بھارت کا آبی جنگ کا محض "جھاکا”
پیدائشی بزدل ہونے کے علاوہ افغانستان، عراق اور لبنان پر مسلط ہوئی جنگوں کا برسرزمین جا کر مشاہدہ کرنے کے بعد میں دنیا کے کسی بھی خطے میں جنگ کے امکانات اجاگر ہوتے ہی گھبرا جاتا ہوں۔ بھارت اور پاکستان تو ویسے ہی ایک دوسرے کے قریبی ہمسائے ہیں۔ گزشتہ ماہ کی 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کی پہل گام تحصیل میں واقع بائی سرن وادی پر ایک سفاکانہ حملہ ہوا۔ دہشت گردوں نے مذکورہ حملے کے دوران 26 کے قریب سیاحوں کو ان کی ہندو شناخت جاننے کے بعد گولیوں سے بھون دیا۔ جس انداز میں یہ کارروائی ہوئی ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے۔
واقعہ کی شدت مگر اس امرکا تقاضہ کرتی ہے کہ بھارتی ریاست اپنے تمام تر انٹیلی جنس اداروں کی اجتماعی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کا تعین کرے۔ انہیں گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ مذکورہ مشقت سے گزرنے کے بجائے بھارت نے فی الفور نہایت ڈھٹائی سے پہل گام واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا دیا۔ اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے پاکستان آرمی چیف کی اس تقریر کو بطور حوالہ دہرانا شروع کر دیا جو انہوں نے حال ہی میں ہوئے اورسیز پاکستانیوں کے کنونشن کے دوران کی تھی۔ اس خطاب کے دوران ’’دو قومی نظریہ‘‘ کا جذباتی شدت سے دفاع ہوا تھا۔
دو قومی نظریہ کے دفاع میں ہوئی تقریر کے پہل گام واقعے سے رابطہ جوڑنے کے لئے آپ کو تخیل کی ویسی ہی پرواز درکار ہے جو بھارت کی بالی وڈ میں کام کرنے والے تخلیق کاروں کو میسر ہے۔ دور کی ایسی کوڑی لانا مگر پاک- بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنے والے کو 2000ء کا مارچ بھی یاد دلاتا ہے جب ان دنوں کے امریکی صدر کلنٹن نے بھارت کا ایک دورہ کرنا تھا۔ اس دورے کے عین قریب مقبوضہ کشمیر کے ایک گائوں چھتیس گڑھ میں سکھوں کا قتل عام ہوا۔ ذمہ داری ’’پاکستان سے آئے‘‘مذہبی انتہا پسندوں کے دہشت گردوں پر ڈال دی گئی۔ بعدازاں کئی لکھاریوں نے آزادانہ تحقیق کی بدولت اسے بھارتی ریاست کا رچایا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ قرار دیا۔ اس کے علاوہ دو برطانوی صحافیوں کی جاں گسل تحقیق کے بعد لکھی ایک کتاب بھی یاد آجاتی ہے جو 5 یورپی سیاحوں کے اغواء کے حوالے سے بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی بے اعتنائی عیاں کرتی ہے۔
بہرحال پہل گام واقعہ کی ذمہ داری پاکستان کے سر ڈالنے کے بعد بھارت نے اپنی کابینہ کا اعلیٰ ترین سطح پر فیصلے کرنے والی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ بھارتی وزیر اعظم کی صدارت میں ہوئی کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے پاکستان کے خلاف چند اقدامات لینے کا فیصلہ کیا۔ سندھ طاس معاہدہ کا تعطل ان میں سرفہرست تھا۔ یاد رہے کہ بھارت اس سے قبل بھی حکومت پاکستان کو چٹھیاں لکھ کر سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرنے کی درخواست کر چکا ہے۔ پاکستان مصر ہے کہ مذکورہ معاہدہ دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے مابین نہیں ہوا۔ اس میں ایک تیسرا فریق -ورلڈ بینک- نہ صرف ملوث ہے بلکہ اس معاہدے پر کامل عمل درآمد یقینی بنانے کا ذمہ دار بھی ہے۔
عالم طیش میں بھارت کا ٹھوس حقائق کو یکسر نظرانداز کرنا سمجھا جا سکتا ہے۔ اتوار کی دوپہر سے مگر پاکستانی چینلوں نے چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ذریعے یہ ’’خبر‘‘ پھیلانا شروع کر دی کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف ’’آبی جنگ‘‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ جس ’’آغاز‘‘ کا ذکر ہوا ہے اس کی بنیاد بھارت کی مشہور صحافی برکھادت کا چلایا ایک یوٹیوب چینل ہے۔ موصوفہ کارگل جنگ کے دنوں میں سکرین پر نمودار ہوئی تھیں۔ اس جنگ کی رپورٹنگ نے انہیں بھارت کی کرسٹنا امان پور بنا دیا جو CNN کے لئے عراق پر نازل کی پہلی جنگ کی وجہ سے مشہور ہوئی تھیں۔
برکھادت اپنے تعصبات کے باوجود ایک محنتی رپورٹر ہے۔ گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر میں رہی۔ وہاں اڑی کے مقام پر پاک- بھارت سرحد کے عین قریب کھڑے ہو کر بھی رپورٹنگ کی۔ اس نے ہی وہاں سے یہ اعلان کیا کہ بھارت نے پاکستان کو دریائے چناب سے جانے والا ’’پانی بند کر دیا ہے‘‘۔ دو ملکوں کے درمیان لہٰذا آبی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ برکھادت نے طبلِ جنگ بجایا تو ہمارے ہاں سے سوال اٹھنے لگے کہ پاکستان اپنے حصے کا پانی وصول کرنے کے لئے کب ’’آگے بڑھے گا‘‘۔ یہ سوال اٹھاتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ بھارت تمام تر تیاریوں کے باوجود پاکستان پر اب تک حملہ آور اس لئے نہیں ہو سکا کیونکہ بین الاقوامی اداروں میں اس کے قریب ترین دوست جن میں امریکہ سرفہرست ہے مسلسل یہ ’’مشورہ‘‘ دے رہے ہیں کہ بھارت جنوبی ایشیا کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی طرف دھکیلنے کے بجائے پاکستان کے ساتھ مل کر پہل گام حملے کے ذمہ داروں کا سراغ لگانے کی کوشش کرے۔ ایسے حالات میں پاکستان کی جانب سے اٹھایا ’’جارحانہ عمل‘‘ اسے بھرپور جنگ چھیڑنے کا جواز فراہم کر دے گا۔ ہمیں لہٰذا نہایت بردبار تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پاک – بھارت چپقلش کا ادنیٰ مگر دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ بھارت نے بھی ’’آبی جنگ‘‘ کا آغاز نہیں کیا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق محض ’’جھاکہ‘‘ دیا ہے۔ ’’ٹریلر‘‘ چلایا ہے جسے رعونت سے نظرانداز کر دینا چاہیے۔ میری بات سمجھنے کے لئے جان لیجئے کہ بھارت نے چناب پر دوڈیم بنا رکھے ہیں۔ ان دونوں کا مقصد بجلی پیدا کرنا بتایا گیا ہے۔ بگلیہار اور سلال ان دوڈیموں کے نام ہیں اور بجلی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ذخیرہ ہوئے پانی کو تیزی سے رواں دریا کے پانی میں واپس بھیجا جائے۔
بگلیہار ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے جو انتظامات ہیں ان کے تحت 900 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے 475 ملین کیوبک میٹر فٹ پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ اب کی بار مطلوبہ تعداد جمع کرنے کے لئے جدید ترین مشینوں سے ذخیرہ میں سے مٹی نکالی گئی۔ اس کے بعد جو پانی جمع ہو رہا ہے اسے زیادہ سے زیادہ پانچ دنوں تک وہاں روکا جا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ دن اگر پانی روکا گیا تو چناب سیلاب برپا کرنے کو مجبور ہو جائے گا اور مطلوبہ بجلی بھی پیدا نہیں ہو گی۔ بگلیہار کی نسبت سلال چھوٹا ڈیم ہے۔ وہاں سے 690 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے239 ملین کیوبک میٹر پانی جمع ہو جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سے زیادہ دو دنوں تک روکا جا سکتا ہے۔
قصہ مختصر برکھادت کے ’’دورہ مقبوضہ کشمیر‘‘ کی بدولت بھارت بنیادی طور پر پاکستان کے خلاف آبی جنگ ’’شروع‘‘ کر دینے کی محض بڑھک لگا رہا ہے تاکہ پاکستان مشتعل ہو کر کوئی ایسا قدم اٹھائے جو بھارت کو ایک بھرپور جنگ مسلط کرنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ ہمیں اس کے جھانسے میں آنے سے ہر صورت گریز کرنا ہو گا۔
(بشکریہ نوائے وقت)
- جنگ بندی، گودی میڈیا:کھسیانی بلی - 12/05/2025
- پاکستان بھارت جنگ کے ایک اور راؤنڈ کا عندیہ - 09/05/2025
- کیا کہا مودی کے دیرینہ یار ٹرمپ نے؟ - 08/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).