جامعہ پنجاب: ہنگامہ ہے کیوں برپا؟


Loading

جامعہ پنجاب کا شمار ایشیا کی قدیم ترین جامعات میں ہوتا ہے۔ یہ درسگاہ پاکستان کا فخر ہے۔ ہمارے ملک کی علمی اور تحقیقی پہچان ہے۔ گزشتہ چند دن سے جامعہ پنجاب خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔ جامعہ کی ہنگامہ خیز صورتحال نے بہت سوں کو اضطراب اور ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہیجان کا شکار وہ افراد یا گروہ ہیں، جو برس ہا برس سے جامعہ میں پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ یکایک انتظامیہ نے ہاتھ میں قانون کا ڈنڈا تھام لیا۔ جامعہ میں رہائش پذیر غیر قانونی قابضین کے خلاف ایک منظم آپریشن کا آغاز کیا اور ان کو جامعہ سے بے دخل کر کے دم لیا۔

واقفان حال بخوبی آگاہ ہیں کہ برسوں بلکہ عشروں سے مسلسل یہ شکایات سامنے آ رہی تھیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلوں اور دیگر رہائشی سہولیات پر وہ افراد قابض ہیں جن کا اس جامعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ افراد یونیورسٹی کے طلبہ ہیں، اساتذہ اور نہ ہی ملازمین۔ یہ خبریں اور اطلاعات بھی اکثر و بیشتر سننے کو ملتی تھیں کہ غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد میں سے بہت سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ یہ صورتحال اس درس گاہ کے امن عامہ کو متاثر کرتی تھی۔ ماضی میں بھی انتظامیہ نے اس ضمن میں کچھ کارروائیاں کیں۔ کچھ افراد کو بے دخل بھی کیا۔ تاہم ان با اثر افراد سے مکمل قبضہ چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صاحب نے یونیورسٹی کا چارج سنبھالا تو اس معاملے کو اپنی ترجیحی فہرست میں شامل کر لیا۔ ان کی ہدایت کے مطابق موجودہ انتظامیہ نے 30 مارچ کو ایک بھرپور کارروائی کا آغاز کیا اور چند ہفتوں میں کم و بیش چھ سو غیر قانونی رہائشیوں سے ہاسٹلوں کے کمرے خالی کروا لئے۔ اس آپریشن کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کو پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی مکمل معاونت حاصل رہی۔ کارروائی سے پہلے انتظامیہ نے کل 16 ہوسٹلوں کے بارے میں کاغذی کارروائی مکمل کی۔ نشاندہی کے بعد تمام ہوسٹلوں میں 137 کمروں کی فہرستیں بنائیں جہاں صفر الاٹ منٹ تھی۔ یعنی یہ کمرے مکمل طور پر غیر قانونی رہائشیوں کے قبضے میں تھے۔ انتظامیہ نے کارروائی کر کے تمام کمروں کو سیل کر دیا۔ کارروائی کے دوران کمروں سے غیر قانونی طور پر لگائے گئے ائرکنڈیشن اور دیگر ممنوعہ اشیاء بھی برآمد ہوئیں۔ جامعہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ریحان شیخ کے مطابق واگزار کروائے گئے بیشتر کمرے طلبا تنظیموں کے قبضے میں تھے۔

اس ضمن میں جامعہ نے اپنے نگرانی کے نظام میں بھی نمایاں تبدیلیاں کیں۔ آپریشن کے تناظر میں جامعہ اور ہوسٹلوں کے داخلی دروازوں پر نگرانی کا کڑا نظام نافذ کیا گیا۔ سیکیورٹی کے عملے کو ہدایت تھی کہ طالب علم اپنے شعبے کا شناختی کارڈ دکھائے بغیر جامعہ کے گیٹ کو عبور نہیں کرے گا۔ اس نگرانی کا فائدہ یہ ہوا کہ مذکورہ 137 کمروں کے علاوہ جن دیگر کمروں میں اکا دکا غیر قانونی رہائشی تھے، جامعہ میں ان کا داخلہ بھی بند ہو گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ اب تک تقریباً 600 غیر قانونی افراد کو ہوسٹلوں سے نکال چکی ہے۔ 400 طالب علموں کو ہاسٹلوں میں کمرے الاٹ ہو چکے ہیں۔ جبکہ مزید 200 افراد کی الاٹ منٹ کا عمل جاری ہے۔ اس آپریشن کا ایک مالیاتی پہلو بھی ہے جو نہایت اہم ہے۔ جامعہ کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا کہ اس آپریشن کے دوران اڑھائی کروڑ روپے کی ریکوری ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ طلباء تنظیموں نے کمروں پر قبضہ کر کے یہ کمرے کرائے پر چڑھا رکھے تھے۔ کم و بیش اڑھائی کروڑ روپے کی یہ رقم ہر سال جامعہ کے اکاؤنٹ میں آنے کی بجائے قابضین کی جیبوں میں جاتی تھی۔ یہ واقعتاً ایک قابل تحسین کام ہے جو وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی اور ان کی ٹیم نے کیا ہے۔ یہ کام ہرگز آسان نہیں تھا۔ آسان ہوتا تو کئی سال پہلے یہ کام ہو چکا ہوتا۔ اس اقدام کی ہر جانب سے تعریف ہو رہی ہے۔ اساتذہ، طالب علم، حکومتی عہدیدار اور میڈیا سب خوش ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ناقدین اور مخالفین بھی ان کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ یہ آپریشن کسی صوبائی، تنظیمی، گروہی اور سیاسی تفریق کے بغیر عمل میں لایا گیا۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے تجاوزات کے خلاف آپریشن کا حکم جاری کیا تھا۔ اس وقت سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بہت سوں کا خیال تھا کہ ماضی میں بڑے بڑے طاقتور وزیر اعلیٰ بھی یہ کام نہیں کر سکے۔ یہ مشکل کام کسی خاتون وزیر اعلیٰ کے بس کی بات نہیں ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ حکومت نے یہ کام کر دکھایا اور ہزاروں ایکٹر زمینیں واگزار کروا لیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کے ناقدین بھی ان کے اس اقدام کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔ میں ذاتی طور پر جانتی ہوں کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر میں ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی کا تانتا بندھ گیا۔ بہت سوں نے اس عمل پر ناراضی کا اظہار کیا۔ بتایا کہ ان کے ووٹر اور سپورٹر بھی اس آپریشن کی زد میں آ رہے ہیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ کسی سفارش، کسی دباؤ، کسی خفگی کو خاطر میں نہیں لائیں۔ ایک مرتبہ میری ان سے بات ہوئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ واقعتاً ایک مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن انہیں اس فیصلے کو نبھانا اور پارٹی اراکین کی خفگی کو برداشت کرنا پڑا۔ مجھے یقین ہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی پر بھی دباؤ آیا ہو گا۔ انہیں بھی دباؤ اور سفارشوں کو نظر انداز کرنے میں مشکل پیش آئی ہوگی۔ تاہم وہ جامعہ کے طالب علموں کی فلاح کے لئے اٹھائے گئے اس اقدام پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ اس عمدہ اقدام پر وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی، جامعہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ریحان شیخ، ڈائریکٹر اسٹوڈنٹس افیئرز ڈاکٹر شاہزیب خان، چیئرمین ہال کونسل ڈاکٹر اکبر خان، اور ساری انتظامی ٹیم مبارک باد اور شاباش کی مستحق ہے۔ سنتے ہیں کہ اس صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لئے جامعہ پنجاب نے ہایئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو کچھ تجاویز بھجوائی ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا وغیرہ کے کوٹے پر ہر شعبے میں ایک طالب علم اور ایک طالبہ کو داخلہ دیا جائے تاکہ صنفی توازن بھی برقرار رہے۔

بہرحال، پنجاب حکومت نے قبضوں اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا تھا تو اسے مشورہ دیا گیا تھا کہ اس عمل کی مسلسل نگرانی جاری رہنی چاہیے۔ تاکہ قابضین دوبارہ متحرک نہ ہو سکیں۔ امید کی جاتی ہے کہ جامعہ پنجاب کی انتظامیہ بھی اس عمل کی کڑی نگرانی مستقل بنیادوں پر جاری رکھے گی۔ داخلی سیکیورٹی کا نظام چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد ڈھیلا نہیں پڑے گا۔ اس سارے قصے میں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ غیر قانونی عناصر کس کی معاونت سے کئی عشروں سے جامعہ کے وسائل پر قابض تھے؟ جامعہ کے نظام میں جوابدہی، گرفت اور شفافیت موجود ہوتی تو کسی گروہ کو جامعہ کی رہائشی سہولیات پر قبضے کی جرات نہیں ہو سکتی تھی۔ حکومت پنجاب اور جامعہ پنجاب کی طرف سے ہونے والی کارروائیاں اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ حکومت، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کام کو کرنا چاہیں تو کوئی دباؤ، یا سفارش ان کی راہ کی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments