ضیا کی ایک غلطی جو بھٹو کی ہزار غلطیوں پر بھاری رہی


بچپن کا ایک بلدیاتی الیکشن تھا۔ ووٹ دینے کی عمر سے کوسوں دور ہم لوگ ہر گلی میں بھٹو اور تیر کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ قریب ایک سرکاری سکول تھا۔ وہاں کے چوکیدار کا بیٹا عمر میں کچھ زیادہ تھا اور اس کی سائیکل شیر کے جھنڈوں سے بنی سنوری ہوتی تھی۔ ایک دن بہت سے بچوں کے درمیان نعرے لگاتے ہوئے اس نے روک لیا۔ کہنے لگا یار بتاؤ تو سہی تم لوگ تیر کے نعرے کیوں لگاتے ہو۔ بھٹو اور بے نظیر کے ناموں کے علاوہ کوئی کچھ بھی نہیں جانتا تھا، یا پھر اس وقت پارٹی کی طرف سے کھڑے ہونے والے امیدوار کا نام معلوم تھا۔ اچانک ہم میں سے ایک چلا کر بولا، “اس لیے کہ بھٹو شہید ہوا تھا، اسے ضیاالحق نے پھانسی دلوائی تھی، اس کی بیٹی مظلوم ہے، اس کی پارٹی مظلوم ہے، ہم اسی کا ساتھ دیں گے۔” تو بھٹو کی بیٹی کیا کونسلر بنے گی؟ “نہیں” تو پھر تم اس بندے کے لیے نعرے کیوں لگا رہے ہو جو تمہارے محلے کا نہیں ہے، جو اپنے علاقے کا ہے، جسے تم جانتے ہو اس کے لیے جلوس نکالو، یہ دیکھو، بہت ساری جھنڈیاں بھی میرے پاس ہیں۔ “نہیں ہمیں یہ سب کچھ نہیں چاہئیے، ہمارے پاس یہ ایک جھنڈا ہے پیپل پالٹی کا، ہم اسی کو چلائیں گے۔” اس وقت بس ایک تیر والا جھنڈا ہوتا تھا اور ایک دلا تیر بجا والی کیسٹ ہوتی تھی، شہر کی گلیاں کم نہیں تھیں، حلقے سے باہر بھی جا کر ناچ آتے تھے۔

تھوڑے بڑے ہو کر اندازہ ہوا کہ بھٹو بڑی کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ حق سچ پر ڈٹ جاتے تھے۔ غریبوں کے لیڈر تھے۔ سوشلزم کے حامی تھے۔ سر عام کہتے تھے کہ ہاں پیتا ہوں، تھوڑی سی پیتا ہوں، کسی کا خون تو نہیں پیتا۔ شلوار قمیص کو عوامی سوٹ انہوں نے بنایا۔ کوٹ پتلون انہیں جچتا تھا، جب وہ چلتے تھے تو ان کی آنکھوں میں دنیا فتح کرنے کا عزم ہوتا تھا۔ کسی سے ڈرتے نہیں تھے، کسی سے دبتے نہیں تھے، دبنگ تھے، نڈر تھے، دلیر تھے اور پوری قوم کے نوجوان ان کے ساتھ تھے۔ ان کے ایک اشارے پر بلوے ہو جاتے تھے۔ پسینے کی جگہ لوگ خون بہاتے تھے، ایک عجب رومانوی دور تھا کہ جس کے نشے میں کارکن سب کچھ کر گزرتے تھے۔ کھلی آستینیں لہرا لہرا کر جب وہ کہتے تھے یہ قوم دنیا کی عظیم قوم بنے گی، دنیا کا لوہا بنے گی تو سب کہتے تھے بنے گی، میرا ساتھ دو گے، تو سب کہتے تھے ہاں دیں گے، خدمت کرو گے، کریں گے، محنت کرو گے، کریں گے، لڑو گے، لڑیں گے، مرو گے، مریں گے، اور جدوجہد کرو گے، کریں گے، ایمان سے کرو گے، کریں گے، خدا کی قسم کرو گے، کریں گے۔

پڑھنا شروع کیا تو پتہ لگا کہ بھٹو کے پیچھے مرنے والے، لڑنے والے، ساتھ دینے والے، محنت کرنے والے، خدمت کرنے والے، خون بہانے والے، ایمان سے بہانے والے، خدا کی قسم کھا کر بہانے والے جو تھے وہ کہیں بہت ہی پیچھے رہ گئے اور بھٹو اکیلا پھانسی پر جھول گیا۔ اسے بچانے کے لیے بہت سے جیالوں نے احتجاج کیا، اپنے آپ کو پنکھوں سے لٹکایا، قلعے کی اذیتیں برداشت کیں، کوڑے کھائے، خود سوزی کی اور جو کچھ ہو سکا وہ کیا، لیکن وہ بھٹو کو واپس کہاں لا سکتے تھے، وہ تو اپنی اذیتوں کا مداوا چاہتے تھے، اپنے لیڈر کو بچا نہ سکنے کا کفارہ ادا کرتے تھے۔ بھٹو کے لیے کچھ نہ کر سکنے کا غم اس قدر شدید تھا کہ اس کا لاوا آج بھی کارکنوں کے دلوں میں پکتا ہے، یہی آنچ تھی جس نے بھٹو کی پھانسی کے تیرہ چودہ برس بعد نصیر کوی سے یہ نظم کہلوائی؛

تم ڈاکو چور لٹیرے بھی نگرانی کرنے آئے ہو

تم خلق خدا کے ٹھکرائے، سلطانی کرنے آئے ہو

تم بھوکے ننگوں کے خوں کی ارزانی کرنےآئے ہو

تم ٹینکوں توپوں کے بل پر من مانی کرنے آئے ہو

تم آمر کے پروردہ ہو، جمہور کے معنی کیا جانو ؟

تم قاتل ہو دستوروں کے، دستور کے معنی کیا جانو؟

تم فتویٰ گر ہو شاہوں کے، منصور کے معنی کیا جانو؟

تم تاریکی کے پالے ہو تم نور کے معنی کیا جانو ؟

ہم بھٹو کے دیوانے ہیں، یہ جان امانت بھٹو کی

بی بی پہ کرنے آئے ہیں، قربان امانت بھٹو کی

ہم آن پہ مرنے والے ہیں یہ آن امانت بھٹو کی

جس شان سے مقتل میں آئے وہ شان امانت بھٹو کی

کیوں اتنا بوجھ اٹھاتے ہو؟ کل کیسے قرض اتارو گے

تم اپنی جاں بخشی کیلئے پھر ہم سے عرض گزارو گے

یہ بازی جان کی بازی ہے اور تم یہ بازی ہارو گے

ہرگھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے

لکھنا شروع کیا تو چند نئے زاویے سامنے آئے۔ تاریخ کا ستم دیکھا، جو یہ تھا کہ وہی بھٹو جو سوشلزم کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر آیا اسے بعد میں رامے صاحب نے کچھ مکس برانڈ ازم پر قائل کر لیا۔ وہی بھٹو جو کہتا تھا کہ تھوڑی سی پیتا ہوں، وہی کوثر نیازیوں کو آگے بڑھانے لگا، اسی نے پورے ملک میں تھوڑی سی یا زیادہ پینے کو غیر قانونی قرار دیا۔ وہی بھٹو جو سب کا بھٹو تھا، جمہور کا بھٹو تھا، اقلیتوں کا بھٹو تھا، اسی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا۔ وہی بھٹو جو قوم کو دنیا کا لوہا بنانا چاہتا تھا اس نے قوم کو دنیا بھر سے الگ ایک چھٹی جمعتہ المبارک کی دلوا دی۔ وہی بھٹو جس نے سیاست اپنے دریاؤں سے سیکھی تھی اس نے باقاعدہ ایک نظریاتی کونسل تک بنائی کہ نصابی سوچ والے حلقے اسے بخش دیں، پر نہ بھٹو بخشا گیا نہ آج تک وہ کونسل ختم ہوئی جس کی قانونی مدت چار برس تھی۔

ہر وہ مقبولیت پسند حربہ آزما کر دیکھ لیا جو اس کے خیال میں اسے بچا سکتا تھا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ بھٹو حکومت پر شب خون مار دیا گیا۔

غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو بھٹو سرتاپا ایک سیاست دان تھے۔ حالات کے دھارے میں بہتے ہوئے بچنے کی جو بھی کوشش ممکن ہوئی انہوں نے کی لیکن آمریت سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ بھٹو کے نام پر ووٹ ڈالنے والے بھٹو کے تیوروں کو ووٹ ڈالتے تھے۔ وہ تیور کہ جن کی سزا بھٹو خاندان کے ایک ایک فرد سے لی گئی۔ ایک سیاست دان قید ہو سکتا ہے، ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا سکتا ہے، پھانسی چڑھ سکتا ہے لیکن آمریت کی راہ ہموار نہیں کر سکتا۔ اگر بھٹو کوئی بھی ڈیل کر لیتے کسی سمجھوتے کے ذریعے باہر آ جاتے تو کتنا جی لیتے؟ وہ مزاحمت کا استعارہ بنے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس نے انہیں موت کے بعد بھی زندگی بخش دی۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، ان سے بھی ہوئی ہوں گی لیکن ضیا کی ایک غلطی ان کی ہزار غلطیوں پر بھاری رہی۔

بھٹو زندہ رہ گیا!

(نوٹ: یہ کتابی باتیں ہیں انہیں ہرگز سیریس نہ لیا جائے۔ سیاست اور انا پرستی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ بھٹو ثانی بننے کی کوشش کیجیے لیکن پہلے اتنا سیاسی قد کاٹھ بھی پیدا کیجیے!)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain