بلوچستان میں بد امنی کے اسباب اور حل
بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ترقی کے لحاظ سے باقی ملک سے کافی پیچھے ہے۔ یہاں کے عوام طویل عرصے سے احساسِ محرومی کا شکار ہیں، جس کی بنیادی وجوہات میں بنیادی سہولیات کی کمی، تعلیمی اور معاشی پسماندگی اور سیاسی عدم استحکام قابل ذکر عوامل ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کی سیاست میں روایتی قبائلی نظام کا گہرا اثر رہا ہے۔ یہاں کے سردار اور نواب تاریخی طور پر طاقت کے مراکز رہے ہیں اور برطانوی راج کے دوران بھی یہ حکمران طبقہ اپنے علاقے کے عوام پر مکمل اختیار رکھتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی سے متاثرہ سرداری نظام کونہ صرف برقرار رکھا گیا بلکہ اسے دوام بھی دیا گیا۔ سامراجی نظام کے پروردہ اس آہنی شکنجے کو بلوچ عوام کی گردنوں کے گرد کون کستا رہا ہے یہ ایک ایسی زمینی حقیقت ہے جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ چونکہ اقتدار کی بندر بانٹ میں اس خونخوار طبقے کی ہم پیالہ و ہم نوالہ رہی ہے اس لیے اس نے نہ تو کبھی ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کبھی اس نے سنجیدگی اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں لانگ ٹرم پلاننگ کے تحت تعلیم و شعور کے پھیلاؤ کے ذریعے مڈل کلاس کی جینوئن قیادت کو ابھرنے کے مواقع فراہم کیے جس کے سنگین نتائج آج پورے بلوچستان میں بدامنی کی آگ کی صورت میں دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
دراصل قیام پاکستان کے بعد 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں جہاں بلوچ سرداروں نے یہاں اپنا سیاسی اثر و رسوخ برقرار رکھا اور زیادہ تر روایتی سرداری نظام کی حمایت کی وہاں ان دو دہائیوں میں ون یونٹ کے غیر فطری آمرانہ بندوبست نے بھی بلوچستان کی احساس محرومی میں اضافہ کیا۔ 1970 میں سانحہ مشرقی پاکستان سے پہلے عام انتخابات کے موقع پر جب ون یونٹ کو توڑ کر بلوچستان سمیت چاروں صوبوں کو بحال کیا گیا تو بلوچستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب اسے قومی دھارے میں لاتے ہوئے صوبائی اسمبلی اور منتخب صوبائی حکومت کے قابل سمجھا گیا حالانکہ ان اصلاحات کا مطالبہ قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے تاریخی چودہ نکات میں کیا تھا جس سے بلوچ عوام کو قیام پاکستان کے بعد بھی 23 سال تک محروم رکھا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے عنان حکومت سنبھالی اور انہوں نے ملک میں سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا تو اس کی زد چونکہ بلوچ سرداروں پر بھی پڑی تو اس لیے ان کے دورحکومت میں بلوچ سرداروں اور مرکزی حکومت کے درمیان کشیدگی بڑھی جس کے نتیجے میں اگر ایک طرف 1973 میں بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت کو برطرف کیا گیا تو دوسری جانب بلوچ سرداروں اور ان کے مسلح لشکروں کے خلاف ایک بڑے فوجی آپریشن کی شکل میں ریاستی طاقت کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا شاید یہی وہ موقع تھا جب وفاق اور بلوچستان کے درمیان دوریاں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ واضح رہے کہ اس عرصے میں نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی جیسے رہنما بلوچ حقوق کی جدوجہد میں سرگرم رہے جن کا مطمح نظر بنیادی طور پر بلوچ حقوق کے نام پر اپنے سردارنہ مفادات کا تحفظ تھا۔ البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پہلے جنرل ضیاء الحق اور بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار حکومت میں بعض بلوچ سرداروں کو مرکزی حکومت کے قریب لایا گیا جن میں نمایاں نام نواب اکبر بگٹی کا تھا جو اس عرصے میں وفاقی وزیر کے علاوہ صوبے کے گورنر اور 1988 میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے لیکن بد قسمتی سے ان کے دور میں بھی صوبہ ترقی کے بجائے زیادہ تر سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔
بلوچستان میں جاری حالیہ بدامنی کی لہر میں ایک اہم موڑ 2006 میں اس وقت آیا جب بلوچستان میں وفاق کی مضبوط علامت سمجھے جانے والے راہنما نواب اکبر بگٹی کو ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کیا گیا جس کے بعد بلوچستان میں مسلح جدوجہد کے ایک نئے مزاحمتی دور کا آغاز ہوا۔ 2010 کے بعد بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہونا شروع ہوئی جس کے نتیجے میں نوجوان بلوچ سرداروں کی قیادت میں کئی علیحدگی پسند تحریکوں نے جنم لیا جس میں جلد ہی بی ایس او کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کرنے والے پڑھے لکھے فکری نوجوان بھی بڑی تعداد میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ 2008 میں برسراقتدار آنے کے بعد صدر آصف علی زرداری جو خود بھی بلوچ سردار ہیں نے بلوچستان کے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یہاں اگر ایک طرف سیاسی مفاہمت کی جانب توجہ دی تو دوسری طرف بلوچستان کی اقتصادی احساس محرومی کے خاتمے کے لیے بعض سرداروں کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھانے کی کوشش بھی کی جس کی نمایاں مثال پارلیمنٹ سے اٹھارہویں ترمیم کے علاوہ آغازِحقوق بلوچستان پیکج کی منظوری تھی جبکہ اس عرصے میں وفاق مخالف بعض دیگر سرداروں نے ریاستی پالیسیوں پر اپنی تنقید بھی جاری رکھی۔
بلوچستان کی پسماندگی اور احساسِ محرومی کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں سرفہرست تعلیم کی کمی ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق بلوچستان میں خواندگی کی شرح تقریباً 46 فیصد ہے جبکہ پنجاب اور سندھ میں یہ شرح بالترتیب 65 اور 60 فیصد ہے۔ وفاق گریز قوتوں کی جانب سے شرح تعلیم کی اس گراوٹ کا الزام بلوچ سرداروں پر عائد کیا جاتا ہے کہ وہ تعلیمی سہولیات میں بہتری کے بجائے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں جب کہ دوسری جانب بلوچ حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے عناصر ان سہولیات کی کمی کا ذمہ دار وفاق پاکستان اور بالفاظ دیگر اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ گیس، کوئلہ، سونا، گندھک، کرومائیٹ، سنگ مرمر اور تانبے جیسے قیمتی معدنیات کے ذخائر یہاں موجود ہیں لیکن ان کے فوائد عام لوگوں تک نہیں پہنچتے۔ ان قدرتی وسائل کے حوالے سے یہ بھی ایک کھلا راز ہے کہ ان وسائل پر اصل اختیار مقامی سرداروں اور نوابوں کا ہے جو انہیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں جب کہ ان ہی سرداروں کی جانب سے محروم طبقات میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ان وسائل پر وفاق اور اس کی پروردہ اسٹیبلشمنٹ قابض ہے جس سے بلوچ عوام کو ان کے ان حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
گو کہ ماضی میں یہاں کی سیاست پر قابض سرداروں اور نوابوں کے خلاف غریب اور متوسط طبقے کی نمائندہ افراد جن میں غوث بخش بزنجو، میر حاصل بزنجو، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، ڈاکٹر عبد المالک بلوچ، عبداللہ جان جمالدینی اور حبیب جالب بلوچ نمایاں رہے ہیں نے سیاسی جدوجہد کی لیکن بد قسمتی سے ان لیڈروں کے عوام دوست نظریات اور سردار مخالف جذبات کی وجہ سے ان قیادتوں کو پنپنے نہیں دیا گیا جس کے نتائج آج بلوچستان میں لگی بد امنی کی آگ کی صورت میں باآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ناراض بلوچ راہنماؤں کو منا کر قومی سیاسی دھارے میں لانے کے اقدامات اٹھائے تو اس سے نہ صرف بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن جا سکتا ہے بلکہ اس طرح بلوچستان میں لگی بد امنی کی آگ پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
- بلوچستان میں بد امنی کے اسباب اور حل - 15/04/2025
- افغان مہاجرین کا انخلا - 12/04/2025
- زرعی زمینوں کو لاحق خطرات - 25/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).