خوابوں کا سایہ


Loading

دوپہر کا وقت تھا۔ آفتاب اپنے جلالِ کامل میں تھا اور کائنات کی سانسیں گویا تپتے آہنی سانچوں میں گھل رہی تھیں۔ فضا میں سکوت ایسا جیسے وقت نے سجدۂ تعظیم کیا ہو، اور چوک کی زمین پر انسانوں کی ایک مختصر ٹکڑی اپنے وجود کی شہادت لیے کھڑی تھی۔ کچھ ہاتھوں میں بینر تھے، کچھ نگاہوں میں خواب۔ ان سب میں ایک چہرہ ایسا بھی تھا، جو دھوپ سے نہ جُھکا، پسینے سے نہ تھما، یہ راج تھا۔

راج، اِک جوانِ رعنا، جس کی عمر بظاہر چوبیس بہاریں گن چکی تھی، مگر پیشانی پر تجربے کی کچھ ایسی لکیریں تھیں، جو اکثر عمر کے کھاتے سے چُرا لی جاتی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب امتزاج تھا۔ سپنے اور سپنے ٹوٹنے کے بعد بچ جانے والی روشنی کا۔ جب وہ بولتا، تو لفظ نہیں بہتے، جذبے بہتے، جیسے دل کی دھڑکن زبان پر آ گئی ہو۔

”یہ زمین سب کی ہے، روٹی سب کی ہے، عزت سب کی ہے۔“

یہ محض نعرہ نہ تھا، بلکہ محرومی کے کرب سے جنم لینے والی ایک صدائے احتجاج تھی، جسے وقت کے کان سننے سے انکاری تھے۔

اسی چوک کے ایک گوشے میں، وقت کی تھکن سے بوجھل ایک دکان کی سیڑھی پر ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ اخبار ہاتھ میں، مگر نگاہیں راج پر۔ یہ مشتاق علی تھے۔ ایک زمانے کے پوسٹ ماسٹر، آج کے خاموش فلسفی۔
مشتاق علی کی آنکھوں میں وہ نور تھا جو عمر سے نہیں، شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ جھریوں میں وقت کا نوحہ درج تھا اور مسکراہٹ میں کئی عہدوں کا تجزیہ۔

اخبار تہہ کر کے وہ آہستہ قدموں سے راج کے قریب آئے اور کہا:

”بیٹا، زمین بلاشبہ سب کی ہے۔ مگر یاد رکھو، یہ صرف مٹی کا نام نہیں۔ یہ تاریخ ہے، اور تاریخ وہی رقم ہوتی ہے جسے طاقت لکھوانا چاہے۔“

راج نے اُن کی بات سنی اور گویا اندر کوئی دروازہ کھلا ہو۔
پوسٹ ماسٹر نے قریب ہی فیکٹری کی چمنی کی طرف اشارہ کیا، جہاں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔
”یہ دھواں مزدور کے سینے سے اُٹھتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ روشنی میں ڈھلتا ہے یا اندھیرے میں؟“

اسی لمحے، ایک عورت سائیکل پر چوک سے گزری۔ پیٹھ پر بوجھ، آنکھوں میں روشنی، پیشانی پر اخلاص۔ یہ علیزا تھی، جو کتابیں بانٹتی تھی، خوابوں کے بیج بوتی تھی۔

مشتاق علی نے اُسے پہچانا اور زیرِلب کہا:
”یہ وہ بی بی ہے، جو الفاظ میں چراغ رکھتی ہے، اور چپکے چپکے ذہنوں کو منور کرتی ہے۔“
علیزا رکی، راج کی طرف دیکھا اور نرم لہجے میں بولی:

”تم خواب دیکھتے ہو، میں انہیں پڑھنا سکھاتی ہوں۔ مگر خواب اگر بینر پر رہ جائیں، تو دھند بن جاتے ہیں۔ اُنہیں زندگی بنانا ہو گا، محنت اور علم کے اشتراک سے۔“

راج نے پہلی بار جانا کہ علم بانٹنے والا بھی محنت کش ہوتا ہے، کہ الفاظ کے مزدور بھی پسینے بہاتے ہیں۔
اسی لمحے ایک اور صدا سنائی دی، جس میں دلیل کی بازگشت تھی:
”محنت، قانون میں بھی تشریح طلب ہے۔“

یہ ماہرہ تھی۔ ایک وکیل، جس نے انصاف کو عدالت سے نکال کر گلیوں میں لا کھڑا کیا تھا۔ وہ راج کے قریب آ کر بولی:

”قانون کہتا ہے کہ مزدور کو اُس کی اُجرت ملنی چاہیے۔ مگر کیا اُجرت فقط پیسہ ہے؟ عزت، رائے، اور شرکت بھی تو مزدور کا حق ہیں۔“

راج نے سر جھکایا، جیسے کوئی سوال اپنے ہی اندر سے ابھرا ہو:
”قانون، سرمایہ، اور محنت میں رشتہ کیسا ہے؟“
ماہرہ نے نگاہیں فضا میں گاڑ کر کہا:

”یہ رشتہ اُس وقت تک استحصال کا رہتا ہے، جب تک شعور کی کرنیں اُسے شراکت میں نہ ڈھال دیں۔ مارکس کہتا ہے : محنت وہ جوہر ہے، جو قدر کو جنم دیتا ہے، مگر سرمایہ دار اُسے ہتھیا لیتا ہے۔ اور اینگلز فرماتا ہے : جب تک ریاست صرف ایک طبقے کے مفادات کی پاسدار ہے، آزادی فقط ایک خیال ہے، خواب نہیں، سراب ہے۔“

پوسٹ ماسٹر نے نرمی سے کہا:
”نظریات اپنی جگہ، مگر اصل سوال یہ ہے۔ آج راج کیا سوچتا ہے؟“
راج خاموش ہو گیا۔ جیسے نظریے، نعرے، سوالات۔ سب اُس کے اندر کوئی گہرا طوفان برپا کر گئے ہوں۔
رات کو جب وہ کمرے میں پہنچا، کھڑکی سے فیکٹری کی جلتی بجھتی روشنیوں کو تکتا رہا۔ اور تب اُس نے چاک اُٹھا کر دیوار پر لکھا:

”محنت وہ نور ہے جو رات کو دن میں بدل دیتا ہے،
لیکن روشنی کا حق اُسی کو ہے
جو جلنے کا ہنر جانتا ہے۔ ”
تبھی پوسٹ ماسٹر کے الفاظ گویا ذہن میں گونجے :
”نظام تب بدلے گا، جب سوچ بدلے گی۔
اور سوچ تب بدلے گی، جب علم، مکالمہ اور خواب
ایک ساتھ قدم اُٹھائیں گے۔ ”

اور پھر راج نے اپنی دیوار پر جو سایہ لرزتا دیکھ رہا تھا، اُسے محض سایہ نہ پایا۔ وہ ایک خواب تھا۔ جو بیداری مانگتا تھا، شعور کا سفر، جو سڑک سے نہیں، دل سے شروع ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments