بخار، اس کی وجوہات، گھر پر علاج اور احتیاط


بخار ان چند بیماریوں اور علامات میں ایک علامت ہے جس کے علاج کے لئے تقریباً ہر شخص کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی ڈاکٹر یا معالج سے رجوع ضرور کرتا ہے۔ میری اپنی ایک تحقیق کے مطابق ڈاکٹروں کے پاس آنے والے مریضوں میں ایک تہائی تعداد صرف بخار کے مریضوں کی ہوتی ہے۔ بخار بذات خود کو ‏‏ئی بیماری نہیں ہے بلکہ بہت سی بیماریوں کی علامت ہے۔ جو معمولی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہیں اور سنگین نوعیت کی بھی۔ بخار کی وجوہات بہت زیادہ ہیں۔ بخار کی وجہ خود بخار سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ بخار کم درجے کا یا ہلکا ہو سکتا ہے، لیکن اس کی وجہ سنگین ہو سکتی ہے۔ بخار شدید یعنی 104 ڈگری فارن ہائٹ تک بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کی وجہ سنگین ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بخار کو صحیح طرح چیک کرنا بھی ضروری ہے اس کے لئے تھرمامیٹر استعمال کرنا چاہیے۔ ہاتھ لگا کر بخار چیک کرنے کا طریقہ صحیح نہیں ہوتا۔ عام طور پر جسم کا درجہ حرارت 98.5 ڈگری فارن ہائٹ ہوتا ہے مگر یہ تمام دن ایک جیسا نہیں رہتا اور کم و زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے اس درجہ حرارت میں وقتی طور پر معمولی اضافہ بخار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے لئے کسی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

بخار کی وجوہات:

بخار کی وجوہات بہت سی ہیں مگر ان کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1۔ جراثیمی بیماریاں جسے انفیکشن کہتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے مضمون میں بیان کیا جا چکا ہے کہ جراثیم مختلف قسم کے ہوتے ہیں یعنی وائرس، بیکٹیریا، فنگس اور پروٹوزوا وغیرہ۔

2۔ سرطان یا کینسر جو جسم کے مختلف حصّوں میں اور مختلف قسم کا ہو تا ہے۔ بعض اوقات خاص طور پر خون کا کینسر صرف مستقل بخار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

3۔ دائمی یا دیرینہ (کرونک) بیماریاں جیسے جوڑوں کا درد اور خود مدافعتی ( آٹو امّیون) بیماریاں جو جسم کے مدافعتی نظام میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ جیسے ایس ایل ای (SLE)

اس کے علاوہ بخار عارضی یا چند روزہ بھی ہو سکتا ہے اور طویل دورانیہ کا بھی۔ عارضی یا چند روزہ بخار عام طور پر انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے اور زیادہ تر و ا‏ئرل انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے علاج کے لئے اینٹی بایوٹکس کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ طویل دورانیہ کا بخار عام طور پر ٹا‏ئیفائیڈ، ٹی بی، کینسر یا متعدّی بیماریوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

بخار کی وجہ کی تشخیص:

یہ بخار کے علاج میں سب سے اہم عنصر ہے۔ صحیح تشخیص کے بغیر صحیح علاج نہیں کیا جاسکتا۔ بخار کی وجہ کا اندازہ کرنے اور صحیح تشخیص کرنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات اہم اور ضروری ہیں۔

1۔ مریض کا بیان (ہسٹری) : بخار کی وجہ کی معلوم کے کرنے کے لئے مریض یا بچّے کے والدین کا بیان سب سے اہم اور ضروری قدم ہے۔ کئی بار مناسب بیان حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف تشخیص میں دشواری ہوتی ہے بلکہ تشخیص میں غلطی بھی ہو سکتی ہے یا غیر ضروری ٹیسٹ بھی ہو جاتے ہیں۔ اکثر مریض یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ہاتھ لگا کر یا اسٹیتھو سکوپ کپڑوں کے اوپر سے جسم کے کسی حصّے پر لگا کر بخار کی وجہ کا پتہ لگا لے گا اور مرض کی تشخیص کر لے گا۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اکثر اوقات لوگ مریض کی حالت بیان کرنے کی بجائے مختلف ٹیسٹ کی رپورٹ سامنے رکھ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ان رپورٹوں کو دیکھ کر مرض سمجھ جائے گا جب کہ اکثر یہ رپورٹیں غیر ضروری یا نارمل ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں جب مریض سے اس کا یا والدین سے ان کے بچّے کا حال پوچھا جا‎ئے تو وہ ناراض ہونے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر کو کچھ نہیں آتا۔ اس لئے مرض کی صحیح تشخیص کے لئے مریض کے حال کا صحیح بیان بہت ضروری ہوتا ہے۔ مریض کے بیان میں بخار کا دورانیہ، بخار کی شدت، بخار کا پیٹرن اور اس سے وابستہ شکایات جیسے کھانسی، درد، چوٹ، جسم کے کسی بھی حصے میں سوجن وغیرہ شامل ہیں۔ بہت اہم ہیں

2۔ مریض کا معائنہ۔ یہ مریض کے بیان سے کم اہم نہیں ہے۔ مریض کے کان، ناک، گلے، سینے اور پیٹ وغیرہ کا معائنہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ صحیح معائنہ سے بعض اوقات فوری طور پر اصل بیماری کی تشخیص ہو سکتی ہے، جیسے ٹانسلائٹس، کان کے انفیکشن یا نمونیا وغیرہ۔

3۔ ٹیسٹ: بخار کی کی وجہ معلوم کرنے کے لئے مختلف ٹیسٹ بھی بہت اہم ہوتے ہیں لیکن ٹیسٹ محتاط اور منصفانہ طریقے سے کیے جانے چاہئیں۔ غیر ضروری ٹیسٹ نہ صرف مریض کو مالی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ مناسب تشخیص کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں دیتے۔ اس سلسلے میں خون کا عام سادہ ٹیسٹ یعنی سی بی سی (CBC) عام طور پر مددگار نہیں ہوتا خاص طور پر جب یہ بار بار کیا جائے۔ اکثر انفیکشن کی تشخیص کرنے اور یہ جاننے کے لئے کہ کون سی اینٹی بایوٹک مریض کے لئے بہترین ہے اس کے لئے خون، پیشاب یا دوسرے مادّوں کا کلچر (culture) کرانا ضروری اور بہتر ہوتا ہے بجائے اس کے کہ اینٹی بائیوٹکس کو اندھا دھند استعمال کیا جائے۔ میرے پاس اکثر ایسے مریض بھی آتے ہیں جو ایک ہفتے کے دوران تین تین اینٹی بایوٹکس استعمال کرچکے ہوتے ہیں کئی بار سی بی سی بھی کرچکے ہوتے ہیں لیکن خون وغیرہ کا کلچر نہیں کیا ہوتا اور بخار بھی جاری رہتا ہے۔ ایسے مریضوں میں بخار کی وجہ کی صحیح تشخیص مشکل ہوجاتی ہے۔ مریض کو مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اینٹی بایوٹکس بخار اتارنے کی دوا نہیں ہے۔ بعض اوقات اینٹی بایوٹکس اور دیگر ادویات کے زہریلے پن اور خراب ضمنی اثرات کو دیکھنے کے لئے بھی جگر اور گردوں کے ٹیسٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

بخار کا علاج:

جب کسی بّچے کو یا بڑے آدمی کو بخار ہوتا ہے تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے فوری طور پر کنٹرول کیا جائے اور بخار فوراً اتر جائے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ سادہ وائرل بخار کو ٹھیک ہونے میں تین سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔ اکثر افراد معمولی بخار یعنی 99 ڈگری پر بھی بخار کم کرنے والی دوائیں دے دیتے ہیں جو صحیح اور مناسب نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان دو اؤں کا غیر ضروری اور غلط استعمال بخار سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ دو اؤں کے خراب اور ضمنی اثرات بھی ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ بخار کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال ہونے والی عام دوائیں پیراسیٹامول، آئیبوپروفین اور میفی نیمک ایسڈ ہیں۔ یہ دوائیں مختلف تجارتی ناموں اور مختلف ارتکاز (concentration) میں دستیاب ہیں۔ ایک دوا کے متعدد تجارتی نام بھی ہوسکتے ہیں، لیکن کچھ نام عام طور پر جانے جاتے ہیں اور مشہور ہیں۔ جیسے کیل پول، پیناڈول، بروفین اور ڈولر وغیرہ۔ دوائیں بچّوں کی عمر اور وزن کے مطابق دی جاتی ہیں۔ جیسے پیراسیٹامول 10 سے 15 ملی گرام فی کلوگرام وزن کے حساب سے دن میں تین سے چار بار، بروفین 10 ملی گرام فی کلوگرام وزن کے حساب سے دن میں دو سے تین بار اور ڈولر بھی 10 ملی گرام فی کلوگرام وزن کے حساب سے دن میں تین سے چار بار دی جا سکتی ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ دوائیں مختلف ارتکاز (concentration) میں ملتی ہیں۔ پیراسیٹامول 120 ملی گرام اور 250 ملی گرام فی 5 ایم ایل (ملی لیٹر) یا قطروں کی صورت میں 80 ملی گرام فی ایک ایم ایل کے ارتکاز میں ملتی ہے۔ اسی طرح بروفین 100 اور 200 ملی گرام فی 5 ایم ایل اور ڈولر 50 اور 100 ملی گرام فی 5 ایم ایل کے ارتکاز میں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک 10 کلو گرام وزن رکھنے والے بچّے کو ایک وقت میں پیراسیٹامول 100 سے 150 ملی گرام دی جا سکتی ہے جو اپنی کنسینٹریشن کے مطابق 5 ایم ایل یا 2.5 ایم ایل شربت میں ملے گی۔ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ ایک وقت میں زیادہ مقدار میں دوا دینے سے یا کئی دوائیں ایک ساتھ دینے سے بخار ختم نہیں ہوتا بلکہ ان دواؤں کے خراب اور ضمنی اثرات ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہونا غیر معمولی عمل نہیں ہے کیونکہ اکثر ایک ہی دوا دو یا تین مختلف ناموں سے دستیاب ہوتی ہیں اور ان مختلف ناموں کا استعمال کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ مقدار میں دے دی جاتی ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ مختلف دوائیں ہیں۔ اس لئے دو اؤں کی بوتل پر ہمیشہ دواؤں کا اصلی نام (جنرک نام) دیکھنا چاہیے۔

بخار سے صرف اسی وقت آرام آ‏ئے گا جب اس کی وجہ ختم ہو گی یا اس کا علاج کیا جائے گا یاد رہے کہ ان میں سے کوئی بھی دوا بخار یا بخار کی وجہ کا علاج نہیں کرتی۔ یہ دوائیں صرف چند گھنٹوں کے لیے بخار سے نجات دلاتی ہیں تاکہ والدین خوش رہیں۔ لہذا یہ دوائیں بخار کا حقیقی علاج نہیں ہیں۔ وائرل بخار اپنے وقت پر اور اگر بخار بیکٹیریا کی وجہ سے ہے تو مناسب اینٹی بایوٹک کے استعمال کے بعد ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اینٹی بایوٹکس بخار اتارنے کی دوائیں نہیں ہیں۔ اینٹی بایوٹکس صرف انفیکشن میں کام کرتی ہیں۔ اگر بخار کی وجہ کچھ اور ہو تو اس وجہ کے مطابق دیگر دواؤں کے استعمال سے بخار ختم ہو گا جیسے ملیریا میں اینٹی ملیریا دواؤں کے استعمال سے۔ ایسی صورت میں اینٹی بایوٹکس کا استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

بخار کے دوران غذا کا استعمال اور پرہیز:

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بخار کے دوران بچّے کا کھانا بند کر دیا جاتا ہے یا پرہیزی کھانا دیا جاتا ہے جو اکثر بدمزہ ہوتا ہے اور عام حالات میں بھی نہیں کھایا جاسکتا۔ روٹی بند کر دی جاتی ہے یا چاول بند کر دیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچّہ کمزور ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بخار کے دوران بچّے کی بھوک ویسے ہی کم ہوجاتی ہے اور اس کو زیادہ مقدار میں صحت مند اور لذیذ غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ بچّہ کو اس کی پسند کا کھانا دیا جائے اور کوشش کی جائے کہ اس کو ضرورت کے مطابق صحت مند غذا فراہم کی جائے۔

بخار کے علاج کے لئے والدین کے لئے ہدایات:

اگر بّچے کو بخار ہو تو والدین کیا کرنا چاہیے۔

1۔ بخار کا اندازہ ہاتھ لگا کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ تھرمامیٹر استعمال کرنا چاہیے۔ ہاتھ سے بخار کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔ بچّوں میں تھرمامیٹر بغل میں دو منٹ تک رکھنا چاہیے۔

2۔ اگر بچّے کو بخار ہو تو گھبرائیں نہیں۔ بخار کو ٹھیک ہونے میں عام طور پر تین سے پانچ دن لگتے ہیں زیادہ تر بخار وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہوتے ہیں جس کے ختم ہونے میں اپنا وقت لگتا ہے۔ بخار اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو گا جب تک بخار کی وجہ ختم نہیں ہوتی یا اس کا مناسب علاج نہیں ہوتا۔

3۔ فوری طور پر اینٹی بایوٹکس کا استعمال نہ کریں جب تک بیکٹیریل انفیکشن کا یقین یا ڈاکٹر کے مطابق تشخیص نہ ہو جائے۔ اینٹی بایوٹکس بخار دور کرنے کی دوا نہیں ہیں۔ وہ صرف بیکٹیریا کو مارتی ہیں۔ اگر بخار کی وجہ بیکٹیریا نہیں ہیں تو وہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔

4۔ یہ دیکھیں کہ کیا بخار کے ساتھ کوئی اور علامات ہیں جیسے کھانسی، گلے میں خراش، غنودگی، قے یا جسم کے کسی حصے میں درد یا سوجن وغیرہ۔ ایسی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

5۔ اگر کوئی دوسری علامات نہیں ہیں اور اگر درجہ حرارت 100 ڈگری سے زیادہ ہے تو پیراسیٹامول یا آئیبو پر و فین وغیرہ دیں۔ اگر درجہ حرارت 104 ہے تو اسے 102 تک لانے کے لئے سادہ پانی (ٹھنڈے پانی سے نہیں ) کے ساتھ اسپنجنگ (Sponging) کی جا سکتی ہے۔ یعنی جسم پر سادے پانی کی پٹّیاں رکّھی جا سکتی ہیں۔ بخار کم کرنے والی ادویات کا زیادہ استعمال نہ کریں۔ زیادہ مقدار میں دوا دینے سے بچّے کو نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن بخار نقصان نہیں پہنچاتا اگر اصل بیماری سنگین نہیں ہے۔

6۔ اگر بخار دو تین دنوں میں ٹھیک نہیں ہوتا یا بّچے میں اوپر بیان کردہ کوئی اور علامات پیدا ہوتی ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

7۔ اگر نوزائیدہ بّچے کو بخار ہو تو کوئی دوا نہ دیں۔ ہمیشہ بچّوں کے ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کریں کیونکہ نوزائیدہ بّچے کو شدید بیماری ہو سکتی ہے۔ نوزائیدہ بچوّں کو اکثر اینٹی بایوٹکس کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اس وقت تک جب تک کہ بخار کی وجہ معلوم نہ ہو جائے۔

8۔ بخار میں کھانے پینے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی کسی چیز سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بخار میں مبتلا بچّے کو زیادہ خوراک اور زیادہ کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے بچّے کو اس کی پسند کا کھانا دینا چاہیے جو لذیذ ہونا چاہیے۔

(یہ مضمون میری کتاب ”میں اور میرا بچّہ“ سے ماخوذ ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments