پاکستان میں جہاد کے نعرے: شہباز و نواز شریف بیلا روس کے دورے پر
وزیر اعظم شہباز شریف ایک ایسے وقت میں دو روزہ سرکاری دورہ پر بیلا روس گئے ہیں جب ملک کے علما فلسطین آزاد کرانے اور غزہ کے باسیوں کی حفاظت کے لیے عوام کو ’جہاد‘ کے لیے تیار کر رہے ہیں، بلوچستان میں سیاسی احتجاج کی وجہ سے کاروبار زندگی معطل ہے اور امریکی اقدامات سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نئے معاشی چیلنجز سامنے آرہے ہیں۔
بیلا روس مشرقی یورپ میں 90 لاکھ آبادی کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات محدود ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران پاکستان سے بیلا روس برآمدات نصف ملین ڈالر سے بھی کم تھیں۔ اسی مدت میں پاکستان نے البتہ بیلا روس سے 35 ملین ڈالر کا سامان درآمد کیا تھا۔ البتہ وزیر اعظم کے ایجنڈے میں بیلا روس کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرنے کا موضوع شامل نہیں تھا کیوں کہ اس دورہ میں افہام و تفہیم کی جن یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں، ان میں دفاع اور ماحولیاتی تحفظ کے معاملات کے علاوہ اگرچہ تجارتی تعلقات کا بھی ذکر ہے۔ البتہ وزیر اعظم یا ان کے وفد میں شامل کسی رکن نے یہ نکتہ پیش نہیں کیا کہ بیلا روس کو زیادہ مقدار میں پاکستان سے مصنوعات منگوانا چاہئیں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی خسارہ کم ہو سکے۔
اس کی بجائے وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ اعلان کرتے ہوئے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا ہے کہ بیلا روس، پاکستان کے ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو اپنے ہاں کام دے گا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’یہ پاکستانی نوجوان ایک طرف بیلا روس کی معیشت میں مثبت کردار ادا کریں گے تو اس کے ساتھ ہی پاکستان میں اپنے اہل خاندان کی کفالت کی ذمہ داری پوری کرسکیں گے‘ ۔ انہوں نے صدر الیگزنڈر لوکا شینکو کو یقین دلایا کہ عالمی معیار کے مطابق تربیت یافتہ پاکستانی نوجوان بیلا روس کے لیے عظیم اثاثہ ثابت ہوں گے۔ ایک سرکاری دورے کے دوران پاکستان سے لیبر بھیجنے کی بات پر فخر و مسرت کا اظہار واضح کرتا ہے کہ پاکستان جیسے بڑے ملک کی حکومت اپنے لوگوں کو مناسب روزگار فراہم کرنے کے میں تو کامیاب نہیں ہے لیکن اس کا وزیر اعظم افرادی قوت کو ’برآمدی مال‘ سمجھ کر اسے بھی ایک نعمت قرار دینے کی کوشش ضرور کر رہا ہے۔ انہوں نے میزبان ملک کے صدر اور حکومت کو یقین دلایا کہ پاکستانی کارکن ان کی معیشت کو فائدہ پہنچائیں گے۔
اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ وسائل سے زیادہ آبادی والے ممالک کے لوگوں کو بیرون ملک روزگار تلاش کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور سے ایک ایسی صورت حال میں جب پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہو، آبادی میں اضافہ مسلسل ہو اور نئی صنعتیں قائم ہونے کا کوئی امکان نہ ہو۔ ملک میں سیاسی بحران، دگرگوں معاشی حالات اور امن و امان کی خراب ہوتی صورت حال کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی طرح ملک سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوان یا تو ملک سے جا چکے ہیں یا کسی بھی طرح پاکستان سے باہر نکل کر اپنے لیے وہ مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں جو بوجوہ انہیں پاکستان فراہم نہیں کر سکا۔ اس حوالے سے انسانی اسمگلنگ کرنے والے عناصر نوجوانوں کو یورپ پہنچانے کے بہانے کثیر رقوم وصول کرتے ہیں۔ پھر ان نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے ایک سے دوسرے ملک پہنچایا جاتا ہے اور مزید وسائل وصول کرنے کے لئے بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کو ترکی اور افریقی ممالک سے یورپی ساحلوں تک جانے والی پہنچنے والی کشتیوں میں سے اگر کسی کے ڈوبنے کی خبر آئے تو اس میں عام طور سے درجنوں پاکستانی نوجوان بھی شامل ہوتے ہیں جو بہتر مواقع کی تلاش میں کسی بھی طریقے سے ملک سے نکلنا چاہتے ہیں۔
پاکستان سے انسانوں کو اسمگل کر کے یورپ بھجوانے والے عناصر کو عام طور سے سرکاری اداروں اور بدعنوان اہلکاروں کا تعاون حاصل ہوتا ہے لیکن کوئی سرکاری ادارہ یہ ضمانت دینے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ ان نوجوانوں کو واقعی بخیریت منزل مقصود تک پہنچا دیا جائے گا۔ کشتی ڈوبنے کا کوئی سانحہ رونما ہو جانے کے بعد حکومتی عہدیدار ضرور شور مچاتے ہیں لیکن نہ تو یہ کاروبار کم ہوتا ہے اور نہ ہی مایوس نوجوان ملک چھوڑنے کی خواہش ترک کرتے ہیں۔ لیکن حکومت ناقص ہتھکنڈوں سے اس ٹریفک کو روکنا چاہتی ہے۔ گزشتہ روز ہی وزیر داخلہ محسن نقوی نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ حکومت نے ایسے 50 ہزار لوگوں کے پاسپورٹ بلیک لسٹ کر دیے ہیں جو غیر قانونی طور سے ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ گویا ملک کے مایوس نوجوان ایک طرف انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں پریشان ہوتے ہیں اور اس غیر قانونی دھندے کی روک تھام کی بات ہو تو انہیں ہی اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ وزیر داخلہ نے اس تقریر میں یہ نہیں فرمایا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث مافیا گروہوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کیا اقدام کیا گیا ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت بھی نہیں دی گئی کہ جن لوگوں کے پاسپورٹ ضبط کیے گئے ہیں، وہ کسی نئے نام اور شناخت سے ایک بار پھر بیرون ملک سفر کے قابل نہیں ہوں گے۔
یوں تو بیلا روس کے دورے پر گئے ہوئے وزیر اعظم کی طرف سے ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کے روزگار کی خبر ’مثبت‘ ہی ہے کہ کم از کم اتنی تعداد میں نوجوان تو غیر قانونی طور سے جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک سے جانے کی کوشش کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے۔ لیکن جب وزیر اعظم ایسی خبر کو سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرتا ہے تو اس کی حکومت کی ناکامی اور ملکی عوام کی بہبود کے بارے میں اس کی ذمہ داری پر سوال تو ضرور کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ضرور ملک سے ایسے لوگوں کو باہر بھیجنے میں مدد فراہم کرے جنہیں ملکی صنعت میں بروئے کار نہیں لایا جاسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک سے ’برین ڈرین‘ کو اپنی کامیابی سمجھنے کی بجائے، ایسے معاشی منصوبے شروع کرے جو باصلاحیت اور تعلیم یافتہ لوگوں کو مناسب روزگار فراہم کرسکیں۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومت ایک طرف بے نظیر انکم سپورٹ جیسے خیراتی پروگرام کے تحت لوگوں کو ’امداد‘ دینا اعزاز سمجھتی ہے یا وزیر اعظم بیلا روس میں ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملنے کی خبر پر خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ حالانکہ یہ خبر شہباز شریف کے لیے لمحہ فکر ہونی چاہیے کہ جس ملک کے بارے میں دن رات یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ وسائل کی بے پناہ دولت سے مالا مال ہے، اس کے نوجوانوں کو کیوں ’برآمدی مال‘ بنا لیا گیا ہے۔
شاید دیگر اہم قومی مسائل کی طرح یہ نکتہ بھی وزیر اعظم کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ اسی لیے ایک ایسے موقع پر بیلا روس جیسے کم اہم ملک کے دورہ میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا گیا جب ملک میں حالات پریشان کن ہیں۔ گزشتہ روز فلسطین کانفرنس کے نام سے ایک فورم پر ملک کے چیدہ چیدہ علما نے اسرائیل کے خلاف تند و تیز تقاریر کیں اور جہاد کو کل مسلمان ممالک کے حکومتوں اور عوام پر واجب قرار دیا۔ اس کانفرنس کے بعد آج ملک بھر میں مظاہروں کے ذریعے ان علما نے اپنی طاقت ظاہر کی ہے۔ حالانکہ پاکستان میں جلوس نکالنے، بین الاقوامی فرنچائز پر حملے کرنے اور پر جوش تقریریں کرنے سے نہ اسرائیل ختم ہو جائے گا اور نہ فلسطین آزاد ہو گا۔ یوں بھی بین الملکی معاملات میں عقل سے عاری ان مولویوں کے لیے یہ بات سمجھنا دشوار ہے کہ ان حرکتوں سے ایسے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں جو سفارتی، تجارتی اور دفاعی لحاظ سے پاکستان کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ حکومت کو ان کم فہم ملاؤں کی باتوں پر مناسب جواب دینا چاہیے تھا اور جہاد کے فتوؤں جیسے اشتعال انگیز طریقہ کو مسترد کر کے یقین دلانا چاہیے تھا کہ حکومت، مولویوں کی دھمکیوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ لیکن ملک کا وزیر اعظم تو ایک چھوٹے ملک کے دورے پر بھاری بھر کم وفد کے ساتھ بیلا روس گیا ہوا ہے۔
وزیر اعظم کے وفد میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، معاون خصوصی طارق فاطمی اور دیگر شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کا دورہ ہے جس کی کل آبادی 90 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور عالمی سفارت کاری میں اسے روس کے ’آلہ کار‘ سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کے بیلا روس سے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے بیلا روس کو پاکستانی برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور گزشتہ سال ان کی شرح چار پانچ لاکھ ڈالر سے زیادہ نہیں تھی۔ ایک بڑے وفد کے ساتھ بیلاروس جیسے ملک کے دورے کی کوئی غرض و غایت قابل فہم نہیں ہے اور نہ ہی حکومت نے اس کی صراحت کی ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی ’منتخب‘ حکومتیں عوام سے ووٹ تو مانگتی ہیں لیکن انہیں جواب دہ نہیں ہوتیں۔
بیلا روس کے ساتھ تجارت کی نوعیت کی صورت حال کے باوجود پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز بھی وزیر اعظم کے ہمراہ گئی ہوئی ہیں۔ یہ ناقابل فہم ہے کہ ایک صوبائی حکومت کی سربراہ اس دورے میں اپنے صوبے کے لیے کیا مفادات حاصل کرے گی یا کیسے پنجاب یا پاکستان کا نام روشن کرنے میں کردار ادا کرے گی۔ البتہ بیلا روس کا دورہ کرنے والے سرکاری وفد کے حجم کے علاوہ اس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیر اعظم کے بھائی نواز شریف کی شمولیت بھی حیران کن ہے۔ آخر نواز شریف اس دورے میں کس حیثیت میں کیا کردار ادا کرنے کے لیے بیلا روس تشریف لے گئے ہیں؟ یا یہ ایک خاندان کا تفریحی دورہ ہے جو اتفاق سے اس وقت ملک پر حکمران ہے؟
بیلا روس روانگی سے قبل نیشنل پارٹی کے صدر اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے جاتی عمرہ میں نواز شریف سے ملاقات کی تھی اور بلوچستان کا بحران حل کرانے میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس پر غور کرنے کی بجائے نواز شریف نے بھائی کے ہمراہ بیلا روس جانے کو ترجیح دی تاکہ صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کے فارم ہاؤس پر ان کی فراخدلانہ میزبانی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ملک میں لگی آگ بجھانے اور عوام کے بیچ رہ کر مسائل پر بات کرنے کی بجائے، اس وقت شریف برادران بلکہ خاندان بیرونی دورے پر روانہ ہے۔ موجودہ حالات میں یہ دورہ حکومت اور ملک کی اہم پارٹی کے لیڈر کی بے حسی اور ملکی حالات سے لاتعلقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
- اقلیتوں کے وجود کو ماننے سے انکار - 18/04/2025
- خادم اعلیٰ سے چیف ایگزیکٹو افسر تک - 17/04/2025
- فلسطین پالیسی پر عوام کو گمراہ کرنے کے نت نئے ہتھکنڈے - 15/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).