کیا امریکہ اپنے بحران پر قابو پا لے گا؟
سرد جنگ میں دو قطبی دنیا کا ظہور ہوا۔ فکری اور سیاسی اعتبار سے دنیا دو انتہاؤں میں تقسیم ہو گئی۔ سوویت بلاک کے حامیوں کا خیال تھا کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک امریکہ کی قیادت میں دنیا پر جدید نو آبادیاتی نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں، سوویت مخالفین کا یقین تھا کہ سوویت یونین جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی، مذہبی اور سماجی اقدار ختم کر کے دنیا پر کمیونسٹ نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔
ان دو انتہاؤں میں تقسیم سوچ کے مطابق، نظریاتی دوست مکمل درست اور مخالف مکمل طور پر غلط ہوتا ہے۔ تصویر کے صرف دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک سیاہ دوسرا سفید، درمیان میں کچھ نہیں ہوتا۔ دوست کی ہر برائی میں کوئی حکمت اور دشمن کی ہر اچھائی میں کوئی چالاکی چھپی ہوتی ہے۔ یہ سوچ، افکار اور خیالات میں رنگا رنگی اور تنوع کو مسترد اور اپنے نظریے اور نظام حیات کو سماج نافذ کرنا اپنا مقدس یا تاریخی فرض تصور کرتی ہے۔ سرد جنگ ختم ہوئے دہائیاں ہو چکی ہیں لیکن تجزیاتی زاویے زیادہ تبدیل نہیں ہو سکے ہیں۔
ان دنوں امریکہ نے اپنے شدید داخلی معاشی بحران سے نکلنے کے لیے دنیا میں ٹیرف اور ٹریڈ جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے جاری بحث میں بھی معروضی تجزیے کی بجائے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تجارتی جنگ سے پیدا ہونے والا بحران، امریکہ کو معاشی اور سیاسی لحاظ سے بے پناہ کم زور کر دے گا اور اس کی عالمی حیثیت جلد ختم ہو جائے گی۔
جب ہر مظہر کو سیاسی انتہاؤں کے تناظر میں دیکھا جانے لگے تو بعض حقائق نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیرف جنگ میں امریکہ کے انتہائی مضبوط پہلووٴں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے، اس کا رقبہ 98 لاکھ مربع کلو میٹر اور آبادی 34 کروڑ سے زیادہ ہے۔ جغرافیائی تنوع کے لحاظ سے کوئی ملک اس کا ثانی نہیں ہے۔ امریکہ میں وسیع میدان، تپتے صحرا، بیس ہزار فٹ بلند پہاڑوں کے سلسلے، آگ اگلتے آتش فشاں، برف پوش علاقے، مغرب میں بحرالکاہل، مشرق میں بحراوقیانوس، بیس ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی، گھنے جنگل، ہزاروں کلومیٹر طویل دریا اور ان سے سر سبز ہوتی وادیاں، ہزاروں جھیلیں، مویشیوں کے بڑے بڑے فارم، ہر نوع کی جنگلی حیات، بے مثال حیاتی تنوع، تیل، گیس، کوئلہ اور اہم دھاتوں کے بھاری ذخائر، آبادی کا محض دو فیصد زراعت سے وابستہ لیکن غذائی اجناس میں نہ صرف خود کفیل بلکہ اس کا بڑا برآمد کنندہ، گندم پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔
غیر جذباتی تجزیہ کے لیے ٹھوس معروضی حقائق کو پیش نظر رکھنا اہم ہے۔ 22 اپریل 2025 کو آئی ایم ایف نے جو تازہ ترین جائزہ جاری کیا ہے اس کے مطابق اس وقت امریکہ کی جی ڈی پی کا حجم 30.34 ٹریلین ڈالر اور متوقع شرح نمو 2.7 فیصد سالانہ ہے۔ اس کے بعد چین 19.53 ٹریلین ڈالر اور 4.6 فیصد شرح نمو کے حوالے سے دوسرے جب کہ جرمنی 4.92، جاپان 4.39، انڈیا 4.27 ٹریلین ڈالر کے ساتھ تیسرے، چوتھے اور پانچویں درجے پر ہیں۔ اس حقیقت سے یہ صورت حال واضح ہوتی ہے کہ چین کو امریکہ تک پہنچنے کے لیے 10 ٹریلین کی ضرورت ہے جبکہ جرمنی، جاپان اور انڈیا اپنی اپنی جی ڈی پی میں 25 ٹریلین کا اضافہ کر کے امریکہ کے برابر پہنچ سکیں گے۔ تاہم، یہ اور بات ہے کہ جب تک مذکورہ ملک یہ معرکہ سر کریں گے اس وقت تک امریکی معیشت نہ جانے کہاں پہنچ چکی ہو گی۔ فارچون 500 کے مطابق دنیا کی سو سب سے بڑی کمپنیاں امریکی ہیں جن کا منافع بڑھ رہا ہے۔ امریکی معیشت میں صارفین کی جانب سے اشیاء اور خدمات کی کھپت کا بنیادی کردار (جی ڈی پی کا % 68 ) ہے لہٰذا برآمدات میں کمی اس پر کم اثر انداز ہو گی۔ یہ امریکی معیشت کا سب سے طاقتور پہلو ہے جو اسے ان ملکوں کے مقابلے میں معاشی بحرانوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے جن کی معاشی ترقی کا انحصار اندرونی کھپت سے زیادہ برآمدات پر ہوتا ہے۔ تحقیق اور ترقی (R & D) کے شعبے میں بھی امریکہ کا کوئی مدمقابل نہیں۔ دنیا کی بہترین درس گاہیں امریکہ میں ہیں۔ اس وقت تک 400 سے زیادہ نوبل انعام امریکی تحقیق دان حاصل کر چکے ہیں۔ وہ فوجی لحاظ سے بھی دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ وہ دفاع پر 856 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس کی افواج جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں، کرہ ارض کے ہر خطے میں اس کی فوجی موجودگی ہے۔ منفرد جغرافیائی محل وقوع کے باعث وہ دو عالمی جنگوں میں محفوظ رہا کیوں کہ جنگ کے ذریعے اسے فتح کرنا ممکن نہیں تھا۔
امریکی معیشت کے حالیہ بحران کی زیادہ وجوہ داخلی ہیں۔ تجارتی خسارہ اس قدر نہ بڑھتا اگر ڈبلیو ٹی او کے ذریعے وہ اپنی منڈیوں کو دنیا کی سستی اشیاء کے لیے نہ کھولتا، بیرونی جنگوں میں ملوث ہو کر کھربوں ڈالر برباد نہ کیے جاتے، سرد جنگ کے دوران اپنی غیر مقبول حامی حکومتوں کو کھربوں ڈالر کی ناقابل واپسی مالی مدد اور قرض نہ دیے گئے ہوتے۔ ہزاروں امریکی صنعتوں کو دیوالیہ ہونے سے بروقت بچا کر لاکھوں کارکنوں کو بے روزگار ہونے سے بچا لیا گیا ہوتا۔ سرد جنگ میں مذہبی انتہا پسندی کو استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا تا کہ اسے نائین الیون جیسے سانحے اور بعد ازاں، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بہت بھاری جانی و مالی قیمت ادا نہ کرنی پڑتی۔
اب سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ امریکہ کو درپیش مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کریں گے۔ وہ چاہیں گے کہ مختلف ملکوں سے الگ الگ تجارتی معاہدے کر کے درآمدی بل کم کیا جائے اور امریکی برآمدات بڑھائی جائیں۔ امریکی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس رعایت دے کر ملک کے اندر کم لاگت کی مصنوعات تیار کی جائیں بالخصوص مقامی سروس سیکٹر کو فروغ دے کر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں اپنی برآمدات بڑھائی جائیں۔ صدر ٹرمپ دیگر ملکوں کے دفاع پر ہونے والے اربوں ڈالر کا خرچ بچائیں گے۔ اپنے ملک کے انفراسٹرکچر کو ترقی دے کر پیداواری لاگت کم کریں گے جس سے سرمایہ کاری بڑھے گی۔ ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں کے اصول و ضوابط کو زیادہ منصفانہ اور شفاف بنانا چاہیں گے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر اقدامات کے ذریعے وہ امریکہ کو خسارے کے موجودہ سنگین بحران سے نکالنے کی کوشش کریں گے۔ علاوہ ازیں، امریکہ کو یک قطبی دنیا کی واحد سپر طاقت کی نفسیاتی کیفیت سے نکل کر کثیر قطبی معاشی و سیاسی دنیا میں جینا سیکھنا ہو گا جو یقیناً ایک مشکل کام ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشکلات سے نکلنے کے غیر معمولی ہنر نے اسے انسانی تاریخ کی عظیم ترین طاقت بنایا۔ کیا اسی ہنر کو کام میں لا کر وہ موجودہ بحران پر بھی قابو پا لے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت دے گا۔
- کیا امریکہ اپنے بحران پر قابو پا لے گا؟ - 04/05/2025
- امریکہ سے تجارتی جنگ میں چین کی پیش قدمیاں - 23/04/2025
- صدر ٹرمپ کا سوال؛ جواب کسی کے پاس نہیں - 13/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).