اب ہمیں آزادی کی قیمت پہ امن ملے گا


اٹھارہ مارچ کو ملٹری لیڈرشپ نے منتخب قیادت کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و مان کی بگڑتی صورت حال پہ مفصل بریفنگ دی تاکہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے ایک نئے فوجی آپریشن پہ قائل کیا جا سکے۔ اجلاس میں وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع و خارجہ امور کے ارکان، وفاقی کابینہ میں شامل وزراء، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے سوا تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے، توقع کی جاری تھی کہ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں دہشتگردی سے نجات کے بارے میں اہم فیصلہ لئے جائیں گے لیکن بظاہر یہی تاثر ملا کہ ملکی بقا سے منسلک اس حساس ایشو پر قومی سلامتی کمیٹی میں شریک قومی قیادت باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے کسی نتیجہ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو پائی، اس ناکامی سے عوام کو یہ پیغام ملا کہ قومی قیادت دہشتگردی کے سینڈروم کو سمجھنے اور اس کے تدارک کے طریقہ کار پہ اتفاق رائے تک پہنچنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔

بلاشبہ ہماری پارلیمنٹ اتنی موثر نہیں کہ وہ سیکیورٹی ایشوز کے بارے میں عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کوئی پالیسی اصول فراہم کر سکے، حتیٰ کہ قومی قیادت تازہ اجلاس میں اختیار کیے گئے اپنے موہوم سے موقف کو بھی عوام کے سامنے رکھنے سے ہچکچا رہی ہے۔ گویا وسیع علم اور طاقت کے باوجود قومی قیادت اپنے مقاصد، اپنی اقدار اور اپنے منصوبوں کے متعلق پختہ یقین نہیں رکھتی۔ ہر چند کہ جمہوریت کو ابنائے سیاست نے ناجائز اہمیت دے رکھی ہے لیکن کیا ہمارے محافظ بھی اپنے ہی بنائے ہوئے فرضی حقائق کے جال میں پھنس چکے ہیں؟ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخ کا اہم ترین قانون یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے۔ سسٹم کی بے ثباتی سے عیاں ہے کہ ہم اس وقت دہشتگردی کے آشوب سے کہیں زیادہ ہر شعبہ زندگی میں قیادت کے بحران کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے مرور ایام کے ساتھ پیدا ہونے والے فطری تغیرات سے ہم آہنگ رہنے کی ذہنی لچک کھو بیٹھے ہیں۔ لاریب، ہر پھلتے پھولتے تمدن پہ ایک زمانہ ایسا ضرور آتا ہے جب پرانے رجحانات اور عادتیں نئے حالات پہ قابو پانے کے لئے ناکافی ثابت ہوتی ہیں، اسی لئے عقل نت نئے تجربات میں الجھتی ہے۔ بہرحال، یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ ہماری منتخب قیادت اور پارلیمنٹ نے محافظوں کے سامنے صرف عوامی مینڈیٹ کو ہی سرنڈر نہیں کیا بلکہ اپنے بولنے اور سوچنے کے حق سے بھی دستبردار ہو گئی یعنی ہم نے جن کے گرد عظمت کا ہالہ کھینچا ان کی بنیادی صفت بزدلی اور کم ہمتی نکلی، اسی لئے یہ جمہوریت کو ایک ہاتھ سے دور دھکیلتے اور نا آموختہ عمل سمجھ کر دوسرے ہاتھ سے سینے سے لگانے کی مشق میں مصروف رہتے ہیں۔ چنانچہ ہماری مصیبت زدہ نسل نے ملفوف آمریت کے تجربہ کو نہایت انکساری کے ساتھ قبول کر لیا کیونکہ اب وہ جمہوری آزادیوں کے مشتاق نہیں رہے بلکہ شدت کے ساتھ تحفظ، نظم و ضبط اور حصول امن کے خواہشمند ہیں۔

اگر ہم پلٹ کر دیکھیں تو ملک کے شمال مغربی صوبہ میں پچھلے بیس سال میں سیکورٹی فورسز نے درجنوں فوجی آپریشن لانچ کیے، جن میں لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کی کلفتوں سے دوچار ہونا پڑا، شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور سماجی آزادیاں سلب کر لی گئیں، پولیس اور فوج کے سینکڑوں جوان شہید اور قومی خزانہ سے کھربوں روپے کے اخراجات اٹھ گئے، اسی منحوس جدلیات نے خطہ کی گداز تہذیب کو اجاڑ کے رکھ دیا مگر صد افسوس کہ دہشتگردی ختم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔ گزشتہ 22 سالوں میں دہشتگردوں کے خلاف ہونے والے آپریشنز کے باعث خیبر پختونخوا کا انتظامی ڈھانچہ منہدم ہو گیا، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلیں ٹوٹ گئیں، دہشتگردوں نے ریڈ زون میں قائم آرمی پبلک سکول کے سینکڑوں بچے مار ڈالے، حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ سرکاری افسران یا تو محافظوں کا حکم مانتے ہیں یا پھر مسلح گروہوں کی سننے پہ مجبور ہیں۔ صوبہ کا چیف ایگزیکیٹو اپنی اتھارٹی کھو بیٹھا، ایک میٹرو پولیٹن میئر کی مانند اب وہ سرکاری فورسز کو فنڈ جاری کرنے یا پھر مسلح گروپوں کو بھتہ دے کر جان کی امان پاتا ہے۔ یعنی وقت اور تجربات نے یہ ثابت کر دیا کہ فوجی قوت کے بلبوتے پر تشدد کے رجحانات پہ قابو پانا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہزاروں فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور شہریوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود ہم درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام رہے۔

آج جس وقت مغربی سرحدات سے جڑے ملک کے دو حساس صوبے طواف الملوکی کی آگ میں جل رہے ہیں، ہماری عسکری و سیاسی قیادت اپنی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کو ردّ کرنے میں ضائع کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بدقسمتی سے قومی سلامتی کا وہ تصور ابہام کا شکار ہو گیا جو اُس سادہ تعریفوں سے مزین تھا جس میں فوجی خطرے اور سیاسی جبر سے آزادی پر زور دیا گیا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی قوم کو معیاری قومی سلامتی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب اسے جنگ سے بچنے کے لیے اپنے بنیادی حقوق اور جائز مفادات کو قربان کرنے کی ضرورت نہ پڑے اور اگر اُسے چیلنج بھی کیا جائے تو ان کی ریاستی مقتدرہ شہری آزادیوں کو سلب کیے بغیر انہیں جنگ کے ذریعے بچانے کے قابل ہو۔ ہماری بدنصیب نسل اب اس احساس میں مبتلا ہے کہ وہ حاصل شدہ اقدار کو درپیش خطرات سے بچانے کے قابل نہیں رہی، پچھلے 77 سالوں میں یہ قوم نا عدم تحفظ کے خوف پہ قابو پا سکی نہ قومی قیادت غیر ملکی ڈکٹیشن سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہی وجہ ہے جو ہماری نوخیز نسلیں اب قومی سلامتی کو ملکی اور غیر ملکی حالات پر قابو پانے کی صلاحیت کے طور پر پہچاننے کے اُس شعور سے عاری ہیں جسے کسی کمیونٹی کی رائے عامہ اپنی خود ارادیت، خود مختاری، خوشحالی یا فلاح و بہبود سے لطف اندوز ہونے کے لیے بروئے کار لاتی ہے۔ ملک کی مذہبی و سیاسی قیادت اُس ذہنی لچک اور سیاسی پختگی کو نہیں پا سکی جو انسانی وسائل، اقتصادی اور اجتماعی صلاحیتوں، تکنیکی قابلیت، صنعتی بنیاد اور قدرتی وسائل کی دستیابی اور آخر میں فوجی طاقت کا ایک مناسب اور جارحانہ امتزاج پیدا کرنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ یعنی قومی سلامتی کسی قوم کی مجموعی استعداد ذہنی کی قابل پیمائش حالت ہے جو کسی بھی وقت اپنے لوگوں کی ظاہری بہبود اور ایک قومی ریاست کے طور پر اس کی بقا کے لیے کثیر جہتی خطرات پر قابو پانے کے لئے گورننس کے ذریعے ریاستی پالیسی کے تمام آلات کو متوازن بنانے کا ہنر جانتی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments