قدیم دور کی جدید محبت کی کہانی


(سعدیہ کامران)۔

آج پھر فضہ نیند سے جاگی تو بہت مضطرب تھی۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا ہوتا تھا کہ اس نے خواب دیکھا ہے یا واقعتاً اس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ یہ روز کا سلسلہ ہوچکا تھا کہ وہ اپنے شوہر عارف کے ساتھ بہت خوشگوار ماحول میں راز و نیاز کررہی ہوتی کہ اچانک اس کی نظر سامنے سے آتے اس کے شوہر ( عارف ) پر پڑتی اور وہ پریشانی کے عالم میں کبھی اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے عارف کو تو کبھی سامنے کھڑے عارف کو دیکھتی اور فیصلہ نہیں کرپاتی کہ اصل عارف کون ہے۔ جس کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے اس پر غور کرنے پر اس کو وہ عارف عجیب مفلوک الحال دیکھتا ہے جبکہ آنے والا عارف حالیہ اعتبار جیسا یعنی خوش حالی کی منہ بولتی تصویر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ آخر وہ نئے والے عارف کو اصل شوہر مان کر اس کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ تب اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

آج جب وہ اپنے گھر کے لان میں بیٹھی تھی تو اس کو وہی مانوس سی نظر اور خوشبو کا احساس ہوا جو اس کو گزشتہ بیس سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔ لیکن وہ نظروں اور خوشبو کی سمت کبھی پا نہیں سکی۔

آج پھر سے اسے وہی دو عارف والا خواب آیا لیکن ایک بات جو اس نے واضح محسوس کی وہ یہ کہ جب وہ آنے والے خوشحال عارف کے پاس جاتی ہے تو وہ بیٹھا ہوا مفلوک الحال عارف اس کو اسی مخصوص مانوس نظر سے دیکھ رہا تھا اور وہی مانوس خوشبو اس مفلوک الحال عارف سے پھوٹ رہی تھی۔

پنر جنم یا جنموں کا اسلام میں یوں تو کوئی سلسلہ نہیں لیکن روح کا سفر ایک انوکھا پن لئے اپنی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ہندو مت میں دو کردار رادھا اور شام گزرے ہیں اور ہندو کتابوں کے مطابق ہر دور ہر یگ میں جنمے جاتے ہیں شام ہمیشہ رادھا کے اردر گرد ہی رہا کرتا ہے لیکن رادھا کی بے قرار روح اس کو تلاشنے کے باوجود پہچان نہیں پاتی اپنا نہیں پاتی۔

اس ماڈرن یگ میں بھی رادھا اور کرشن کا میل ہوا پر سنگم ہوگا کہ نہیں۔ دونوں نہیں جانتے۔ اس ماڈرن دور کی ایجاد انٹرنیٹ پر اس جوڑے کی ملاقات ہوئی۔

Mirc پر سارا دن ساری رات گوری اور فل مون کی آئی ڈی سے بات کرنےوالے کچھ سال بعد رشتئہ msn میں منسلک ہوگئے رات رات بھر جاگنا باتیں کرنا ہر بات شیئر کرنا حتی کہ اس یگ کی حد درجہ بولڈ رادھا نے جس کا نام فضہ ہے اپنے اس کرشنا جس کا نام طارق ہے کو اپنی تصویر بھی ای میل کر دی۔ روح سے چاہنے والا طارق پوری طرح اس کی محبت میں ڈوب چکا تھا۔

ایک دن فضہ نے طارق کو بتایا کہ اس کی عارف سے منگنی ہورہی ہے۔ اور فضہ نے ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر ہر رشتہ طارق سے ختم کرلیا۔ اور بیچارے طارق کو تڑپنے کے لئے چھوڑدیا۔ طارق سے یہ بےوفائی سہی نا گئی اوراس نے بھاری مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کے اپنا ایکسیڈنٹ کرلیا۔ پر موت نے بھی طارق کو دھوکہ دے دیا اور وہ ٹوٹی پسلیوں اور ٹوٹے ہاتھ پاؤں کی وجہ سے تین سال تک بستر پر ایڑیاں رگڑتا رہا۔ اور ہر پل فضہ کو یاد کرتا۔ جبکہ بےخبر فضہ اپنی ذندگی میں مست رہی لیکن نیٹ پر مناظرے کی دیوانی فضہ کو جلد ہی طارق نے نئی آئی ڈی سے پھر پالیا لیکن اس سے اپنی اصلیت چھپائے رکھی۔ پھر فضہ پیا دیس سدھار گئی۔ عارف سے شادی کرکے فضہ کو ایک مکمل زندگی ملی لیکن وہ روح کے سکون سے خالی ہوگئی۔ اور سکون کی تلاش میں نئے نئے شوق پالتی رہی۔ گھر اور رشتے اس کو کاٹتے۔ آخر فضہ نے ڈپریشن کی شدت سے تنگ آکر دوبارہ نیٹ کا استعمال شروع کیا تب اس کی دوستی طارق سے ہوئی۔ تب اس کو پرانے طارق کی یاد ستاتی اور اس کے دل سے بار بار ہوک اٹھتی۔ وہ ایک بار طارق سے معافی مانگنا چاہتی تھی۔ ایک بات جو بہت تعجب خیز تھی کہ وہ جب طارق سے ویڈیو کال کرتی تو اس کی نظریں بہت مانوس لگتی جو اس کو روح کی گہرائی میں اترجانے والی نظروں سے دیکھ رہی ہوتی۔ جیسا کہ خواب میں اس کو محسوس ہوا کرتا تھا۔ کبھی فضہ جھنجلاجاتی اور پوچھتی کہ آخر تم کون ہو اور تمہارا احساس بہت مانوس سا کیوں ہے۔

