بائیکاٹ۔ پروپیگنڈا یا حقیقت
یہ غلط فہمی عام ہے کہ اسرائیل میں جو کمپنیز کاروبار کرتی ہیں یا وہاں کی صورتحال کے مطابق پالیسیز بناتی ہیں وہ اسرائیلی ہیں۔ جب کہ حقیقت میں پیپسی، کوک، کے ایف سی، میکڈونلڈ، نیسلے اور یونی لیور وغیرہ کا دور دور تک اسرائیل سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ان ملٹائی نیشنلز کے پیچھے یہودی ہیں۔
یہ کمپنیز دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک میں وہاں کی صورتحال کے مطابق کاروبار کرتی ہیں۔ ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کسی خاص ملک کی دوست یا دشمن ہوتی ہیں بلکہ ان کی وفادار ہو کر صرف انہی کے مفاد میں کام کرتی ہیں۔ یہ جنگی ماحول میں بھی اپنا کاروباری مشن جاری رکھتی ہیں اور اس ملک کی اقتصادی و معاشرتی صورتحال کو سپورٹ کرتی ہیں۔ یہ ملٹائی نیشنل ادارے اپنے مقامی پارٹنرز بناتے ہیں۔ اگر کسی بھی ملک میں ان کا کاروبار زور زبردستی بند کر بھی دیا جائے تو اصل نقصان اس ملک کو ہی پہنچتا ہے۔
ان تمام حقیقتوں کے باوجود پاکستان کے عوام اگر اس پر مصر رہتے ہیں کہ ان کا بائیکاٹ کیا جائے تو اس دائرہ کار کو کافی وسیع کرنا پڑے گا۔ مثلاً گوگل اور فیس بک کے بانی یہودی ہیں۔ بل گیٹس اور ایلون مسک اسرائیل کو مختلف مواقع پر سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ ایپل کے بانی اسٹیو جابز کے بائیولوجیکل باپ اگرچہ مسلمان ہیں لیکن وہ بھی اسرائیل کو کہیں نہ کہیں سپورٹ کرتا رہا ہے۔ چنانچہ کے ایف سی اور میکڈونلڈ میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کو موبائل اور کمپیوٹر شاپس کو بھی آگ لگانی چاہیے۔
بہرحال اب میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی بدلنی پڑے گی۔ ہمارے ہاں پیپسی اور کوک تو عام ہے مگر کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے کھانے والے بہت کم ہیں۔ جب کہ آج موبائل ہر ایک کے پاس ہے جو کہ گوگل کے بغیر بے کار ہے۔ مائیکرو سافٹ کی چوری کی جو ونڈوز ہم کئی دہائیوں سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ اس کے بغیر عام آدمی کے لیے کمپیوٹر ناکارہ ہے۔ اس کے باوجود اگر لوگ موبائل اور ٹیکنالوجی ان کے بنانے والوں کے خلاف استعمال کرنے پر بضد ہیں تو ان نادانوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور انہیں پاگل کتے نے نہیں کاٹا کہ اپنے پلیٹ فارم کو خود اپنے خلاف استعمال ہونے دیں گے۔
اگر بائیکاٹ صدق دل، ایمان داری اور نیک نیتی سے کیا جائے تو ہمیں لگژری و عام گاڑیوں، فضائی و بجری جہاز، میزائل، ٹینک، دیگر جنگی ساز و سامان، طبی آلات و ادویات، ہیوی صنعتی مشینری وغیرہ سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے اور پتھروں کے دور کی یاد تازہ کرنی ہوگی۔
بات کو مزید مختصر کرتے ہیں۔
ہم نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو یہ ناممکن ہے کہ کوئی بھی خالص اسرائیلی پروڈکٹ براہ راست یا بالواسطہ ہمارے ملک میں موجود ہو۔ جبکہ خود فلسطین جہاں قیامت صغری برپا ہے وہاں کے ایف سی اور میکڈونلڈ کھلے رہتے ہیں اور وہ تمام پروڈکٹ اسرائیلی ہی استعمال کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ تک میں کے ایف سی میکڈونلڈز کھلے ہیں۔ اگر ہم خود کو ان سے زیادہ مسلمان سمجھتے ہیں تو یہ ہماری خوش فہمی ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں انسانیت کا درد رکھنے والا دنیا کا ہر شخص فلسطین کے لیے آواز اٹھا رہا ہے اور اس سلسلے میں خاموشی یقیناً ایک جرم ہے۔ دیگر اسلامی ممالک اپنا نقصان کیے بغیر اس سلسلے میں جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں۔
پاکستانی عوام کو اب سوچنا ہو گا کہ یہ کیسا احتجاج اور بائیکاٹ ہے کہ جس سے ہم اپنوں کو ہی برباد کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو تو شاید ہمارے احتجاج اور بائیکاٹ کی خبر تک نہیں پہنچتی ہو گی۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمارے تو دور مار فضائی ہتھیار بھی اسرائیل کے خلاف کارآمد نہیں ہوسکتے تو قریبی عرب ممالک جو اسرائیل پر براہ راست حملہ کر سکتے ہیں وہ کیوں نہیں کر رہے؟ عرب اسرائیل کافی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان میں بھاری جانی و مالی نقصان عربوں کو ہی اٹھانا پڑا۔ شام اردن اور مصر نے اپنے کئی علاقے کھو دیے۔ فلسطین پر ان جنگوں کے ردعمل میں اسرائیل کا قبضہ مزید مستحکم ہوتا گیا۔ عربوں نے ڈھیروں پراکسیز وار بھی اسرائیل کے خلاف کر کے دیکھ لیں لیکن نتیجہ ہمیشہ اسرائیل کے حق میں ہی نکلا۔
عرب اسرائیل جنگ ہاتھی اور چیونٹی کی مانند ہے۔ جس میں چیونٹی نے ہمیشہ حکمت عملی سے ہاتھی کو چاروں خانے چت کیا۔ ہم بھی اگر جذبات کے بجائے یہودیوں کی طرح حکمت عملی سے کام لیں تو اسرائیل کو با آسانی لگام ڈالی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔ سب سے پہلے ہمیں زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہو گا جس سے ہم ہمیشہ نظریں چراتے آئے ہیں۔
ہم انسانوں کے جذبات کا ایسا سمندر ہیں جو اپنے اندر تو لامتناہی تلاطم رکھتا ہے مگر کنارے پر صرف جھاگ چھوڑ جاتا ہے۔ اسی کنارے پر گھات لگائے بیٹھا عیار شکاری جھاگ سے باآسانی نبرد آزما ہو کر پورے سمندر کو تسخیر کر رہا ہے۔ یہ اب ہمارے اوپر ہے کہ ہم بپھرے ہوئے سمندر کو قابو کر کے اسے پوری دنیا پر غالب کرتے ہیں یا بے اثر جھاگ کی مانند احتجاج ہی ہمارا آخری موثر ہتھیار ہے۔
- بائیکاٹ۔ پروپیگنڈا یا حقیقت - 17/04/2025
- لیکن” والے چار سو لوگوں سے بدتر ہیں” - 27/08/2021
- آئندہ کی دنیا کیسی ہوگی؟ اجمالی خاکہ - 25/06/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).