گندم کے زمیندار اور کسان خسارے کے نیچے دب جائیں گے


دریائے سندھ کے بائیں حصے میں واقع زیریں سندھ کے ضلع میرپور خاص کی تحصیل جھڈو اور ضلع بدین کی تحصیل ٹنڈو باگو کی سرحد پر قائم گاؤں ملکانی شریف سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ سلطان ملکانی صاحب تین اپریل 2025 کو محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہوئے ہیں وہ اپنے گاؤں میں ہائی اسکول ٹیچر تھے۔

سلطان اور ان کے سات بھائیوں نے تقریباَ سو ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی ہے۔ سلطان کے مطابق سندھ میں گندم کی فصل سب سے پہلے ان ہی کے علاقوں یعنی جھڈو اور اس کے گرد نواح میں اترتی ہے۔ ”یہاں فروری کے آخر اور مارچ کے پہلے ہفتے سے گندم کی کٹائی شروع ہو جاتی ہے۔“

”پانی کی منصفانہ تقسیم نا ہونے اور پانی چوری ہونے کی وجہ سے ٹنڈو باگو اور جھڈو تک پانی نہیں پہنچتا۔ ہماری زمینیں بہت اچھی ہیں، پانی نہیں ہے۔ نصیر کینال پر جھڈو اور اس کے گرد نواح میں سو ایکڑ کا زمیندار مشکل سے 25 سے 30 ایکڑ زمین پر فصل کاشت کر سکتا ہے۔ باقی زمینیں بنجر اور غیر آباد پڑی ہیں“

پانی کی چوری اور قلت کے خلاف جھڈو کے کسانوں اور زمینداروں کی تحریک پورے پاکستان میں مشہور ہے، جسٹس افتخار محمد چودھری جب چیف جسٹس آف پاکستان تھے تو عدالت عظیٰ نے از خود نوٹس بھی لیا تھا۔

سلطان کے مطابق ان کی اچھی زمینوں کو جہاں وقت پر پانی مل سکا ہے وہاں 35 سے 40 من تک گندم کی پیداوار ہوئی، جب کے جہاں پانی کم پہنچا اور خشک سالی والے علاقے ہیں وہاں 20 سے 25 من تک پیداوار مشکل سے ملی ہے۔

سلطان کو موسموں، حکمرانوں کے فیصلوں اور قدرت سے شکایت ہے۔

سلطان کے مطابق جب سیلاب آتا ہے تو زیریں سندھ میں ڈوبنے والا پہلا علاقہ جھڈو ہوتا ہے، جب پانی کم ہوتا ہے تو سب سے پہلے خشک سالی کا بوجھ ہم جھڈو والوں کو اٹھانا پڑتا ہے کے ہم نصیر کینال اور دریائے سندھ کی منزل پر ہیں، جہاں دریا اور نہر ختم ہوتے ہیں۔

اس سال سردیاں کم پڑی ہیں، موسم میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کا نقصان بھی ہمیں اٹھانا پڑتا ہے، فصلوں کی پیداوار وہ نہیں مل رہی جو ماضی میں ملتی تھی۔ اوپر سے حکومت وقت فصلوں کی قیمتیں مقرر نہیں کر رہی، جو جتنی چاہے گندم کی قیمت متعین کرے۔ اب یہ ہے اس ملک میں کسان کے لیے پالیسی۔

سلطان کے مطابق گندم کی فصل پر کھاد اور ٹریکٹر کا خرچہ زیادہ لگتا ہے۔ ڈیزل مہنگا ہونے کی وجہ سے ٹریکٹر اور مشین بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ہل چلانے والی ٹریکٹر کا ایک گھنٹہ تین ہزار روپے کا ہے۔ کھاد کی قیمتیں دیکھیں 14 ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک کا ایک تھیلا کھاد کا ملتا ہے۔ ایک ایکڑ پر صرف کھاد اور ٹریکٹر کا خرچہ ہی 40 ہزار روپے کے قریب ہے۔ بیج، کٹائی اور تھریشر مشن کا خرچہ جدا ہے۔

سلطان پریشان ہیں ان کے مطابق حکومت نے رواں سال گندم کی نہ سرکاری قیمت مقرر کی ہے اور نہ ہی سرکار گندم خرید کر رہی ہے۔ اس بار ہم سات بھائی اور ہمارے کسان گندم کے خسارے کے نیچے دب جائیں گے، گندم منافعے والی فصل تھی، حکومتی فیصلوں نے وہ خسارے کی فصل میں تبدیل کر دی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے رواں سال 2025 کے دوران گندم نہ خریدنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم گندم نہیں خریدیں گے۔ ہمارے پاس 13 لاکھ ٹن گندم موجود ہے۔

مراد علی شاہ کے مطابق حکومت سندھ گندم کی قیمتوں کا تعین نہیں کرے گی اور مارکیٹ کی قوتوں کو قیمتوں کا تعین کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

محکمہ خوراک سندھ کے مطابق گزشتہ سال 2024 میں 9 لاکھ ٹن گندم مارکیٹ سے خرید کی گئی تھی۔
جب کے حکومت سندھ کی طرف سے صوبے میں گندم کی قیمت چار ہزار روپے فی من مقرر کی گئی تھی۔

سلطان اور ان کے بھائی مظفر کو شکایت ہے کہ محکمہ خوراک سندھ کی طرف سے حسب روایت گزشتہ سال بڑی اکثریت سے گندم خرید نہیں کی گئی، صرف ان زمینداروں سے گندم محکمہ خوراک کی طرف سے خرید کی گئی جو با اثر تھے یا جن کا تعلق سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تھا۔

باقی زمینداروں اور کسانوں نے کھلی منڈی میں 25 سو سے لے کر تین ہزار روپے تک کی قیمت پر ایک من گندم فروخت کی ہے۔

سندھ آبادگار بورڈ کے صدر سید محمود نواز شاہ کے مطابق سندھ کے تین ڈویژنز حیدرآباد، میرپور خاص اور نوابشاہ ڈویژن میں گندم کی فصل اتر گئی ہے۔

سندھ کے اضلاع جن میں عمر کوٹ، میرپور خاص، سانگھڑ اور خیرپور میرس کے چونڈکو والے حصے کی زمینیں نارا کینال پر آباد ہوتی ہیں، نارا کینال پر آباد گندم کی فصل کو آخری باری کا پانی نہیں مل سکا وہاں 10 سے 15 فیصد کنکی کی فصل کم ہوئی ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے۔

سید محمود نواز شاہ کے مطابق مذکورہ اضلاع میں گندم کی فصل اتر گئی ہے، کہیں کٹائی ہو چکی ہے کہیں کٹائی جاری ہے۔

ساڑھے 21 سو روپے فی من قیمت پر گندم خریدی جا رہی ہے۔

سندھ آبادگار بورڈ کے مطابق ملک میں زرعی فصلوں کی برآمد پر پابندی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط قبول کی ہوئی ہیں، ان شرائط کا نقصان ملک کا کسان اور آبادگار اٹھا رہا ہے۔ حکومت گندم خود بھی نہیں خرید کر رہی اور باہر بھیجنے کا موقع میسر نہیں، کسان اور زمیندار اب کیا کریں ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔

اشفاق لغاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اشفاق لغاری

لکھاری، میڈیا سائنسز کا طالب علم ہے۔ پڑھنا، لکھنا، گھومنا اور سیاحت کرنا اس کے محبوب کاموں میں شامل ہیں۔

ashfaq-laghari has 39 posts and counting.See all posts by ashfaq-laghari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments