معدنیات، معاشی امکانات اور مشکلات


وزیر اعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور متعدد وزرا نے اسلام آباد میں معدنیات کے متعلق منعقد ہونے والے 2 روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں معدنیات کے ذخیروں، ان کی دریافت سے حاصل ہونے والے مالی وسائل سے متوقع ترقی اور سرمایہ کاری کے بارے میں امید افزا باتیں کی ہیں۔

وزیر اعظم نے تو یہاں تک کہا کہ ’پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں۔ معدنی ذخائر سے مستفید ہو کر پاکستان قرضوں کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کو بھی خیرباد کہا جا سکتا ہے‘ ۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دعویٰ کیا کہ کہ ’مجھے پختہ یقین ہے کہ پاکستان عالمی معدنی معیشت میں ایک رہنما کے طور پر ابھرنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستانی عوام کے پیروں کے نیچے وسیع معدنی ذخائر، ہاتھوں میں مہارت اور شفاف معدنی پالیسی کے ہوتے ہوئے مایوسی اور بے عملی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آگے بڑھیں اور جدوجہد کریں، ملک کے لیے اور اپنے لیے‘ ۔ انہوں نے معدنی ذخائر میں سرمایہ کاری کرنے اور مہارت فراہم کرنے والے ملکوں اور کمپنیوں کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

سول و عسکری قیادت کی یہ باتیں خوش آئند اور حوصلہ افزا ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ معدنی ذخائر تلاش کرنے اور انہیں قومی معاشی ترقی میں بروئے کار لانے کے لیے سخت محنت، صبر اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے جس میں کوئی بھی شہری کدال اٹھا کر محنت کرے اور آرمی چیف کے بقول اپنی اور ملک کی تقدیر تبدیل کردے۔ باتوں کی حد تک یہ سب خیالات خوش نما ضرور ہیں مگر انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے جس اتفاق رائے، قومی یک جہتی وہم آہنگی کی ضرورت ہے، وہ فی الوقت دستیاب نہیں ہے۔

وزیر اعظم نے تو اپنی تقریر میں آسانی سے فرما دیا کہ پاکستان میں کھربوں ڈالر کی معدنیات دفن ہیں۔ بس اب انہیں تلاش کرنے اور بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ متعدد معدنیات جن میں ایسی نایاب زمینی منرلز بھی شامل ہیں جو جدید ہائی ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں، کے بارے میں محض ابتدائی سروے یا قیاس آرائیاں ہی موجود ہیں۔ یہ تو قابل فہم ہے کہ وزیر اعظم شدید مہنگائی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے پاکستانی عوام کو حوصلہ و امید کا پیغام دینا چاہتے ہیں لیکن انہیں ایسے مواقع پر الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں پر حقیقی صورت حال واضح ہو اور کل کلاں کوئی سوشل میڈیا ٹرینڈ یہ دعویٰ کرتا دکھائی نہ دے کہ ملک سے کھربوں ڈالر کی معدنیات نکلی تھیں لیکن نا اہل اور بدعنوان سیاست دان انہیں ہڑپ کر گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئلے کے ذخائر کے علاوہ بلوچستان میں ریکو ڈک کے مقام پر تانبے اور سونے کے معلوم ذخائر کا پتہ لگایا گیا ہے۔ تاہم انہیں دریافت کرنے، کانوں سے نکال کر کارآمد بنانے اور پھر ان دھاتوں کو فروخت کر کے قومی معیشت کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کے عمل میں کئی دہائیاں صرف ہو سکتی ہیں۔ ریکوڈک کے مقام پر تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت کرنے اور بروئے کار لانے کے لیے آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران چار سے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ اس کے بعد آئندہ چالیس پچاس سال میں پچاس ساٹھ ارب ڈالر کی معدنیات نکالی جا سکیں گی۔ ان کی دریافت، تلاش اور قابل فروخت بنانے پر آنے والی لاگت نکال کر پاکستانی معیشت میں شامل ہونے والے وسائل کی شرح، وہ نہیں ہوگی جس کا تاثر وزیر اعظم کی تقریر سے ملتا ہے کہ پاکستان کے پاس کھربوں ڈالر کی معدنیات ہیں جو ملک کو مالا مال کرنے والی ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ دعویٰ بھی حقیقت پسندانہ نہیں ہے کہ ’پاکستان معدنی معیشت میں دنیا کی قیادت کرنے والا ہے‘ ۔ واضح ہونا چاہیے کہ معدنیات کی دریافت اور انہیں تلاش کر کے مصرف میں لانے تک کے سارے عمل میں پاکستان کو سرمایہ کاری اور تکنیکی سہولت کاری کے لیے بیرونی ملکوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے پاس نہ تو معدنیات کے ذخائر دریافت کرنے کے لیے مالی وسائل ہیں اور نہ ہی وہ تکنیکی طور سے ایسی مہارت کا حامل ہے کہ اس معاملہ میں ہی پاکستانی ماہرین خود کفیل ہوں۔

ہر ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنی معدنیات دریافت کرنے اور انہیں استعمال میں لانے کا حق حاصل ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ ملک میں مختلف مقامات پر دستیاب معدنیات اور قیمتی دھاتوں کے بارے میں جامع سروے رپورٹس تیار کی جائیں اور لاگت و مصارف کا محتاط تخمینہ لگا کر اندازہ قائم کیا جائے کہ کیسے اور کب تک معدنیات کی دولت ملکی آبادی کے مصرف میں آ سکے گی۔ یہی مناسب اور حقیقت پسندانہ طریقہ ہو گا۔ اسی طریقے سے غیر ضروری سیاسی الجھنوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ یہ سروے محض مختلف محکموں یا کارپوریشنز و کمپنیوں کی حد تک محدود رکھنے کی بجائے وفاقی حکومت تمام ممکنہ معدنی وسائل کی مکمل فہرست کو کسی مرکزی آرکائیو میں جمع کرے تاکہ وہ ملکی ماہرین اور عوام کو دستیاب ہوں اور اس شعبے میں شفافیت کا اصول بھی نافذ کیا جا سکے۔ اس طرح خود حکومت کو بھی واضح طور سے اندازہ ہو گا کہ اسے مستقبل کی منصوبہ بندی کیسے کرنی ہے اور مستقبل میں اقتدار سنبھالنے والی حکومتوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہو سکے گی کہ وہ ایسی کسی پیش رفت کو محض سیاسی مقصد سے رول بیک کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام معلومات ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں جمع کی جائیں اور عوام کو مصدقہ معلومات تک رسائی حاصل ہو۔

ملک میں سب سے زیادہ قابل اعتماد معدنیات کا حصول ریکوڈک کے مقام سے ممکن ہے۔ لیکن اسی مقام سے دھاتیں نکالنے کے سوال پر جنوری 2013 میں پاکستانی سپریم کورٹ نے ایک حکم میں غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے معدنیات کی تلاش کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس فیصلہ کی وجہ سے پاکستانی حکومت ابھی تک مختلف کمپنیوں کے ساتھ قانونی جنگ میں مصروف ہے۔ اس الجھن سے بچنے اور ملکی قوانین کو واضح کرنے کے لیے حکومت کو معدنیات میں سرمایہ کاری کی کوششوں کے ساتھ ایسی قانون سازی بھی کرنی چاہیے جو قابل اعتبار ہو اور جس کے تحت ملکی عدالتیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو منسوخ کر کے نئے مسائل پیدا نہ کریں۔ جب یہ قانون سازی موجود ہوگی تو پاکستانی حکومت اور کمپنیوں کے علاوہ اس شعبہ میں سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی عناصر کو بھی معلوم ہو گا کہ انہیں کون سی قانونی حدود کا احترام کرنا ہو گا۔ اس طرح مستقبل میں ایک بار پھر غیر ضروری قانونی جنگ اور ریکوڈک کیس میں آنے والے حکم کی طرح کے فیصلوں سے بچا جا سکے گا۔

مناسب قانون سازی، شفافیت، عوام کو معلومات کی فراہمی کا ٹھوس منصوبہ سامنے لانے کے علاوہ حکومت کو ملک میں امن و امان اور اعتماد سازی کی فضا پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستانی معیشت کا مستقبل بلوچستان میں شروع کیے گئے سی پیک منصوبہ کے علاوہ معدنیات سے حاصل ہونے والے وسائل کے ساتھ وابستہ ہے۔ لیکن اسی ایک صوبہ میں نہ صرف علیحدگی پسند عناصر ریاستی سکیورٹی فورسز کے ساتھ برسرپیکار ہیں بلکہ سیاسی محرومیوں اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید بے چینی موجود ہے۔ حکومت ابھی تک کوئی ایسا لیگل فریم ورک تیار کرنے اور سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہے جس کے تحت کسی بھی علاقے کے لوگوں کو یقین ہو کہ اگر ان کے علاقے سے معدنیات یا کوئی دیگر قیمتی اشیا دریافت ہوتی ہیں تو انہیں اس دولت میں مناسب حصہ ملے گا۔ اعتراض کرنے والے عناصر کے اندازے اور شکایات سراسر غلط یا گمراہ کن ہو سکتی ہیں لیکن اگر حکومت کے پاس کوئی واضح فارمولا اور طریقہ کار نہیں ہو گا اور کسی بھی صوبے یا علاقے کے لوگوں کو واضح طور سے نہیں بتایا جائے گا کہ ان کے علاقے سے دستیاب ہونے والے وسائل میں پہلا حق انہی کا ہو گا اور اسے تسلیم کیا جائے گا تو غلط فہمیاں سیاسی بے چینی میں اضافہ کا سبب بنتی رہیں گی۔

پاکستان میں ضرور وافر مقدار میں وسائل موجود ہوں گے لیکن گزشتہ چند دہائیوں کے تجربات کا جائزہ لے کر ضرور یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ قدرتی وسائل کیوں ابھی تک معاشی مقاصد سے استعمال نہیں ہو پائے۔ پاکستانی حکومت اور عوام اگر اس سوال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے کر مشکلات کا احاطہ کریں اور انہیں حل کر لیا جائے تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3071 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments