ کر خلافت وفد سے الگ رپورٹ پیش کی۔ دو جملے ملاحظہ ہوں۔ ’خالص دینی زاویہ نگاہ سے عبدالعزیز ابنِ سعود میرے نزدیک دنیائے اسلام کا بہترین فرد ہے۔ ۔ ۔ وہ ایک روشن ضمیر مدبر، الوالعزم جرنیل، خدا کا سپاہی، معاملہ فہم حکمران، پ±رجوش مذہبی مبلغ اور قوم کا سچا خادم ہے۔ ‘

اس رپورٹ کے بعد مسلمانانِ ہند میں پھوٹ پڑ گئی۔ خلافت کمیٹی اور مجلسِ احرار پنجاب کے راستے الگ ہوگئے۔ مولانا ظفر علی خاں نے نیلی پوش تنظیم بنا لی۔ مولانا داؤد غزنوی کے خانوادے کی آلِ سعود سے یاد اللہ کے ڈانڈے بھی اسی مناقشے سے ملتے ہیں۔

ابن سعود کی کھلی حمایت پر مؤرخ رئیس احمد جعفری کے مطابق، ظفر علی خاں کو بھاری معاوضہ ملا اور اسی رقم کی تقسیم پر جھگڑے میں مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک نے زمیندار سے الگ ہوکر سنہ انیس سو ستائیس میں ’روزنامہ انقلاب‘ نکالا تھا۔

سنہ انیس سو اڑتالیس میں سعودی عرب جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا۔ جیسے تھرپارکر میں جاگیردار مزارعوں سے مونچھ ٹیکس وصول کرتے ہیں، جدہ بندرگاہ پر حاجیوں سے چھ سو اسی روپیہ فی کس حج ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ سعودی عرب کی مسکین اور پسماندہ حکومت کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ یہی حج ٹیکس تھا۔ پچاس کی دہائی میں تیل کی آمدنی شروع ہوئی تو حج ٹیکس بھی ختم ہوا۔

سنہ انیس اکہتر میں پاکستان تقسیم ہو گیا۔ پٹ سن کی کھڑی فصل کو دسمبر انیس سو اکہتر کا پالا مار گیا۔ اب نہ بانس کے پتوں کی ٹوکری تھی، نہ بانس سے بنی ماچس۔ کاغذ کے ٹکڑے پہ موم جما کر گندھک کا بلبلہ رکھا جاتا تھا۔ کئی برس اس موم لگی تیلی سے روشنی کرتے رہے۔ تجارت کا خسارہ بڑھنے لگا۔

سرگودھا، پسنی اور سوات میں ماؤں کے بچے ابھی باقی تھے۔ یہی تجارت کی جنس ٹھہری۔ عرب کے صحراؤں میں تیل نکلنے سے دولت کا چشمہ پھوٹ بہا تھا۔ ہمارے میٹرک فیل ہزاروں کی تعداد میں کام آئے۔ پیسہ وافر، سیاسی حقوق صفر، قانون نامعلوم، محمد دین اور دین محمد دونوں خوش۔

سعودی عرب میں پاکستانی مزدوروں کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں سعودی عرب کی کھلی مداخلت بھی شروع ہوئی۔ شاہ فیصل کی سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ پاکستان سے آنے والے ہزاروں نیم تعلیم یافتہ اور صوفیوں کے ماننے والے مزدوروں کو درہم و دینار کے علاوہ سلفی نظامِ اسلام کی برکات مفت بانٹی جائیں۔

خدشہ یہ تھا کہ پاکستان میں تو عوام ووٹ کا حق مانگتے ہیں۔ وکیل بات بات پہ سڑکوں پہ آجاتے ہیں۔ صحافی سینہ تان کر حکومت مخالف اداریے لکھتا ہے۔ بچیاں یونیورسٹیوں میں تعلیم پاتی ہیں۔ عورتیں دفاتر میں کام کرتی اور سڑکوں پہ کار چلاتی ہیں۔ ایک بوڑھی عورت ایوب خاں کے مقابلے میں انتخاب لڑتی ہے۔ مال روڈ پہ سلطانہ پشاوری سرِشام رقص کناں ہوتی ہے۔ لاہور میں حبیب جالب نظم لکھتا ہے تو سکھر میں شیخ ایاز ظلم کرنے والوں کی خبر لیتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سستے پاکستانی مزدوروں کے ساتھ جمہوریت اور جدیدیت جیسی برائیاں بھی سعودی عرب میں چلی آئیں۔

پاکستان کا مسکین مزدور ٹھیک ہے لیکن پاکستان کا زندہ سیاسی ڈھانچہ اور کھلکھلاتا معاشرتی نظام درست نہیں۔ انہیں اٹنگے پاجامے، کترواں داڑھی، لٹکواں لبادے اور منکوحہ حجاب کی خوراک درکار ہے۔ یہ مرگِ مفاجات پاکستانی غریبوں نے جاپانی ٹیپ ریکارڈر اور کھجوروں کے ہمراہ برداشت کی۔

فروری سنہ انیس سو چوہتر میں لاہور کی اسلامی کانفرنس کا میلہ بنگلہ دیش تسلیم کرنے کے لیے سجایا گیا تھا۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات کا تقاضا تھا کہ پاکستان ’بنگلہ دیش نامنظور‘ کے بے معنی جھگڑے میں الجھنے کی بجائے مستقبل کی فکر کرے۔ چنانچہ کوئی پچپن ملکوں کے سربراہ پاکستان پہنچے۔ اسلامی دنیا کا راگ بار بار الاپا گیا۔ بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ، شالامار میں شیخ مجیب اور سٹیڈیم میں کرنل قذافی۔ اس بارات کا دولہا شاہ فیصل تھا۔ جمیل الدین عالی کے ترانے ایسے بلند آہنگ تھے کہ کسی نے پاکستانی خیمے میں گھستے عربی اونٹ کو دیکھا ہی نہیں۔

ہفت روزہ اکانومسٹ (تب ماہنامہ) نے فروری سنہ انیس سو چوہتر میں لکھا کہ ’سعودی عرب کے حکمران شاہ فیصل نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ احمدی فرقے کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ ‘ ربوہ کے ریلوے سٹیشن پہ نشتر میڈیکل کالج کے طابعلموں کا جھگڑا تو کہیں تین ماہ بعد مئی کے آخری ہفتے میں ہوا۔ خادمِ حرمین شریفین کا حکم واضح تھا۔ دستور میں دوسری ترمیم کے ذریعے پاکستانی ریاست نے احکامِ الٰہی کی تشریح کا بیڑہ ا±ٹھا لیا۔

سنہ انیس سو ستتر میں بھٹو صاحب کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک پاکستان کا داخلی سیاسی تنازعہ تھا۔ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں پاکستان کے داخلی سیاسی مکالمے میں ثالث بنایا۔ ریاض الخطیب کے اپنے ملک میں نہ حزبِ اقتدار نہ حزبِ اختلاف۔ بھٹو صاحب مذہب کے نام پر خطرناک کھیل کھیل رہے تھے۔

افغانستان میں روسی فوجیں ا±تر آئیں۔ ضیاءالحق معاملہ فہم تاجر تھا۔ طے پایا کہ امریکہ افغانستان کے بھاڑ میں جو ڈالر جھونکے گا، سعودی عرب اس میں برابر کا حصہ ڈالے گا۔ پاکستانی مذہبی مدرسوں کو افغان جہاد میں اہم کردار دیا گیا تھا۔ سعودی عرب نے موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنے پسندیدہ فرقے کو دل کھول کر پیسہ دیا۔ سنہ انیس سو ستتر میں پاکستان میں مذہبی مدرسوں کی تعداد پانچ سو سے کم تھی۔ آج پاکستان میں مدرسوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہے جن کی اکثریت اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔

ضیاءالحق کی موت کے بعد بےنظیر وزیر اعظم ہوئیں تو قدامت پسند سعودی حلقوں کی بے چینی قابل دید تھی۔ بےنظیر نے خود بیان کیا ہے کہ سنہ انیس سو نواسی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اسامہ بن لادن مالی اعانت کر رہے تھے، بلکہ اسامہ نے تو انہیں ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اسامہ کی سعودی حکومت سے مخاصمت تو پہلی خلیجی جنگ کے موقع پر شروع ہوئی۔ سنہ انیس سو نواسی میں تو وہ سعودی ہیرو تھے۔ اکتوبر انیس سو پچانوے میں بےنظیر کا تختہ الٹنے کی کوشش میں بھی عورت دشمن بین الاقوامی مذہبی حلقے ملوث تھے۔

سنہ انیس سو نوے سے دو ہزار دو تک پاکستان میں فرقہ ورانہ قتل وغارت میں محتاط اندازے کے مطابق پانچ سے چھ ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ باخبر حلقوں کے مطابق فرقہ وارانہ خونریزی کے اس کھیل میں شیعہ ایران اور سلفی سعودی عرب نے پاکستان کو میدانِ جنگ بنا رکھا تھا۔ یہ لڑائی گیارہ ستمبر دوہزار ایک کے واقعات کے بعد ہی دھیمی پڑ سکی۔ اس دوران پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے کل تین ملک تھے۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد پاکستان ہی نے اپنی پالیسی نہیں بدلی، سعودی حکومت نے بھی یہی کیا۔ مشرف حکومت اور نواز شریف میں معاہدہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا، لیکن قانون سے قطع نظر، اس میں نواز شریف بھی اتنے ہی ذمہ دار تھے جتنی پاکستانی اور سعودی حکومتیں۔ ان دنوں (دسمبر 2000 ) تو لاہور اور ملتان کے بازاروں میں ان کے حامی کھکھلا کر کہتے تھے کہ نواز شریف کو مدینے والے نے اپنے گھر بلایا ہے۔ تب سیاسی دباؤ سے نکلنے کے لیے سعودی عرب جانا نواز شریف کی مجبوری تھی۔ سوال یہ ہے کہ اب کون سا دباﺅ ہے اور حکومت کو ایسی کیا مجبوری آن پڑی ہے کہ پرانے جنرل صاحب کو اسی دیار روانہ کیا جا رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).