کیا اب ہم پانی پر جھگڑیں گے؟
پانی کی اہمیت سے بھلا کسے انکار ہے۔ پانی زندگی ہے اور زندگی کا ضامن بھی۔ ایک لمحے کو آنکھیں بند کر کے تصور کریں کہ ہمیں صرف ایک دن کے لئے پانی کے بغیر جینا پڑے تو ہمارا دن کیسا گزرے گا؟ یقیناً ہمیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ سچ پوچھیں تو پانی کی اہمیت سے آگاہ ہونے کے باوجود، ہمیں اس کی کچھ خاص قدر نہیں ہے۔ یہ بات میں اس قدر اعتماد سے اس لئے کہہ رہی ہوں کہ ہم انفرادی اور قومی سطح پر اس کے ضیاع کو روکنے اور اسے محفوظ رکھنے کے لئے کچھ زیادہ پرجوش نظر نہیں آتے۔
برسوں سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ ہمیں پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ برسوں سے ہم ڈیموں کی تعمیر کی اہمیت کے ضمن میں طویل اور بے نتیجہ مباحثوں میں مصروف ہیں۔ برسوں سے ہم پانی کے بے تحاشا ضیاع پر کف افسوس مل رہے ہیں۔ تاہم عملی طور پر ہم نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟ حاصل وصول یہ ہے کہ برسوں بلکہ عشروں قبل ہونے والی یہ ساری بحثیں آج بھی جاری ہیں۔ ماضی میں بھی صوبوں کے مابین پانی کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر گلے شکوے ہوا کرتے تھے۔
آج بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پاک فوج کی زیر نگرانی ”گرین پاکستان انشیٹو“ کے تناظر میں نئی نہریں نکالنے کے قضیے پر آج کل صوبہ سندھ کی طرف سے رنجش کا اظہار ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس آپس میں لڑنے جھگڑنے کو پہلے ہی بہت سے معاملات موجود ہیں۔ اب کیا ہم پانی پر بھی جھگڑیں گے؟ زمانہ طالب علمی میں یہ بات سنا کرتے تھے کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوا کریں گی۔ اقوام عالم کا تو معلوم نہیں، البتہ ہم نے آپس میں ہی جنگ و جدل کا اہتمام کر رکھا ہے۔ بہرحال، اصولی اور آئینی طریقہ کار کے تحت یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں طے ہونا چاہیے۔ کیا ضروری ہے کہ ہر معاملے میں ہم اپنی سیاست کو گھسیٹ گھساٹ کر لے آئیں اور مفاد عامہ کے معاملات کو بھی کوچہ و بازار اور جلسے جلوسوں کا موضوع بنا ڈالیں؟
اس قصے کے قومی یا سیاسی پہلو سے قطع نظر، پانی کی قلت کے معاملے کا ایک عوامی پہلو بھی ہے، جس کا تذکرہ بے حد ضروری ہے۔ ہم عوام کا اجتماعی رویہ بن چکا ہے کہ ہم ہر چھوٹے بڑے مسئلے کی ذمہ داری حکومت کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کو برا بھلا کہہ اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ جھاڑ کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ پانی کی قلت کے مسئلے کی اولین ذمہ داری یقیناً حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنا حکومتوں کا کام ہے۔
تاہم کیا بطور پاکستانی شہری میری یا آپ کی بھی رتی برابر کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ کیا میں نے یا آپ نے کبھی اپنے گھر میں ہونے والے پانی کے ضیاع کو روکنے کی تدبیر کی ہے؟ اپنے کچن، غسل خانے، لان، گیراج میں ہونے والے پانی کے بے جا استعمال پر غور کیا ہے؟ میرا نہیں خیال کہ ہم آپ پانی کو احتیاط سے استعمال کرتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگ دانت برش کرتے ہیں اور نل کی ٹونٹی بند نہیں کرتے۔ مرد حضرات شیو کرتے ہیں اور بیسن میں پانی بہتا رہتا ہے۔
سردیوں کے موسم میں ہم گیزر کے گرم گرم پانی سے نہاتے ہیں اور پھر مزے سے نہاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں ہم ٹھنڈے پانی کو جی بھر کر ضائع کرتے ہیں۔ کچن میں برتن دھونے ہوں یا گیراج میں گاڑی، پانی کا بے جا استعمال ہماری عادت بن گئی ہے۔ کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے اپنا حصہ ڈالیں۔ حکمرانوں اور ارباب اختیار کو کوسنے دینے کے بجائے، اپنے طرز عمل پر غور کریں۔ اپنے گھر اور اپنے رویے کی اصلاح کرنے کے لئے تو ہم پوری طرح آزاد اور با اختیار ہیں۔
بطور مسلمان بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کو ضائع کرنا سخت گناہ اور نا شکری ہے۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ پانی کی یہ فراوانی جو اللہ کے فضل سے ہمیں نصیب ہے وہ ہر ایک کو میسر ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہاں کسی دوسری دنیا میں بسنے والے انسانوں کی بات نہیں ہو رہی۔ ہمارے ملک پاکستان میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں بسنے والوں کو چند گھڑے پانی لانے کے لئے میلوں سفر کرنا پڑتا ہے۔ سندھ میں تھر پارکر کا علاقہ ہو، یا پنجاب میں چولستان، ڈیرہ غازی خان یا راجن پور جیسے علاقے، بلوچستان میں خاران، چاغی، آواران، جبکہ خیبر پختونخوا میں کوہستان، تورغر، بٹگرام، شانگلہ سمیت کئی علاقے ہیں جہاں خواتین کو پانی لانے کے لئے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ان خواتین کی آدھی زندگیاں تو پانی کے لئے پیدل چلتے گزر جاتی ہے۔ پانی کی قدر کبھی ان علاقوں میں بسنے والوں سے پوچھیں۔ کاش میں اور آپ پانی کا ضیاع کرتے وقت پانی کو ترستے ان انسانوں کو یاد رکھیں۔
چند دن پہلے ایک خبر میری نگاہ سے گزری ہے۔ پانی کی قلت کے پیش نظر پنجاب حکومت نے گاڑیوں کو دھونے والے نئے سروس اسٹیشن کھولنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ غیر قانونی اسٹیشنوں کو بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ گھر میں گاڑیاں دھونے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ باقی سب تو سمجھ آتا ہے تاہم معلوم نہیں کہ گھروں میں اس قانون کی خلاف ورزی کی نگرانی کس طرح ممکن ہو گی؟ اس اقدام کا جواز یہ بتایا گیا ہے کہ ایک گاڑی دھونے پر 400 لٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔
پنجاب حکومت نے یہ حکمنامہ بھی جاری کیا ہے کہ تمام سروس اسٹیشنوں کے لئے استعمال شدہ پانی ری سائیکل کر کے دوبارہ قابل استعمال بنانے کا نظام نصب کرنا لازمی ہے، بصورت دیگر انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بادی النظر میں یہ اچھے اقدامات ہیں۔ اس سے پانی کے ضیاع کو روکنے میں مدد ملے گی۔ ویسے دنیا کے بہت سے ملکوں میں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کا نظام موجود ہے۔ دنیا میں سنگاپور، آسٹریلیا، نیدرلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنہوں نے ٹیکنالوجی اور آگہی مہم کے ذریعے پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کیا۔
میں اسرائیل کے بارے میں پڑھ رہی تھی کہ کیسے اس نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے پانی کی کمی پر قابو پایا ہے۔ اسرائیل اپنے 80 فیصد سے زیادہ استعمال شدہ پانی کو صاف کر کے زراعت اور صنعتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اسرائیلی ماہرین نے دنیا کو ڈرپ اریگیشن کا نظام دیا ہے۔ اس نظام کے تحت براہ راست پودوں وغیرہ کی جڑوں کو پانی دیا جاتا ہے۔ اس طرح پانی کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی ہمیں انفرادی اور قومی سطحوں پر اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھنا ہو گا۔ یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اس کے حل کے لئے ہمیں ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا ہو گی اور فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کئی دہائیوں سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جو ڈیم پر ڈیم بنائے چلا جا رہا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ہماری اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ پانی کے مسئلے پر ہم اپنے اپنے سیاسی، گروہی اور دیگر اختلافات بالائے طاق رکھیں، سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مسئلے کے حل کی تدبیر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اللہ کی اس انمول نعمت سے محروم ہو جائیں اور تب ہمیں اپنی غفلت اور کوتاہی کا احساس ہو۔
- ڈھٹائی کی بھی ایک حد ہے - 28/04/2025
- جامعہ پنجاب: ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ - 22/04/2025
- ایک کالم مذہبی اقلیتوں کے نام - 19/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).