بھارتی جارحیت کا جواب کیوں ضروری؟


Loading

بھارت نے تمام عالمی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، گزشتہ رات ”آپریشن سیندور“ کے نام سے پاکستان پر یک طرفہ جارحیت کا ارتکاب کیا، آئی ایس پی آر کے مطابق، آزاد جموں و کشمیر اور پنجاب کے چھ مقامات پر مختلف ہتھیاروں سے 24 حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں 26 پاکستانی شہری شہید اور 46 زخمی ہوئے۔ پاکستان کی فوج نے فوری اور بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے، ایک بریگیڈ ہیڈکوارٹر اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر ایک اہم چیک پوسٹ بھی تباہ کر دی۔

بھارتی اقدام صریحاً پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے، جس سے نہ صرف نہتے اور بے گناہ شہری شہید ہوئے، بلکہ عبادت گاہوں کا تقدس بھی پامال ہوا۔ تازہ ترین بھارتی جارحیت سے صاف ظاہر ہے کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان خطے میں استحکام کی ضمانت قابل اعتبار اسٹریٹجک ڈیٹرنس اب خطرے میں ہے۔ یہ ایک گہری اور خطرناک تبدیلی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے پاکستانی پالیسی سازوں کو انتہائی فہم و فراست اور تدبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

حتمی اور ناقابل برداشت نتائج کے خوف پر مبنی اسٹریٹجک ڈیٹرنس، ہمیشہ واضح سرخ لائنز پر منحصر ہوتا ہے۔ دہائیوں تک، اسی اصول نے بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگ کو روکے رکھا۔ لیکن اب بھارت کی جانب سے ”سرجیکل“ یا ”پیشگی دفاعی“ حملوں کے نام پر پاکستانی حدود میں حملوں کا رجحان اس استحکام کو چیلنج کر رہا ہے۔

گزشتہ رات کا فضائی حملہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، بلکہ ایک نئی بھارتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایک ”نیو نارمل“ قائم سیٹ کرنا ہے، یعنی بھارت بغیر کسی خوف کے پاکستان میں فوجی کارروائیاں کرتا رہے، اور پاکستان کی طرف سے کوئی موثر ردعمل نہ آئے۔ اگر پاکستان نے مضبوط جواب نہ دیا تو یہ ایک خطرناک مثال بن جائے گی، جو مستقبل میں مزید حملوں کا جواز فراہم کرے گی۔

یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے پاکستان کی سرخ لائن کو عبور کیا۔ 2019 کا بالا کوٹ حملہ یاد رہے، جب بھارت نے خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کے کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ حملے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، مگر بھارت نے اسے کامیابی قرار دیا۔ جواباً پاکستان نے مکمل تدبر کے ساتھ فضائی کارروائی کی، ایل او سی پار بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، اور ایک فضائی لڑائی میں بھارتی مگ۔ 21 طیارہ مار گرایا، جبکہ اس کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کیا۔

بعد ازاں، اُسے خیرسگالی کے تحت رہا کر دیا گیا، لیکن یہ پیغام واضح تھا کہ پاکستان ذمہ داری سے مناسب انداز میں جواب دے گا، اُس وقت بحران کا خاتمہ خاموشی سے نہیں، بلکہ قوت اور عزم سے ہوا، اور یہ وقت بھی اسی جرات و شجاعت کا متقاضی ہے۔

بھارتی جارحیت کے جواب میں کچھ لوگ حکمت اور تدبر کے تحت صبر کا مشورہ دے رہے ہیں، مگر جب صبر کو کمزوری سمجھا جائے، تو جارحیت بڑھ جاتی ہے۔ فوجی حکمتِ عملی میں ”ایسکیلیٹ ٹو ڈی ایسکیلیٹ“ کا مطلب ہوتا ہے ابتدائی اور محدود ردعمل دے کر بڑی جنگ کو روکنا۔ پاکستان کو بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر بڑی جنگ سے خطے کو محفوظ بنانا ہو گا۔

گزشتہ رات کے بھارتی حملے کے بعد پاکستان کا جوابی اقدام اسی سمت میں ایک قدم ہے، مگر اب سفارتی کوششوں، عسکری تیاری، اور موثر عالمی رابطوں کے ذریعے اسے مزید آگے بڑھانا ہو گا۔ دفاعی توازن صرف جوابی کارروائی سے بحال نہیں ہوتا، یہ مستقل مزاجی، پختہ ارادے، اور خلاف ورزیوں کو برداشت نہ کرنے کے عزم سے قائم ہوتا ہے۔ اب اگر پاکستان موثر انداز میں جواب دے، تو وہ مستقبل کے خطرات کو روک سکتا ہے اور بھارت کو واضح پیغام دے سکتا ہے کہ ہر جارحیت کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

پاکستان کے خلاف بھارت کی نئی حکمت عملی، یک طرفہ دعوؤں کی بنیاد پر حملے کرنے اور عالمی منظوری کے بغیر کارروائیاں کرنے کی ہے۔ یہ عالمی اصولوں اور ریاستی خودمختاری کے خلاف ہے، اور دنیا بھر میں سرحد پار طاقت کے یک طرفہ استعمال کو جواز فراہم کرتی ہے۔

بھارت دراصل جنوبی ایشیا میں جنگی اصول تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر بھارت کو اجازت دے دی جائے کہ وہ پہلے حملہ کرے، اور بعد میں اس کے لیے جواز تلاش کرے، تو پاکستانی خودمختاری اور سرحدوں کی حرمت کا تصور ہی مٹ جائے گا۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہے۔

یہ خیال کہ پاکستان معنی خیز ردعمل نہ دے کر کشیدگی سے بچ جائے گا، نہایت سادہ لوحی اور خطرناک ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دباؤ قبول کرنے سے جارحیت کم نہیں ہوتی، بلکہ بڑھتی ہے۔ خاموشی یا کمزور ردعمل بھارت کو مزید جری بنا سکتا ہے، اور بڑے تصادم کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

بھارت کو منہ توڑ جواب دینا محض عسکری مسئلہ نہیں، بلکہ قومی سلامتی کا تقاضا ہے۔ پاکستان کو اپنی فضائی حدود، سرزمین، اور شہریوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ آج کی خاموشی کل کے بڑے نقصانات کا سبب بن سکتی ہے اور قوم کو شدید جانی نقصان کا موجب بننے کے ساتھ قومی وقار کے بھی منافی ثابت ہو سکتا ہے۔

اس نازک موقع پر اندرونی اتحاد اتنا ہی ضروری ہے جتنا بیرونی تیاری۔ حکومت، فوج اور اپوزیشن کو ایک صف میں کھڑا ہونا ہو گا تاکہ دنیا کو پیغام جائے کہ پاکستان اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستانی عوام بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔

اس نازک مرحلے میں تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر پوری قوم کو پاکستان کی مسلح افواج کے شانہ با شانہ کھڑا ہونا ہو گا۔ سول و عسکری قیادت کو خطے کے پاکستانی اتحادیوں اور عالمی طاقتوں کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کرنا ہو گا اور بھارت پر دباؤ ڈالنا ہو گا کہ وہ جنگی جنون سے پرہیز کرے۔

بھارت نے ہمیشہ بیانیہ کی جنگ میں ہر تصادم کو دہشت گردی کا ردعمل کہہ کر خود کو مظلوم ظاہر کیا ہے۔ پاکستان کو اب سچ کو میڈیا، عوامی سفارت کاری، اور تزویراتی روابط کے ذریعے جارحانہ انداز میں دنیا کے سامنے رکھنا ہو گا۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت اب ایک ”شدت پسند“ ہندوتوا ریاست بن چکی ہے، جو قانونی اور اخلاقی نتائج کی پرواہ کیے بغیر طاقت کے ذریعے اپنی مرضی تھوپنا چاہتی ہے، پاکستان کو اس خطے میں امن و استحکام کے لیے اس رویے کو بے نقاب کرنا ہو گا۔

آخر، پاکستان کا جواب کسی صوابدیدی فیصلے کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک تزویراتی ضرورت ہے۔ پاکستان کے دفاعی توازن کو چیلنج کیا گیا ہے، اور ناکافی ردعمل سے دہائیوں کی حکمت عملی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بھارت کو جنوبی ایشیا میں نئے اصول نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر امن کو قائم رکھنا ہے تو پاکستان کو اپنا دفاعی توازن مضبوطی سے بحال کرنا ہو گا، یہی وہ زبان ہے جو بھارت سمجھتا ہے، اور یہی مستقبل کے خطرات سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ پاکستان امن چاہتا ہے، لیکن اس کی خواہش کو نہ کمزوری سمجھا جائے اور نہ پاکستان اپنی خودمختاری یا وقار پر کوئی سمجھوتا کرے گا، چاہے اس کے لیے اسے اپنی بقاء کی جنگ ہی کیوں نہ لڑنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments