انٹلکچول ٹی
چائے کے شوقین حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ چائے کا ذائقہ ہم مشروب کی تبدیلی سے بدل جایا کرتا ہے۔ آپ سب نے چائے کے کئی کپ لنڈھائے ہوں گے مگر وہ چائے کہاں بھولتی ہے جس میں چینی کے بجائے انسیت کی چاشنی ہو۔ ہمارے سماج کا، باقی المیوں کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ایک ہی ادارے میں کام کرنے والے لوگ آپسی دوستانہ مراسم سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارا بھی ایسے ہی افراد سے سابقہ رہا مگر ایک ایسا شخص بھی میسر آیا جس کے ہونے سے تسلی رہی کہ خلوص ابھی مرا نہیں۔
ایک دن پہلے اس جگہ سے ہمارا تعلق تھا، صبح جب وہاں پہنچے تو معلوم نہ تھا کہ آج کی دوپہر وہاں آخری دوپہر ہو گی اور پھر نئے راستے ہوں گے اور نئی منزل۔ شاید میں یہ بات قدرے سیمابی حالت میں کر رہا ہوں کیونکہ منزل کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بھی راستوں کی تبدیلی کے ساتھ بدل جائے گی۔ آج کے پڑھے لکھے نوجوان کا (یہاں پڑھے لکھے سے مراد ڈگری ہولڈرز ہیں ) بنیادی مسئلہ روزگار کی تلاش ہے۔ شاید پچھلے سال کی گرمیوں کے دن تھے جب میں مقالہ مکمل کرنے کی تگ و دو کر رہا تھا تو ایک کرم فرما نے یہی بات کہی تھی۔
تب میرے لیے یہ الفاظ مبہم اور ناقابلِ فہم تھے مگر آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصلیت یہی ہے۔ ہم بھی ٹھہرے سند یافتہ، ہمارا معاملہ بھی انہیں کے ساتھ ہونا تھا جن کے ہم رفیق تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ ادھر ڈگری مکمل ہوئی، ادھر ایک نجی ادارے سے بلاوا آیا کہ آئیے اور بچوں کو پڑھائیے۔ دیکھئے کیا ستم ظریفی ہے کہ تعلیم سے وابستہ لوگوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ جنہیں کوئی بہتر روزگار نہیں ملتا وہ اس شعبے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی خدمات سے نئی نسل کے مستقبل کا بیڑا اٹھے یا نہ اٹھے بھٹا ضرور بیٹھ جاتا ہے۔ خیر ہم وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ طالب علم بپھرے ہوئے ہیں کہ ان کا وہ استاد واپس لایا جائے جو انہیں پہلے، متعلقہ مضمون پڑھایا کرتا تھا۔ نجی اداروں میں دی جانے والی تعلیم کئی حوالوں سے، سرکاری اداروں کی تعلیم سے مختلف ہے۔ پہلا اور بڑا حوالہ یہ ہے کہ نجی اداروں میں کیوری (Query) پر نہیں تھیوری (بمعنی نصاب) پر بات ہوتی ہے۔ وہاں پیپر نہیں، چیک لیے جاتے ہیں۔ طالب علموں کو نتائج کے فارم نہیں چالان فارم دیے جاتے ہیں۔ ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ بچے بپھرے ہوئے تھے کہ ان کا معلم واپس کرو۔ میرے لیے اس میں تشویش کا پہلو ضرور تھا مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ پرائیویٹ تنظیموں میں اساتذہ سے ایسی اپنائیت کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو میرے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ بچوں کو (چاہے مختصر وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو) وہ استاد صاحب بھلانا ہوں گے۔
مجھے چار کلاسز پڑھانے کو دی گئیں اور چاروں کا مزاج ایک دوسرے سے یکسر جدا۔ ایک کلاس، جو میرے نزدیک ادارے کی، بنسبت دوسری جماعتوں کے، قدرے بہتر تھی میں یہ طریقہ اپنایا کہ ان سے نئے مباحث پر بحث کیا کرتا، نصاب سے کتاب تک لانے کی کوشش میں سرگرم رہتا۔ ہاں اس سے یہ ضرور ہوا کہ دو چار طالب علم کتب بینی کی طرف مائل ہوئے مگر زیادہ تر بچوں کا مسئلہ محض ڈگری کا حصول تھا وہ کیوں کر نمبروں سے غداری کر سکتے تھے۔
ایک کلاس کا مسئلہ عین وہی تھا جو نوجوانی میں ہر عام لڑکے کا ہوا کرتا ہے۔ ان کے لیے میرے پاس وافر مقدار میں مواد موجود تھا جو باتوں کی صورت ان تک پہنچایا کرتا۔ اس سے مجھے یہ نقصان ہوا کہ ان کے اور میرے درمیان موجود فاصلہ کم سے کم تر ہوتا گیا اور وہ مجھے دوست گرداننے لگے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ استاد اور شاگرد کے درمیان مناسب حد فاصل کا ہونا بڑا ضروری ہے ورنہ تعلم کا عمل تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایک اور کلاس کا تذکرہ بھی سنئیے۔ جیسے ہی مجھے معلم کا فریضہ سونپا گیا ساتھ ہی یہ ذمہ داری بھی عائد کی گئی کہ ایک کلاس کے تمام معاملات بطور کلاس انچارج دیکھنا ہوں گے۔ کلاس انچارج بننا میرے لیے گوشۂ عافیت تھا کہ یوں ساٹھ ستر بچوں کو سنبھالنا خودبخود آسان ہو جاتا۔ اس کلاس کے طلباء ادارے کے باقی طالب علموں سے قدرے الگ طبیعت کے مالک تھے۔ وجہ یہ کہ ان کے اندر پرفارمنگ آرٹ کی جھلک موجود تھی۔ تین چار بچے گانا گانے کے شوقین اور حیرانی یہ کہ آواز نا صرف سریلی بلکہ سُر سے بھی تھوڑی بہت آشنائی رکھتے تھے۔
اگر میں اپنی زندگی (جو کہ بہ مشکل تین چار سال ہے ) پر طائرانہ نظر ڈالوں تو کھیل سے وابستگی کہیں نظر نہیں آتی۔ مگر اس کلاس نے میری یہ محرومی بھی دور کر دی۔ ہوا یوں کہ ادارے کے سالانہ کھیل مقابلے میں کلاس ٹیم نے کرکٹ کا مقابلہ اپنے نام کرتے ہوئے مجھے ادارے کی فاتح ٹیم کا انچارج بنا دیا۔ ایک طرح سے میرے لیے یہ خوش قسمتی تھی کہ ایسی جگہ کام کرنے کا موقع ملا جہاں محبت کرنے والے طلباء ملے اور ساتھ یہ سیکھنے کا موقع بھی کہ کیسی جگہوں پر نہیں جانا چاہیے۔
پانچ ماہ کی مختصر کہانی ہے مگر اس مختصر کہانی نے ہی کچھ ایسے خوبصورت کرداروں سے بھی ملایا جن کی بدولت نئی روشنی کی طرف بڑھنے کا راستہ ملا۔ انہیں خوبصورت کرداروں میں ایک مبشر صاحب ہیں جن کے ساتھ دوپہر میں، پی جانے والے چائے ہمیشہ یاد رہے گی۔ وہ صرف چائے نہ تھی بلکہ محبت، خلوص اور اپنائیت کا خالص مرکب تھی۔ اسی لیے اس چائے کو میں انٹلکچول ٹی کہتا ہوں۔
- انٹلکچول ٹی - 08/04/2025
- محمد حسن عسکری بطور نقاد - 04/02/2025
- اصغر ندیم سید کے ناول ”جہاں آباد کی گلیاں“ میں تاریخی شعور - 20/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).