نا اہلی اور ترجیحات کا گرداب
پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات تیزی کے ساتھ شروع ہوچکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وہی روایتی راگ الاپ رہے ہیں کہ ملک کے اندرونی و بیرونی دشمن اس کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ سیاسی حالات کے پیش نظر اسٹیبلشمنٹ کو پہلے سے کہیں زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔ جب بھی کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے سرکاری موقف سامنے آنے سے پہلے سوشل میڈیا پر حکومت اور اداروں کو لفظی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جاتا ہے اور حیران کُن بات یہ ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی طرف سے جب حملے کے بعد سرکاری موقف دینے کا مرحلہ آتا ہے تو واقعہ کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے حکومتی عہدیدار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ترجمان تنقید کا جواب دیتے ہوئے اور الزامات کا توڑ کرتے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔ اگر کسی بھی دہشت گرد حملے کے بعد اس کی جزئیات اور حالات و کوائف کو مدنظر رکھنے اور عوام کو اصل حقائق سے آگاہ رکھنے کی کوشش تک محدود رہا جائے تو شاید زیادہ ارتکاز دہشت گردی کی روک تھام اور اس کے ذمہ داروں پر قائم رہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ترجمانوں کے حد سے بڑھے ہوئے وضاحتی لہجے اُس سیاسی کڑواہٹ کا ردعمل محسوس ہوتے ہیں، جس کا اُنہیں ملک کے اندر سامنا ہے۔ بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اکثر ریاستی اُمور معروضیت سے عاری ہیں۔ نہ ریاستی ادارے اس ناگزیر معروضیت سے آگاہ ہیں اور نہ ہی حالیہ سیاسی رجحانات کسی معروضیت کے حامل ہیں۔ الزام تراشی اور ہلڑ بازی کے اس دور میں ریاست اور سیاست دونوں فتح و شکست کے وقتی میلانات کی زد میں ہیں اور اس بات کا ادراک کرنے سے عاری ہیں کہ ایک ملک کی حیثیت سے پاکستان شدید قسم کی ابتری کے دور میں پھر سے داخل ہو رہا ہے۔
شاید بنیادی مسئلہ اہلیت اور ترجیح کے گرداب میں کہیں پھنس چکا ہے کیوں کہ اعلیٰ سطح کے عہدیداروں اور حکومتی ذمہ داروں پر طویل اور بے معنی گفتگو کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے بجائے اس کے کہ وہ مختصر بات کریں اور اپنے آپ کو اصل وقوعے تک محدود رکھ سکیں۔ ہمارے ہر قسم کے ترجمان ہر ایک سوال کا طویل جواب دینا چاہتے ہیں اور جواب دیتے وقت اِن کے ذہن میں مخالف کو شکست فاش دینے اور ہر قسم کی ناپسندیدہ بات کو دبا دینے کی دُھن زیادہ سوار ہوتی ہے، جس کو آسانی کے ساتھ اِن ہی کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ ہوتا بھی ہے۔ مثال کے طور پر اگر جعفر ایکسپریس سانحے کی تفصیلات اور اس کے محرکات پر توجہ مرکوز رکھی جاتی تو اس میں یہ قطعی ضرورت نہیں تھی کہ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں کو ذمہ داروں کی فہرست میں شامل کیا جاتا اور یوں بلاوجہ خود کو اُڑتے ہوئے تیروں کے سامنے کر دیا جاتا۔ بدقسمتی سے ہم یہ سب کچھ اپنے قومی اُفق پر مشرف دور میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ لال مسجد قضیے پر میڈیا کو بریف کرتے ہوئے اردگرد کے پچاس موضوعات کو بھی چھیڑ لیا جاتا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر ایک کو دشمن نظر آتے اور وہ معاملہ جو محض ایک مسجد کی غیرقانونی توسیع تک محدود تھا اس کو اتنا بڑھاوا دیدیا گیا کہ پورے ملک میں خودکش حملوں کا جال پھیل گیا۔
اس میں شک نہیں کہ ریاست پاکستان ایک طویل عرصے سے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے نرغے میں ہے اور دہشت گردی و انتہاپسندی مسلسل تین دہائیوں سے جاری ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس تمام تر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تانے بانے پر توجہ دی جائے اور کوتاہی کے مقامات کی نشاندہی کر کے اُن کو ایڈریس کیا جائے اور ساتھ ساتھ قوم کو بھی آگاہ کیا جائے کہ ہم جہاں آج کھڑے ہیں تو اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ ہم نے ماضی میں خارجہ پالیسی کو کس قدر غلط انداز میں چلایا ہے کہ آج ہماری بین الاقوامی تنہائی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند ہے۔ ہماری معیشت زمین بوس کیوں ہوئی ہے؟ ہمارے سماج میں انتہا پسندی کے بیج کہاں سے آئے ہیں اور ہم نے اِن کو وقت کے ساتھ ساتھ کتنا توانا کیا ہے کہ جا بجا بارود کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی حد تک ہم اس قدر سیاسی ہیں کہ ہر فرد ہر جگہ سیاست کی ریڑھی لگائے ہوئے ہے لیکن ہماری پارلیمنٹ ہمیشہ کی طرح گُنگ ہے اور کبھی اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوتی کہ کیوں ہم مذہبی و مسلکی حوالے سے اس قدر عدم برداشت کا شکار ہو گئے ہیں۔ ہمارے شہروں اور دیہات میں توہین مذہب کا معاملہ ایک کاروبار کی سی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور سینکڑوں نوجوان آج جیلوں میں قید ہیں جن کو ملکی قوانین کے تحت اِن الزامات کے بعد سزائے موت دی جائے گی۔ ہمارے جری اور زبردست قسم کے جج جو ہر سیاسی ایشو اور خاص طور پر ہر کسی پر بالادستی کے حصول کے لیے آمادہ جنگ رہتے ہیں، توہین وغیرہ کے غیر ثابت شدہ مقدمات کی سماعت نہیں کرنا چاہتے۔ جس کے باعث یہ مسئلہ ایک عفریت کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
ہم نے کمال چابکدستی کے ساتھ سیاسی معاملات کو اتنا زیادہ حاوی کر لیا ہے کہ اب ریاست کی سالمیت ہی داؤ پر لگنا شروع ہو گئی ہے۔ بلوچستان جو ایک سیاسی اور انتظامی معاملہ تھا اب اس سے کہیں آگے بڑھ کر ایک تنازعہ بن چکا ہے۔ ہم نے خیبر پختونخوا میں اپنی سیاسی بالادستی کو دوام بخشنے کے لیے اچھے اور بُرے طالبان کی اصطلاح تیار کی اور پھر ایک سول حکومت نے ہزاروں سخت گیر انتہا پسندوں کے جرائم معاف کر کے اِنہیں افغانستان سے واپس آنے کی دعوت دیدی تو سیاسی فائدہ کتنا ہوا یہ معلوم نہیں لیکن انتظامی صورت حال یہ ہے کہ اب صوبے کی حکومت کی عملداری سرشام سُکڑ کر پشاور شہر تک رہ جاتی ہے اور باقی پورے صوبے میں دہشت گرد اور انتہا پسند دندناتے پھرتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ گزشتہ صرف چوبیس گھنٹے میں صوبہ بھر میں اکتالیس چھوٹے بڑے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کو دہشت گردی کے واقعات ہی کہا جاسکتا ہے۔
حالت یہ ہے کہ سول حکومت کہیں دور کھڑی نظر آتی ہے اور سیکیورٹی ادارے لاتعداد محاذوں پر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ گتھم گتھا ہیں۔ ملک کے حالات کی خرابی کا معاملہ کہاں جاکر رکے گا کوئی نہیں جانتا۔ انسداد دہشت گردی کے ادارے جامد ہیں کیوں کہ اِن اداروں میں انتظامی اُمور پر کھینچا تانی ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم نیکٹا کے موجودہ حالات کو دیکھ سکتے ہیں جہاں نیشنل کوارڈینیٹر کی پوسٹ پر مستقل تقرری نہیں ہو سکی اور پولیس سمیت دوسرے اداروں سے مستعار لیے گئے اہلکار گومگو کی کیفیت میں ہیں کہ کون اس ادارے کی سربراہی کرے گا۔ وزیراعظم شاید اس کیفیت میں فیصلہ کُن کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن وہ بھی سمری پر دستخط کردینے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے کیوں کہ اِنہیں ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی موجودہ لہر ماضی سے کہیں طاقت ور اور مہلک ہے کیوں کہ اس کا جغرافیائی گھیرا زیادہ وسیع ہے جبکہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اب کی بار ریاست کے پاس بیرونی معاونین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس صورت میں اگر انتظامی بالادستی کے حصول کے لیے کھینچا ناتی کے امکانات کو ختم نہ کیا جا سکا تو خدانخواستہ ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہے۔
- بگاڑ بہت ہو چکا، بناؤ کی کوئی صورت نکالیں - 28/03/2025
- مہلک غلطی کی جانب سفر - 23/03/2025
- نا اہلی اور ترجیحات کا گرداب - 17/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).