امید پرسش غم کس سے کیجیے ناصر
اداسی، تنہائی، یاسیت اور رات کا شاعر ناصر کاظمی اپنے کلام سے اردو ادب کا دامن بھر گیا۔ کسی بھی شاعر یا ادیب کے کلام میں اس کے عہد میں ہونے والی سرگرمیاں بھی تخلیق میں اپنی جھلک دکھاتی ہیں۔ تخلیق کار جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اور جو کچھ اس کے گرد و نواح میں وقوع پذیر ہوتا ہے وہ نہ صرف اس کی شخصیت بلکہ اس کے کلام پر بھی شدت سے اثر انداز ہوتا ہے۔ جن شاعروں نے ہجرت کا کرب سہا ان میں ایک ناصر کاظمی بھی ہیں۔
ناصر کاظمی کا شمار اردو ادب کے نامور شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ہجرت کا درد، دنیا کی بے اثباتی، نارسائی کا دکھ، یاد ماضی اور تنہائی جیسے کئی موضوعات ملتے ہیں جو ناصر کے عہد کی عکس کشی بھی کرتے ہیں۔ انبالہ کی گلیوں میں بچپن سے جوانی کے ایام طے کرتے ہوئے وہ نہیں جانتے تھے کہ ایک روز انہیں اس زمین کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا ہو گا۔ دو قوموں کی اس جنگ اور بٹوارے میں ناصر نے جب ہجرت کے مناظر دیکھے تو یہ دکھ ان کی شاعری کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ ہجرت کے اس عملی تجربے نے ناصر کاظمی کو ایک ایسے شاعر میں بدل دیا جو اس جدائی کے کرب سے دوچار تھا۔ ناصر کاظمی اپنے کلام میں لکھتے ہیں کہ
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار
راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ
تقسیم کا کرب جو ناصر کی شاعری کی شکل میں سامنے آیا یہ نجانے کتنے لوگوں کی آواز بن گیا جنہیں اپنی سر زمیں سے کوچ کرنا پڑا۔ زمین کے اس خطے کو جب دو حصوں میں بانٹا گیا تو فسادات اور خون خرابے کی جو داستان رقم ہوئی اس کی تاریخ پہلے کہیں درج نہ تھی۔ جو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ تو اگلے سفر پر روانہ ہو گئے لیکن زندہ رہ جانے والے بھی تقسیم اور فساد کے اثرات سے کبھی نہ نکل سکے۔ دکھ اور یاسیت ان کی زندگی کا ایک جزو لازم بن گئی جیسے ناصر کی شاعری میں نظر آتی ہے۔ ناصر خدا سے فریاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سناٹا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑا
ناصر ہجرت کر کے لاہور تو آ گئے مگر یاد ماضی کے عذاب سے کبھی چھٹکارا نہ حاصل کرسکے۔ ان کا جسم تقسیم کی سرحد کے ایک طرف اور دل دوسری جانب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ناصر کاظمی لاشعوری طور پر اپنے کلام میں یاد ماضی کو موضوع بناتا ہے۔
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصرؔ
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
ناصر نے اپنے احساسات کو جن لفظوں میں ڈھالا ہے ان میں رات کا استعارہ واضح طور پر ملتا ہے۔ رات کا استعارہ اداسی کے راگ سناتا ہے گویا جب پوری دنیا سو جاتی ہے تو اس کے دل کا درد شدت سے جاگ اٹھتا ہے۔ رات کی خاموشی اور سناٹا حساس لوگوں پر اور طرح سے وارد ہوتا ہے۔ جہاں دن بھر کی رونقیں اور سرگرمیاں تھم جاتی ہیں وہیں سے رات کا سکوت انسان کی ذات میں چھپے تلخ اور ان کہے جذبات کا انکشاف کرتا ہے۔ رات کی تاریکی کئی پرانے قصوں کی روداد سناتی ہے۔ کاظمی صاحب کا شعر ہے کہ
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ہرا ہے
ساری بستی سو گئی ناصرؔ
تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے
اپنے احوال دل کو تخلیق کا روپ دینے کے لیے ناصر کاظمی نے بہت سادہ اور آسان الفاظ کا چناؤ کیا ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد قاری شعر سے لطف اٹھتا ہے۔ چھوٹی بحروں سے کلام کی چاشنی مزید بڑھ جاتی ہے۔
پھر دل کی بساط الٹ نہ جائے
امید کی چال میں نہ آؤ
دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے
اب کسے رازداں کرے کوئی
شہر میں شور گھر میں تنہائی
دل کی باتیں کہاں کرے کوئی
مختصر یہ ہے کہ ناصر کاظمی اپنے عام فہم انداز میں اپنے ہی نہیں بلکہ کئی دیگر لوگوں کے احساسات کی آواز بن گیا۔ لاہور کی خاموش سٹرکیں آج بھی اس شاعر کے قدموں کی چاپ سننے کی منتظر ہوں گی۔ لیکن اس شاعر کے کلام کی گونج اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔
- کائنات اور خوابوں کے تعاقب میں لکھی کہانی ”الکیمسٹ“ - 28/03/2025
- امید پرسش غم کس سے کیجیے ناصر - 07/03/2025
- ناول ”اندھیرا خواب“ کا موضوعاتی تجزیہ - 04/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).