آج پھر اس کو وہی دو عارف والا خواب آیا لیکن آج بہت انوکھی بات ہوئی جو پچھلے سترہ اٹھارہ برسوں میں نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ مفلوک الحال عارف کی شکل اس کے حالیہ نیٹ فرینڈ طارق کی تھی اور وہی نظریں اور وہی خوشبو جو فضہ کی روح کو معطر کردیا کرتی تھی۔ نیند سے جاگنے کے بعد فضہ بہت پریشان تھی۔ اور اسی پریشانی کے عالم میں یہ خواب اس نے طارق سے شیئر کیا۔ طارق تمام خواب اور فضہ کی بات دم بخود سن رہا تھا۔ تب طارق نے فضہ سے اس کا ماضی کریدا کہ کیا وہ عارف سے پہلے کسی کو چاہتی تھی۔ تب فضہ نے گڑگڑاتے ہوئے بتایا کہ وہ سچے من سے طارق کو چاہتی تھی لیکن اس کی ماں نے صاف لفظوں میں اس نیٹ کی محبت اور شادی کی مخالفت کی تھی اور وہ تب سے کرب مسلسل میں مبتلا ہے۔ اور معافی مانگنا چاہتی ہے۔ تب طارق نے اپنے والٹ میں لگی تصویر دیکھائی جس کو دیکھ کر فضہ کا لہو خشک ہوگیا اور وہ غش کھا گئی۔ کیونکہ وہ وہی تصویر کا پرنٹ آؤٹ تھا جو اس نے بیس سال قبل اس طارق کو ای میل کی تھی۔ تب اس کو معلوم ہوا کہ یہ نیا طارق اصل میں وہی پرانا طارق ہے۔ فضہ کا ماضی حال سب اس طارق کے سامنے تھا اور وہ اسی مانوس نظروں سے مفلوک الحال اس کے سامنے بیٹھا اس کو دیکھ رہا تھا اور اس کی ساری بربادی کی ذمہ دار صرف اور صرف وہ خود تھی۔ لیکن اعلیٰ ظرف طارق نے نا اس کو پہلے ہی کبھی الزام دیا تھا نا ہی اب دیا۔

فضہ جب سے طارق سے ملی ہے بہت پرسکون ہے اس کو خواب آنا بھی بند ہوچکے ہیں۔ فضہ جو عارف اور بچوں سے اپنے اعصابی تناؤ کی وجہ سے دور ہوگئی تھی اب ان کے قریب ہوگئی ہے۔ اور اب اس کو قدرت کی طرف سے صاف اشارہ ملا ہے کہ رادھا اور کرشن کا اس دھرتی پر میل ہوگیا ہے۔ اب یہ کبھی جدا نہیں ہوں گے موت بھی ان کو جدا نہیں کرپائے گی۔ رادھا اور شام صرف محبت کرنے اور ایک دوجے کا سہارا بننے کے لئے جنمے ہیں یہ روح کے ساتھی ہیں جسم ان کے لئے اب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کی ایک دوسرے کے لئے کبھی سفلی جسمانی خواہش نہیں رہی۔ لیکن اب رادھا کا وعدہ ہے کہ وہ اگلے جنم بھٹکے گی نہیں بلکہ شعور کے ساتھ پوری سچائی سے پوری وفا کے ساتھ شام کا انتظار کرے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم پزل میں پیدا ہوتے ہیں دو حصوں میں بٹے ہوتے ہیں ایک کو دوسرا مکمل کرتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رادھااور شام جگسا پزل ہیں اور ان کی زندگی میں اور بھی وجود ہیں جو ان کے ہی حصے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).