کتب خانہ جوہر


مولانا محمد علی جوہر کی نسبت سے اس خوبصورت کتب خانہ کا نام ہمایوں خان نے کتب خانہ جوہر رکھا۔ چارسدہ روڈ، پشاور میں اپنے گھر میں یہ گوشۂ علم و ادب اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ ہر خاص و عام کے شوق مطالعہ کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ کتابیں جمع کرنے کا شوق اکثر لوگوں کو ہوتا ہے اور یہ شوق صدیوں پرانا ہے لیکن کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کو نظم و ترتیب کے ساتھ الماریوں میں سجانا اور ایسا ماحول فراہم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بقول جون ایلیا

میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

ہمایوں خان کے کتب خانے پر جون ایلیا کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے اور واقعی ان کے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ انھیں بچپن ہی سے کتب بینی کا نہ صرف شوق تھا بلکہ اُردو، فارسی، عربی، ہندکو اور پشتو زبان و ادب کے علاوہ دینی و تاریخی کتب کی جمع آوری کا شوق بھی وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا اور آج پچاس پچپن سال کی عمر میں کم و بیش آٹھ سے دس ہزار نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ بلکہ خزانہ ان کی ملکیت ہے۔ اس کتب خانے میں صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ مختلف موضوعات پر لکھے گئے تحقیقی و تنقیدی مقالے بھی موجود ہیں۔ کتابوں سے کی گئی ایسی محبت کی مثال آج کے جدید دور میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ یہ ذاتی کتب خانے کتاب سے لگاؤ، لگن اور محبت کی ایک زندہ مثال ہے۔ ہمارے ملک کے تقریباَ ہر خطے میں آپ کو ایسے افراد ضرور مل جائیں گے جنہوں نے اپنے ذاتی شوق و ذوق کی بدولت نایاب و کمیاب کتابوں کے ایسے ذخیرے جمع کیے ہوئے ہیں جو کہ آج کل بالکل ناپید ہیں۔ ان کتب خانوں سے ہزاروں کی تعداد میں تشنہ گان علم و ادب مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ نجی کتب خانے برصغیر پاک و ہند کی ان بچی کچھی روایات میں سے ایک ہیں جن پر آج ہم فخر کر سکتے ہیں۔ جب آپ ان قدیم اور نادر کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یقین مانیں ماضی کی وہ شان و شوکت اور قومی و ملی تاریخ نظروں کے سامنے تصویر کی مانند آ جاتی ہے اور ذہن و دل اپنے شاندار ماضی کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے جدید دور میں علم و ادب نے خوب ترقی کی ہے اور اس تک رسائی بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت آسان ہو گئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کتاب سے محبت کرنے والے اور اسے خریدنے والے تقریباً کم ہو گئے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی فرد کے پاس نجی کتب خانے میں کتابوں کا انبار نظر آ جائے تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ کتب خانہ دیکھ کر ذہن میں مختلف نایاب کتابوں کے نام گردش کرنے لگے اور پھر ان کی تلاش شروع کر دی۔ ایک سے ایک خوبصورت موتی اور موتیوں کی صورت میں پرویا ہوا یہ کتب خانہ اس خطہ کی قدیم روایات کا عکس پیش کر رہا تھا۔

کتابیں خریدنا اور جمع کرنا الگ شوق ہے اور ان کا مطالعہ کرنا ایک الگ بات ہے۔ لیکن عقل یہی سمجھتی ہے کہ جو خریدتا ہے وہ اسے پڑھتا بھی ہو گا۔ آپ نے کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جن کے پاس خاصی تعداد میں کتابیں تو موجود ہوتی ہیں لیکن نہ تو ان کے پاس رکھنے کے لیے کوئی جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ان کی دیکھ بھال اچھے سے کر سکتے ہیں۔ اکثر ادیبوں کی وفات کے بعد دیکھا گیا ہے کہ ان کی اولادیں یہ خزینے کسی سرکاری اور نجی یونیورسٹی کی لائبریری کو ہدیہ کر دیتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے نہ ہی ان کو جمع کرنے کے لیے اتنے جتن کیے ہوتے ہیں اور نہ ان کو ان کی قدرو قیمت کا احساس ہوتا ہے اور شاید یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایسے حالات اور ذرائع میسر نہ ہوں جو اس سرمائے کی حفاظت کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ ایسے کئی ایک واقعات کا ذکر بطور حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ بہرحال ہمیں ایسے کتب خانوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے اور اپنے تئیں کوشش کرنی چاہیے تاکہ کتاب کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا جا سکے۔

ڈاکٹر شبیر احمد آکاش
Latest posts by ڈاکٹر شبیر احمد آکاش (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments