حرکت کا سائنسی تصور ( 13 )
کسی بھی عنصر کا کیمیاوی طور پر ایک خالص نمونہ لیں اور اسے اتنا گرم کریں کہ یہ چمکنے لگ جائے۔ اب اس سے نکلنے والی روشنی کو ایک باریک سوراخ سے اور پھر ایک پرزم سے گزاریں۔ پرزم روشنی کی شعاعوں کو ایک بینڈ میں پھیلا دے گا جس میں فریکوئنسی ایک طرف سے دوسری طرف یکساں طور پر بڑھتی ہے (یا مساوی طور پر، طول موج کم ہوتی ہے ) اور یوں روشن و منفرد لکیروں کی ایک سیریز کا مشاہدہ کیا جائے گا جسے اس خاص عنصر کا اخراج سپیکٹرم کہتے ہیں۔ 1860 ء کی دہائی میں دریافت ہوا تھا کہ ہر عنصر میں فنگر پرنٹ کی طرح ایک منفرد سپیکٹرم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اسے دوسرے عناصر کے ساتھ کیمیائی طور پر کیسے ملایا گیا ہو، ہر عنصر اپنا منفرد سپیکٹرم رکھتا ہے۔
اگر کوئی عنصر بہت گرم گیسی میڈیم (جیسے ستارے کا ماحول) میں ڈوبا ہوا ہو تو اس کا سپیکٹرم تاریک لکیروں کی ایک سیریز کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے جذب سپیکٹرم کہتے ہیں۔ ان تاریک لکیروں نے اس بات کا تعین کرنا ممکن بنایا کہ دور دراز کے ستاروں میں کون سے عناصر موجود ہیں جو ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے بارے میں کچھ فلسفیوں نے سوچا تھا کہ یہ ناممکن ہے۔ سپیکٹروسکوپی (سپیکٹرم کا مطالعہ) ہمیں دکھاتا ہے کہ کائنات میں کوئی بھی مادہ جو روشنی خارج کرنے کے لیے کافی گرم ہے وہ انہی مانوس عناصر پر مشتمل ہے جو ہم زمین پر پاتے ہیں، اور یہ جلد ہی ماہر فلکیات کے سب سے طاقتور آلات میں سے ایک بن گیا۔
ہر عنصر کا لائن سپیکٹرم ایک باقاعدگی رکھتا ہے جس میں لائنیں عام طور پر اعلی توانائیوں پر ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ یہ ایک پہیلی تھی کہ اس قاعدے کو سمجھا جائے۔ انیسویں صدی میں طبیعیات دانوں نے محسوس کیا کہ کسی عنصر کے سپیکٹرم کو اس کے ایٹموں کی اندرونی ساخت اور حرکیات سے واضح ہونا چاہیے لیکن وہ ایسا ایٹمی ماڈل تلاش کرنے سے قاصر تھے جو مشاہدہ شدہ اسپیکٹرل لائنوں کی صحیح پیش گوئی کر سکے۔ 1884 ء میں ایک سوئس سکول ماسٹر جوھان بالمر (متوفی 1898 ء) نے ایک ایسا فارمولا تیار کیا جس سے ہائیڈروجن کا سپیکٹرم واضح ہو سکتا تھا۔ مزید چند سالوں میں دیگر ماہرین نے مختلف فریکوئنسی والے ایٹمی سپیکٹرم دریافت کیے۔ 1908 ء میں رٹز (متوفی ء 1909 ) نے رڈبرگ (متوفی 1919 ء) کے کام سے متاثر ہو کر دکھایا کہ پیچیدہ لائنوں کو سادہ لائنوں کے سپیکٹرم سے واضح کیا جاسکتا ہے اور یوں دونوں نے مل کر ایک فارمولا بنایا جسے رڈبرگ فارمولا کہتے ہیں اور اس میں ایک اہم مستقل مقدار رڈبرگ کا مستقل ہے۔ یہ کلیہ، کسی بنیادی ایٹمی نظریے کے بجائے تجربات سے اخذ کیا گیا تھا۔ اس کی نظریاتی اساس نامکمل تھی جس کے لئے ایٹم کی ساخت کا معلوم ہونا لازمی ہے۔ ایٹم کی ساخت کیا ہے؟
1891 ء میں جی جے سٹونی (متوفی 1911 ء) نے بجلی کے لئے الیکٹران نامی ذرات کے بہاؤ کا مفروضہ پیش کر رکھا تھا۔ شروع میں الیکٹران کے وجود پر بھی بہت شکوک و شبہات تھے کیونکہ یہ ناقابل دید تھے۔ مگر 1896 ء میں ڈچ ماہر طبیعیات زی مین (متوفی 1943 ء) نے دکھایا کہ اگر کسی عنصر کو مضبوط مقناطیسی میدان میں رکھا جائے تو اس کی سپیکٹرل لائنز مزید ماتحت لائنوں میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ جلد ہی لورینٹز نے بتایا کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ گرم ایٹموں سے نکلنے والی روشنی کی وجہ انتہائی چھوٹے ذرات ہیں جن پر منفی برقی بار ہوتا ہے اور وہ چھوٹے مقناطیسوں کی طرح عمل کرتے ہیں تو زی مین کے نتائج کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ 1897 ء میں برطانوی جے جے تھامسن (متوفی 1940 ء) نے دریافت کیا کہ کسی ویکیوم ٹیوب میں موجود کسی مادے سے شعاعیں نکلتی ہیں جن پر منفی برقی بار ہوتا ہے اور وہ مثبت بار کی طرف کشش رکھتی ہیں۔ تھامسن کے مطابق، یہ شعاعیں جنہیں کیتھوڈ ریز کہتے ہیں، انتہائی چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں جن کی کمیت ہائیڈروجن کی کمیت سے قریب دو ہزار گنا کم ہے۔ یہ تمام مشاہدات اس بات کا اشارہ تھے کہ کسی بھی عنصر کے ایٹم کی جو بھی ساخت ہو، اس میں الیکٹرانوں کی حرکت کسی باقاعدگی کے اصول پر ہوتی ہے۔ مگر ایٹم کے اندر الیکٹران کا اصول حرکت کیا ہے؟
ولیم رونٹجن (متوفی 1923 ء) نے 1895 ء میں دریافت کیا کہ اگر کسی ویکیوم ٹیوب میں کیتھوڈ شعاعوں کو انتہائی توانائی مہیا کی جائے اور پھر انہیں کسی خاص دھات جیسے ٹنگسٹن سے تصادم کروایا جائے تو اس دھات میں سے بہت زیادہ توانائی کی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جنہیں اب ایکس رے کہا جاتا ہے۔ ہر عنصر کی اپنی مخصوص ایکس رے شعاعیں ہوتی ہیں۔ بہت جلد دیکھا گیا کہ ایکس رے شعاعیں انسانی ہڈیوں کی عکس بندی کر سکتی ہیں اور یوں چند ہی سال کے اندر ایکس ریز کا استعمال طب میں ہونے لگا۔ میکس وان لاؤے (متوفی 1960 ء) نے 1912 ء میں ثابت کیا کہ ایکس رے شعاعیں بھی برقی مقناطیسی ہیں یعنی روشنی ہی ہیں اور کسی کرسٹل میں سے روشنی ہی کی طرح ٹکراتی ہیں۔ مگر ایکس رے شعاعیں کس طرح ایک دھات میں سے خارج ہوتی ہیں اور کیوں ہر عنصر اپنی منفرد ایکس رے شعاعیں پیدا کرتا ہے؟ مزیدان کا کرسٹل سے ٹکرانے کا عمل کیونکر روشنی جیسا ہوتا ہے؟
1896 ء میں فرانسیسی ہنری بیکوریل (متوفی 1908 ء) نے دریافت کیا کہ یورینیم کے نزدیک پڑی کسی فوٹوگرافک پلیٹ پر دھندلاہٹ پیدا ہوتی ہے اگرچہ اس پلیٹ کو کسی کالے کاغذ ہی میں کیوں نہ لپیٹ کر رکھا ہو۔ 1898 ء میں فرانس کی مشہور سائنسدان میری کیوری (متوفی 1934 ء) نے اس عمل کو تابکاری کا نام دیا۔ اس نے دیکھا کہ تھوریم میں بھی یہی عمل ہوتا ہے اور بعد ازاں اس نے دو نئے عناصر پولونیم اور ریڈیم بھی دریافت کیے جن میں تابکاری کا عمل یورینیم سے بھی سینکڑوں گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اسی دوران، 1902 ء میں ارنسٹ لارڈ ردرفورڈ (متوفی 1937 ء) اور اس کے اسسٹنٹ فریڈرک سوڈے (متوفی 1956 ء) نے دیکھا کہ تابکاری کے عمل میں ایک عنصر دوسرے میں تبدیل ہوجاتا ہے، جو کچھ فلسفیوں کے تصور جوہر کے منافی ہے۔ ایک بڑا عنصر دو یا دو سے زیادہ چھوٹے عناصر میں بکھر سکتا ہے۔ بکھرنے کا یہ عمل، ریڈیوایکٹو ڈیکے کہلاتا ہے اور ہر بکھرنے والے عنصر کی ایک عمر ہاف لائف ہوتی ہے جس میں اس عنصر کی مقدار آدھی رہ جاتی ہے۔ 1908 ء میں ردرفورڈ ہی نے دریافت کیا کہ تابکاری شعاعیں تین طرح کی ہیں جنہیں یونانی حروف کے مطابق ایلفا، بیٹا اور گیما شعاعیں کہا گیا۔
ایلفا شعاعیں دراصل ہیلیم عنصر کے آئن ہوتے ہیں جن پر مثبت دو قدر کا برقی بار ہوتا ہے اور ان کا وزن ہائیڈروجن سے قریب چار گنا ہوتا ہے۔ اسی طرح بیٹا شعاعیں دراصل الیکٹران ہی ہیں جو ایٹم کے اندر سے کسی طرح نکلتے ہیں جس کی وضاحت بعد میں ہوگی۔ گیما شعاعوں کے بارے میں 1914 ء میں ردرفورڈ وغیرہ نے معلوم کیا کہ یہ بھی روشنی کی طرح برقی مقناطیسی شعاعیں ہیں جن کی توانائی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ تابکاری شعاعوں کی توانائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تابکاری شعاعوں کی اس قدر توانائی کی کیا وجہ ہے؟ ایٹم کے اندر ایسا کیا ہوتا ہے جو اس قدر توانا شعاعیں پیدا کرتا ہے؟
انیسویں صدی کی پہلی دہائی تک اکثر بڑے ماہرین طبیعیات کو اندازہ ہو چکا تھا کہ مندرجہ بالا تمام سوالوں کے جوابات، ایٹم کی ساخت میں مضمر تھے۔ پہلے پہل جے جے تھامسن کا ماڈل سامنے آیا جسے ”پلم پڈنگ ماڈل“ بھی کہتے ہیں۔ تھامسن نے سوچا کہ ایٹم میں مثبت برقی بار، کھیر کی مانند پھیلا ہوتا ہے جس میں آلوبخارے کی طرح کہیں کہیں منفی بار والے الیکٹران دھنسے ہوتے ہیں اور ایٹم بطور مجموعی نیوٹرل رہتا ہے۔ مثبت ذرات کو آلوبخارے کی طرح ذرات نہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک صرف منفی بار والے الیکٹران ہی دریافت ہو سکے تھے۔ مگر 1909 ء میں ردرفورڈ اور ہانس گائگر (متوفی 1945 ء) اور ارنسٹ مارسڈین (متوفی 1970 ء) نے کچھ تجربات کیے جن میں انہوں نے ایلفا ذرات (ہیلیم کے آئن) کو سونے کے ایک باریک ورق سے ٹکرایا۔ ان تجربات سے ثابت ہوا کہ تھامسن کا ایٹمی ماڈل درست نہیں۔
کچھ ایلفا ذرات سونے کے ورق سے ٹکرا کر بالکل الٹے پاؤں واپس لوٹ رہے تھے جو کہ حیران کن تھا۔ ردرفورڈ کے الفاظ میں یہ ایسا مشاہدہ تھا جیسے توپ کا ایک گولہ کسی کاغذ سے ٹکرا کر واپس پلٹ جائے۔ اسی طرح ایک بہت بڑی تعداد میں ایلفا ذرات سونے کے ورق میں بنا کسی بھی جگہ ٹکرائے سیدھے گزر جاتے تھے۔ یوں ردرفورڈ نے 1911 ء میں بارہا تجربات کے بعد اعلان کیا کہ ایٹم میں مثبت برقی بار رکھنے والا ایٹم کا مرکزہ یا نیوکلیس موجود ہوتا ہے۔ ایٹم کا قریب نناوے فیصد حصہ خالی ہے۔ ردرفورڈ نے ایک ریاضیاتی ماڈل پیش کیا کہ ایٹم میں الیکٹران اس کے مرکز یعنی نیوکلیئس کے گرد مداروں میں حرکت کرتے ہیں بالکل جیسے سورج کے گرد سیارے حرکت کرتے ہیں۔ مثبت نیوکلیئس اور منفی الیکٹران کے درمیان کولمب کی الیکٹرک قوت عمل کرتی ہے اور اسی قوت کے باعث سونے کے ورق والے تجربات میں مثبت بار والے ایلفا ذرات نیوکلیئس سے ٹکراتے ہیں۔
ردرفورڈ کا ایٹمی ماڈل اگرچہ اس کے سونے کے ورق والے تجربے کی وضاحت پیش کرتا ہے مگر اس میں ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ میکسویل کی کلاسیکی فیلڈ تھیوری کا نتیجہ ہے کہ کسی بھی اسراع پذیر (ایکسلریشن والے ) برقی جسم میں سے توانائی مسلسل برقی مقناطیسی صورت میں ضائع ہوتی رہے گی۔ لہذا، نیوکلیئس کے گرد گھومنے والے الیکٹران چونکہ اسراع پذیر ہیں اس لئے کلاسیکل فزکس کے مطابق بہت جلد یہ اپنی توانائی کھو کر نیوکلیئس میں گر جائیں گے (یہ وقت قریب ایک نینو سیکنڈ سے بھی کم ہو گا) اور یوں ایٹم اور اس کے ساتھ تمام مادہ تباہ ہو جائے گا۔ مگر مادہ تو فنا نہیں ہوا ہے یعنی الیکٹران نیوکلیئس میں نہیں گرتا ہے۔ ردرفورڈ کے ایٹم میں نیوکلیس کے گرد الیکٹران کی حرکت کیونکہ مستحکم ہے اور وہ نیوکلیئس میں گر کر تباہ کیوں نہیں ہوتا؟ اسی طرح کلاسیکل فزکس کے برعکس، ایٹم سے خارج ہونے والی روشنی کی شعاعیں مسلسل نہیں بلکہ لائنوں کی شکل میں کیوں ہوتی ہیں؟ لائن سپکیٹرم، ایکس ریز، تابکاری، ردرفورڈ کے تجربات اور ایٹم کے استحکام جیسے تمام مظاہر کی وضاحت کے لئے ایک بار پھر دنیا کو پلانک اور آئن سٹائن کی کوانٹم تھیوری کی طرف رجوع کرنا پڑا۔
(جاری ہے )
- حرکت کا سائنسی تصور ( 14 ) - 15/05/2025
- حرکت کا سائنسی تصور ( 13 ) - 08/05/2025
- حرکت کا سائنسی تصور ( 12 ) - 03/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).