پاکستان انڈیا جنگ ناگزیریت کے تناظر میں


Loading

ڈھول اگر گلے پڑ جائے تو پھر اسے بجانا ہی پڑتا ہے کے مصداق مسلط شدہ جنگوں کو جو کہ ناگزیر ہو جاتی ہیں کو ٹال مٹول، بات چیت، صلح کی کاوشوں، خفیہ سفارت کاری اور مذاکرات کے حیلے بہانوں سے مختصر عرصہ کے لیے مو خر تو کیا جا سکتا ہے لیکن بالآخر انہیں لڑنا ہی پڑتا ہیں اور بغیر لڑے ان سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ مثال کے طور پر 2014 ء میں روس نے یوکرائن کے علاقے کریمیا پر فوجی یلغار کر کے قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت کی یوکرائنی سیاسی قیادت نے جنگ لڑنے کی بجائے مصلحت سے کام لیا حالانکہ اس وقت یوکرائن کو وہ جنگ لڑنی چاہیے تھی۔ جنگ نہ لڑنے کی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں مگر یہ طے ہے کہ اس وقت کی یوکرائنی قیادت جنگ سے گریزاں تھی مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یوکرائن ایک ملک یا قوم کے طور پر جنگ سے بچ پایا تو جواب نفی میں ہے۔

2022 ء میں روس نے پھر سے یوکرائن پر فوجی حملہ کر کے اس کے 20 فیصد اہم علاقے پر قبضہ کر لیا مگر اس دفعہ یوکرائن کی قیادت نے غیرت سے کام لیا اور جوابی جنگ کا طبل بجا دیا اس تین سالہ جنگ کا نتیجہ ابھی تک تو کچھ نہیں نکلا مگر ولادیمیر زیلنسکی دنیا میں ایک جنگی ہیرو کے طور پر ابھر رہا ہے۔ روس کی پیش قدمی رک چکی ہے اور اب معاملات امن کی طرف جا رہے ہیں۔ ”چور کی چوری شاید سنگین بات نہ ہو مگر چور کا گھر یا راستہ کو دیکھ لینا اور فریق دوئم کو آسان شکار گردان لینا بہت مہلک ثابت ہوا کرتا ہے“ ۔

1261 ء میں منگول فوج نے مصر کا گھیراؤ کر لیا اور پیغام دیا کہ شہروں کے دروازے کھول دیے جائیں بصورت دیگر تباہی کے لیے تیار ہو جائیں۔ یاد رہے کہ اس وقت تک منگول افواج ناقابل شکست تھیں۔ اس وقت سیف الدین قطز مصر کا بادشاہ اور مصری افواج کا جنرل رکن الدین بیبرس تھا۔ بادشاہ مصلحت پسندی کا شکار تھا جبکہ بیبرس بھانپ چکا تھا کہ جنگ ”ناگزیر“ ہے اور درمیانی راستہ کوئی نہیں ہے صلح کے نتیجہ میں بھی تباہی ہی ہے۔ چنانچہ جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوا اور بیبرس نے ایک انوکھی جنگی چال چلی۔ منگول فوج کو مصمم یقین تھا کہ ان پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ بیبرس کی فوج نے رات کے وقت منگول فوج پر شب خون مار دیا اور سوئی ہوئی منگول فوج کو اس کے جرنیل قطبوغہ سمیت کاٹ کر رکھ دیا۔ اس شکست کے بعد منگول یلغار جو دنیا بھر میں جاری تھی رک گئی اور منگول سلطنت سکڑتے سکڑتے آج منگولیا یا ’اولان بتار‘ تک محدود ہو چکی ہے۔

روسی انقلاب کے بانی ولادیمیر لینن بھی جرمنی سے جنگ سے گریزاں تھے اور انہوں نے جرمنی کی شرائط پر صلح کے معاہدے بھی کیے مگر جلد ہی دوسری جنگ عظیم کے دوران عظیم روسی قائد سٹالن کی قیادت میں بالآخر روس کو نازی جرمنی سے فیصلہ کن جنگ لڑنی پڑی اور فتح حاصل کر کے فسطائیت کو دفن کر دیا۔

جنگ عظیم اول اور دوئم دونوں ناگزیر قسم کی جنگیں تھیں۔ کامیابی کے ثمرات جنگ لڑ کر اور جیت کر ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جو ملک ان جنگوں سے گریزاں ہوئے آج وہ تیسری دنیا کے طور پر تسلیم کیے جاتے ہیں یا دنیا کی سیاست میں ان کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے اور جو یہ جنگ جیتے وہ آج بھی دنیا کی سیاست میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اسی طرح کی ایک ناگزیر جنگ تھی یا ہے۔ جن ممالک نے بروقت فیصلے کیے وہ مستقبل میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سے محفوظ رہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں 9 / 11 کے بعد کوئی خاص دہشت گردانہ کروائی نہیں ہوئی ہے۔ گزشتہ 24 سالوں کے دوران برطانیہ، فرانس، سپین، جرمنی میں کل 9 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان میں آخری حملہ 2017 ء میں سپین میں ہوا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ ہم یہاں یہ مفروضہ کر سکتے ہیں کہ ان ممالک نے بظاہر دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران وطن عزیز میں مارچ 2025 ء تک 1100 سے زائد چھوٹے بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ زخمی اور شہداء کی کل تعداد دو سے چار لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے۔ مستند اعداد و شمار اکٹھے کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے باوجود اس کے ابھی تک ہماری افواج حالت جنگ میں ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، حوصلے بلند ہیں مگر بدقسمتی سے جنگ ابھی تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکی ہے۔ جنگ کی اس بلاوجہ طوالت کے بہت سارے عوامل زیر بحث لائے جا سکتے ہیں مگر ہم اس مختصر کالم میں صرف ایک عنصر کا مختصر تجزیہ کریں گے۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جنگیں افواج نہیں اقوام لڑا کرتیں ہیں۔ اس کہاوت میں فوج اور قوم کوئی علیحدہ علیحدہ وجود کی مالک نہیں ہوتیں بلکہ یک جان ہوتیں ہیں۔ جنگ کے تکنیکی معاملات مثال کے طور پر بندوقیں، توپیں، میزائل داغنا، مورچے اور میدان جنگ وغیرہ کے معاملات فوج کے ذمہ ہوتے ہیں اور باقی ماندہ قوم فوج کی مدد، راہنمائی، پشت پناہی، وکالت، لابنگ اور فوجیوں کے حوصلے بڑھانے کا کام کرتی ہے۔ قوم اور فوج کا یہ امتزاج جنگ میں مکمل فتح کی کلید ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ جب کودا تھا تو اس وقت پاکستان میں عام خیال تھا کہ امریکہ میں چند تابوت جانے کی دیر ہے اور اس کے نتیجہ میں امریکہ میں کہرام کا سماں ہو گا اور گلی گلی ماتم و احتجاج برپا ہو جائے گا۔ امریکہ نے 20 سال جنگ لڑی ہزاروں تابوت امریکہ گئے مگر امریکی قوم نے اف تک نہ کی کیونکہ وہ فوج کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ جنگ میں گو کہ امریکہ پوری طرح فتح یاب تو نہ ہو سکا مگر اس نے اپنے آپ کو مزید دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ ضرور کر لیا۔ ویسے بھی امریکہ کا جغرافیہ اس کا قدرتی محافظ ہے۔

ماضی کی غلطیاں ہوں یا کچھ بھی وجوہات ہوں بہرکیف پاکستانی فوج کو بھی جنگ میں کودنا پڑا۔ یہاں ہم ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ پاکستان کا جنگ میں کودنا ایک غلطی تھی تو کیا پوری دنیا میں اسلامی خلافت قائم کرنے کے دعوے دار پاکستان کو معاف کر دیتے اس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہماری شاید ذاتی رائے ہو کہ اس وقت پاکستانی فوج کا جنگ لڑنے کا فیصلہ درست تھا۔ اگر اس وقت فوج جنگ کر کے دہشت گروں کا راستہ نہ روکتی تو اس وقت تک پاکستانی سیاست میں انتہا پسندوں کے وکلاء اور ہمدردوں سمیت آدھے پاکستانیوں کی گردنیں کٹ چکی ہوتیں اور باقی ماندہ ہر قسم کے انسانی اور جمہوری حقوق سے محروم ہو چکے ہوتے۔

طالبان اور دوسرے دہشت پسند گروہ جتنے مرضی طاقتور ہو جائیں یہ پاک فوج سے نہیں جیت سکتے اور پاکستان 25 کروڑ آبادی اور ایک بڑے رقبے والا ملک ہے جسے داعش سمیت تمام دنیا کے دہشت گرد گروہ مل کر بھی فتح نہیں کر سکتے۔ ابھی تک معاملہ فوج، پولیس اور دوسری لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہے اور خدا نہ کرے کہ کبھی معاملہ عوام تک پہنچ جائے۔ عوام نے صرف جوتوں کی مدد سے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ملک سے نکال باہر کرنا ہے اور انہیں دنیا بھر میں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔

انڈیا کی طرف سے پاکستان پر موجودہ بلاجواز و اشتعال فوجی حملے کو بھی ناگزیر یا مسلط شدہ جنگوں میں شمار کیا جا سکتا ہے پہلگام میں دہشت گردی محض بہانہ ہے۔ انڈیا ہمیشہ سے اپنے آپ کو ایک سپر پاور یا کم از کم علاقائی پاور ضرور سمجھتا ہے اور پاکستان کو اپنے راستہ کی رکاوٹ سمجھتا رہا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان اگر کامیابی سے اپنا دفاع ہی کر لیتا ہے تو پاکستان کا شمار دنیا کے اہم ممالک اور خطہ کی اہم ترین طاقتوں میں ہو گا اور انڈیا کے ٹکڑوں میں بکھرنے کے امکانات مزید بہتر ہوجائیں گے کیونکہ سیاسی موقف کے اعتبار سے اس وقت کا انڈیا ہٹلر اور نیتن یاہو کے صریحاً غلط سیاسی موقف یا نظریات کے ساتھ کھڑا ہے۔ ”ناگزیریت کا تناظر“ سے ہم نے یہی سیکھا ہے کہ ممالک جنگیں لڑ کر آگے نہیں بڑھتے بلکہ مسلط شدہ جنگوں کا کامیابی سے دفاع کر کے دنیا میں مقام پاتے ہیں۔

جنگ مخالف مبلغین کا موقف ہے کہ بات چیت یا ڈائلاگ کا عمل ہی جنگ کا بہترین نعم البدل ہے لہذا جنگ نہیں امن وغیرہ۔ پاکستان گزشتہ 24 سالوں سے حالت جنگ میں ہے اس عرصہ کے دوران ایک سیاست کے طالب علم ہونے کے ناتے ہم نے امن کی ملکی اور عالمی فاختاؤں کے لیکچر بھی سنے اور جنگ لڑنے والوں کی مشکلات اور قربانیوں کو بھی دیکھا۔

اس کالم کے ذریعے ہماری سیاسی لیڈران اور پاکستانی عوام سے بھی درخواست ہے کہ وہ انڈیا کے کسی بھی پروپیگنڈا کا شکار نہ ہوں اور حوصلے کے ساتھ پاک افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ یاد رہے کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments