فلاحی ادارہ اخوت


کل اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں فلاحی ادارے ”اخوت“ کی طرف سے افطار و ڈنر پارٹی تھی، جس میں مجھے شامل ہونے کی پُر اصرار دعوت ملی۔ بہت دنوں بعد گھر سے نکلنے کا اتفاق ہوا۔ گھر سے نکلتے وقت سوچا کہ آج میریٹ میں Valet پارکنگ کر واؤں گی۔ ہمیشہ میاں کے ساتھ ہی گئی تھی لہذا ویلے پارکنگ کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ جب تک کسی تجربے سے نہ گزرا جائے انسان شش و پنج میں ہی رہتا ہے۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں یہ سوال تھا، نہ جانے کتنے پیسے لیتے ہوں گے۔

بڑے ہوٹلوں میں عام طور پر ایسے سوالات شاید توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔ مگر میں نے سوچا ایسی تیسی توہین عزت کی، میں تو آج پوچھ کر ذہن کی الجھن کو دور کروں گی۔ گاڑی کھڑی کی۔ ویلے پارکنگ کے ڈیسک پر گئی اور پوچھا ویلے پارکنگ فری ہوتی ہے یا پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس شخص کو شاید ایسا سوال پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ وہ اور اُس کے ساتھ کھڑا شخص ہنسنے لگے اور ہنستے ہنستے کہتے ہیں، میڈم مفت ہے، بالکل فری۔ انہوں نے یہ جملہ دو دفعہ دہرایا۔ میں نے بھی شائستگی سے مسکراتے ہوئے کہا بھئی معلومات میں اضافے کے لیے پوچھ رہی ہوں۔ میں نے پرچی لی، گاڑی کی چابی اُن کے حوالے کی، اور چشم زدن میں ہی اشرافیہ میں شامل ہو کر شان بے نیازی سے ہوٹل میں داخل ہو گئی۔

”اخوت“ کے پروگرام کے لیے شام پانچ بجے بلایا گیا تھا۔ مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہماری قوم کا تو اسلام پر جزوی ایمان ہے۔ روزہ تو شاید سب کا ہی تھا مگر وقت کی پابندی کا کسی کو خیال نہیں تھا۔ مہمان پوری طرح ”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا“ پر کاربند تھے۔ انتظامات مکمل تھے ہر مہمان کو رضاکار نوجوان لڑکے لڑکیاں ہال تک لے کر جا رہے تھے۔ ہال میں میزیں سجی تھیں۔ میزوں پر کھجوریں اور پانی بھی تھا۔ ظاہر ہے دعوت نامے بھی بروقت پہنچ چکے تھے۔ میزبان لائن میں لگے کھڑے مہمانوں کے منتظر تھے۔ مگر دیکھیے! کتنے افسوس کی بات ہے کہ مہمان جنہیں اتنی عزت دی جا رہی تھی، وہ پابندی وقت کے معمولی سے تردد کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔

میرے خیال میں ایسے مہمان عزت کے قابل ہی نہیں ہوتے، جنہیں میزبانوں کے دیے گئے وقت کا احترام نہ ہو۔ پانچ سے ساڑھے پانچ ہوئے، پھر چھ بج گئے۔ چھ بجے لوگوں کی آمد سے ہال بھر گیا۔ مجھے دیر سے آنے والوں کی شکلوں پر کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں ہوئی۔ چھ بج کر دس منٹ پر دعا ہوئی اور ساتھ ہی روزہ افطار ہو گیا۔ افطاری کے لیے خواتین و حضرات کو ایک قریبی مارکی میں جانا تھا، جہاں کافی رش تھا، جس کے باعث افطاری کے لئے اشیاء خورد و نوش کا حصول آسان نہ تھا۔

بہرحال افطاری کے بعد پروگرام شروع ہوا۔ کچھ لوگوں کے عطیہ دینے کے اعلانات شروع ہوئے۔ فاسٹ یونیورسٹی نے اخوت سکولوں سے کامیاب پچاس طلباء کو سو فیصد وظیفہ دینے کا اعلان کیا۔ ہماری ایک دوست پروفیسر رفعت طور نے ایک کنال پلاٹ کے کاغذات پیش کیے۔ ریٹائرڈ ٹیچرز ایسوسی ایشن کی طرف سے یاسمین بخاری اور ساتھی پروفیسروں نے (جس کی پریزیڈنٹ قیصرہ علوی ہیں ) نے تین لاکھ دیے۔ سب سے خوبصورت بات ایک چھ سات سال کی بچی کی تھی جس نے ایک پلاسٹک کی بوتل میں کچھ روپے جمع کر کے دیے۔ یہ اُس کی محبت کی ایک بہترین مثال تھی۔

ڈاکٹر امجد ثاقب اسٹیج پر آئے انہوں نے دھیرے دھیرے گفتگو شروع کی تو ان کے دل سے نکلنے والی آواز سامعین کے دلوں میں اترتی چلی گئی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ ایک خاتون کو دس ہزار قرض دینے سے شروع ہونے والے اخوت کا سفر پچیس سال کے عرصے میں چالیس لاکھ خاندانوں اور تین کروڑ لوگوں تک پہنچ چکا ہے۔
انہوں نے لوگوں کے ضمیروں کو جھنجوڑا کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا؟ کیا اس لیے کہ ایک طرف ڈھائی کروڑ بچے سکول کی نعمت سے محروم ہیں اور دوسری طرف متمول لوگ لاکھوں روپے فیس دے کر اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ روز سورج نکلتا ہے مگر اُس کی روشنی اُن کچے گھروں تک کیوں نہیں پہنچتی، جو اندھیروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ غریب کے لیے ہمارے ملک میں زندگی اتنی تلخ کیوں ہے؟ اخوت کا سبق، جو ہمارے پیغمبر نے ہمیں ہجرت مدینہ میں دیا کہ ہر کوئی کسی ایک کا ہاتھ تھام لے، وہ اخوت کا سبق ہم کیوں بھول گئے۔ غربت تنہائی ہے۔ ہم نے لوگوں کو تنہا کیوں چھوڑ دیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اخوت کو چندا دو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اپنی اپنی اخوت بناؤ۔ مؤاخات کو دوبارہ زندہ کرو۔ نیکی کا جواب بڑی نیکی ہے۔ مایوسی مت پھیلاؤ۔ میں تمہیں اُمید کا سبق دیتا ہوں۔

دل چاہتا تھا وہ بولتے رہیں، ہم سنتے رہیں، اور یونہی رات بیت جائے۔ گفتگو میں عاجزی، انکساری، محبت، مروت، اور درد مندی، ہم سب کے دلوں کی میل اتار رہی تھی۔ اور ہم بہ چشم نم اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔

اچھی بات یہ بھی تھی کہ اس تقریب میں مختلف یونیورسٹیوں کے تین وائس چانسلر بھی موجود تھے۔ جو اخوت کے بچوں کے لیے ہر ممکن مدد دینے کے لیے تیار تھے۔ نظامت کرنے والے کی اردو بہت شستہ تھی۔ لفظوں کی ادائیگی خوبصورت، اور لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔ ان سے میری ملاقات کھانے پر ہوئی تو میں نے کہا، آپ نے بہت عمدہ نظامت کی ہے۔ مگر میں آپ سے متعارف نہیں، تو اُس نے دھیرے سے جواب دیا، میں بہاولپور میں کمشنر کے عہدے پر متعین ہوں۔

واپسی پر میں ویلے پارکنگ ڈیسک پر گئی اور بغور جائزہ لینے لگی کہ کیا لوگ انہیں پیسے دیتے ہیں۔ میرے غور کرنے پر معلوم ہوا کہ لوگ حسب توفیق پرچی کے ساتھ کچھ رقم بھی دے رہے ہیں۔ میں نے بھی حسب توفیق ایک نوٹ پرچی میں لپیٹا اور پرچی مددگار کے حوالے کی۔

گاڑی میں بیٹھ کر بظاہر تو گاڑی چلا رہی تھی مگر خیالات ایک اجنبی دنیا میں تھے، جہاں دھوکہ، فریب، جھوٹ، فراڈ، اور ریاکاری کا شائبہ تک نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments