آغا خان سکول، دولومس: آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے لئے ایک ٹیسٹ کیس
پچھلے کچھ دنوں سے آغا خان سکول، جونیئر کیمپس، دولومس، کا معاملہ زیر بحث ہے۔ فیس میں اضافے پر انتظامیہ اور والدین میں بحث کے بعد اختلاف پیدا ہوا تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق سکول انتظامیہ کی طرف سے بے تحاشا اضافے کے بعد والدین اس کے خلاف کنزیومر کورٹ گئے تھے۔ تاہم گفت و شنید کے بعد کمیونٹی اور انتظامیہ کے درمیان یہ معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہوا ہے۔ دولومس سکول والے معاملے کو مد نظر رکھتے ہوئے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔
1۔ آغا خان ہایئر سیکنڈری سکول کوراغ اور سین لشٹ کی بھاری فیس جائز بھی ہے اور والدین بھی اپنے بچوں کو داخل کرنے سے پہلے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ یہ سکول ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان کے ’کوالٹی ایجوکیشن‘ کے وژن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ والدین پہلے ہی فیس کو مدنظر رکھ کر بچوں کو یہاں داخلہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ قابل بچے جو یہاں داخلہ لینے میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن ان کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوتی ہے تو مخیر خواتین و حضرات اور ادارہ وظیفوں کے ذریعے ان کی مالی معاونت کرتے ہیں۔
2۔ اس کے برعکس دور دراز کے آغا خان سکول ’تعلیم ہر ایک کے لئے‘ کے منشور پر گامزن ہیں۔ یہ سکول ہز ہائنس کے اس وژن کی عکاسی کرتے ہیں جس کے مطابق تعلیم آسانی سے اور کم خرچ میں بغیر کسی تفریق کے ہر ایک کی دسترس میں ہو۔ تاہم کچھ سالوں سے ان سکولوں کو بھی عام پرائیویٹ سکولوں کی طرح آمدنی کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے جو کہ ہز ہائنس کے وژن کی خلاف ورزی ہے۔ مثال کے طور پر آغا خان سکول موردیر، میں تیسری جماعت کے طالب علم کی فیس 3700 روپے ہے جو کہ اس علاقے اور لوگوں کے آمدن کے تناسب سے بہت زیادہ ہے۔ اس کے برعکس چترال ٹاؤن کے دوسرے پرائیویٹ سکولوں میں ہایئر کلاسز کی فیس بھی آغا خان سکولوں کے پرائمری لیول سے کم ہے۔ اگر دوسرے ادارے اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے زیادہ فیس لیتے ہیں تو یہ سمجھ آتی ہے لیکن جن سکولوں کی بیک پر آغا خان ایجوکیشن سروس جیسا معاشی طور پر مستحکم ادارہ ہو، ان کو نہ یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اتنی زیادہ فیس لیں اور نہ ہی یہ ہز ہائنس کے وژن ’تعلیم ہر ایک کے لئے‘ کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
3۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں مونٹیسوری سسٹم اور پرائمری تعلیم اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ چترال میں آغا خان ایجوکیشن سروس اس میدان میں پائنیئر ہے۔ تاہم ان کی فیس دس ہزار کے لگ بھگ ہونے کی وجہ سے یہ بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس سے بھی مایوس کن بات یہ ہے کہ جو لوگ اس میں پڑھا رہے ہیں وہ محض بی اے پاس یا ماسٹرز ڈگری ہولڈرز ہیں۔ ان کو محض چند ہفتوں کی ٹریننگ دے کر اتنی بڑی ذمہ داری دی جاتی ہے جس کے ساتھ وہ کسی صورت انصاف نہیں کر پاتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق ان سینٹروں میں پڑھانے والے بعض ٹیچرز کو زیادہ تر لرننگ میٹیریل کے نام تک نہیں آتے ہیں۔ ایک دو کے ساتھ میرا خود بھی واسطہ پڑا جن کو ’فیبرک ٹیبلیٹ‘ اور ’بیریک ٹیبلیٹ‘ میں فرق تک کا پتہ نہیں تھا۔
4۔ آغا خان سکول، دولومس کیمپس، والا معاملہ لینگ لینڈ سکول کی طرح آغا ایجوکیشن سروس کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہو گا۔ لینگ لینڈ سکول میں فیسوں میں اضافے پر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب نے آواز اٹھائی تو ایک خود غرض طبقے نے ان کی مخالفت کی۔ اسی طرح جب والدین پر یونیفارم بم گرایا گیا تو اس خاکسار نے مخالفت کی۔ اس وقت بھی انہی لوگوں نے میری مخالفت کی تھی جو آج کل دولومس سکول میں فیس کی بڑھوتری کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے معاملات میں انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ان والدین کو مدعو کرے جو اصل پارٹی ہیں نہ کہ اپنے من پسند چند معاشی طور پر با اثر لوگوں کو۔ یہی غلطی لینگ لینڈ سکول والوں نے بھی ایک صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر کی تھی جس کی وجہ سے آج یہ سکول جس بربادی کا شکار ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
5۔ انتظامیہ یہ کہہ سکتی ہے کہ یہ سکول ایک ماڈل سکول ہے۔ سکول کے قیام کے وقت اس بات کو مد نظر رکھ کر سکول فیس کا تعین کرنا چاہیے تھا نہ کہ یک دم سے ہوشربا اضافہ کر کے۔ رہی بات ماڈل سکول کی تو یہ بات قابل غور ہے کہ کیا یہاں کے اساتذہ کی تنخواہ دوسرے سکولوں سے زیادہ ہے؟ کیا یہاں کے سارے اساتذہ آغا خان یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ایم ایڈ ڈگری ہولڈرز ہیں؟ کیا یہاں کے اساتذہ کی کوئی اور خاص ٹریننگ بھی ہوتی ہے؟ کیا یہاں کے اساتذہ اور طلباء و طالبات کا تناسب ترقی یافتہ ممالک کے سسٹم کے متوازی ہے؟ کیا یہاں بھی ہر ہفتے کی بنیاد پر ہر طالب علم کی کارکردگی کے حوالے سے والدین کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے؟ آخر میں لیکن سب سے اہم یہ کہ کیا چترال کے لوگ بھی گلگت اور کراچی کے لوگوں کی طرح معاشی طور پر اتنے مستحکم ہیں کہ وہ اتنی فیس یا فیس میں اضافہ برداشت کر سکتے ہیں؟
اگر ان کا جواب اثبات میں ہے تو بھاری فیس لینا یا فیس میں اضافہ جائز ہے۔ اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو آغا خان ایجوکیشن سسٹم کی اعلیٰ قیادت کو چاہیے کہ زمینی حقائق، معاشی، سماجی اور معاشرتی حالات کو مد نظر رکھ کر پالیسی بنائیں جس سے عوام کو فائدہ ہو۔ اس میں کمیونٹی کی اکثریت کی رائے کو اہمیت دی جائے نہ کہ چند انا پرست لوگوں کے مفادات کو تقویت۔ کسی بھی فیصلے میں مقامی لوگوں کو شامل کیا جائے کیونکہ ان لوگوں کی جدوجہد اور کوشش کے بغیر ان کی کامیابی نا ممکن ہے۔
- چترال: نو آبادیاتی علم، نصابی تعصبات اور مقامی اقدار - 18/04/2025
- قاقلشت کی تباہی میں ہمارا کردار - 17/04/2025
- آغا خان سکول، دولومس: آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے لئے ایک ٹیسٹ کیس - 15/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).